حکومت کی غلط معاشی پالیسیوں کا بوجھ عوام مہنگائی کی صورت میں اٹھا رہے ہیں، بلاول

51

کراچی: پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ جب تک حکومت کی آئی ایم ایف کیساتھ ڈیل اسی طرح سے چلتی رہے گی اس وقت تک پاکستان کے عوام تکلیف میں ہوں گے اور ان کی غلط معاشی پالیسیوں کا بوجھ عوام مہنگائی کی صورت میں اٹھا رہے ہیں۔ 

 

وزیراعلیٰ سندھ سیّد مراد علی شاہ کے ساتھ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ سندھ میں نئے بلدیاتی نظام کے حوالے سے کسی کو بھی لسانی سیاست نہیں کرنی چاہیے اور اس شہر اور صوبے کے عوام الطاف حسین کی سیاست کو رد کر چکے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اگر ہم کراچی کو سنبھال سکتے ہیں، اگر ہم حق دلا سکتے ہیں اور شہر قائد میں ترقی کرا سکتے ہیں تو ملک میں ترقی کرا سکتے ہیں۔

 

انہوں نے مزید کہا کہ کراچی کی ترقی اور یہاں کے عوام کو حقوق کی فراہمی کے لیے ایک بااختیار لوکل گورنمنٹ سسٹم دینا پڑے گا اور ہماری خواہش یہی ہے کہ لوکل گورنمنٹ سسٹم میں کراچی میں ہماری حکومت بنے اور وفاقی سطح پر بھی پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت بنے۔ سندھ کا بلدیاتی نظام بہتر ہو رہا ہے، سندھ بھر میں نئے بلدیاتی نظام نے اپنی پہلی مدت مکمل کی اور ہم واحد صوبائی حکومت تھی جنہوں نے اپنے بلدیاتی نظام کی مدت مکمل کی۔

 

چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ بلدیاتی نظام میں بہتری کے نتیجے میں اس کو پچھلے نظام کے مقابلے میں زیادہ اختیارات ملیں گے، انہیں زیادہ ذمے داریاں دی جا رہی ہیں تاکہ وہ اپنا ٹیکس خود اکٹھا کر سکیں، اپنے وسائل کا خود بندوبست کرے اور پراپرٹی ٹیکس کو ہم بلدیاتی حکومت کے حوالے کررہے ہیں۔ اس وقت ہم کراچی سے پراپرٹی ٹیکس کی مد میں صرف ایک ارب روپے اکٹھا کرتے ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہم یہ اختیار بلدیاتی حکومت کو دیں گے اور وہ اپنے علاقے کا پراپرٹی ٹیکس جمع کرنا شروع کردیں گے تو یہ ان کے لیے ریونیو کا بڑا سبب بن سکتا ہے۔ ہم نے شہروں کے لیے جو ٹاؤن کا نظام اپنایا ہے اس سے ہمارے بڑے بڑے اضلاع کے مسائل نمٹنے میں مدد ملے گی، جب ان اضلاع میں مزید ٹاؤنز بنیں گے تو نمائندوں کو اتنے بڑے آبادی والے شہر کے مسائل حل کرنے میں مدد ملے گی۔

 

انہوں نے ایم کیو ایم کا نام لیے بغیر کہا کہ ہماری محنت اور کوشش کو کراچی کے عوام دیکھ رہے ہیں کہ ایک جماعت کی 30سال کی کارکردگی ایک طرف اور مرتضیٰ وہاب کی دو تین مہینے کی کارکردگی ایک طرف ہے اور جب پیپلز پارٹی پارٹی کا منتخب نظام ہو گا تو ہم مزید نتائج دکھا سکیں گے۔

 

ان کا کہنا تھا کہ کسی کو بھی لسانی سیاست نہیں کرنی چاہیے، یہ لوگ ماضی میں بھی اس طرح کی سیاست کرتے رہے ہیں، ہمیں الیکشن کمیشن کی پابندیوں کی وجہ سے اس قانون کو جلدی پاس کرنا پڑا ورنہ ہمارا ارادہ تھا کہ مردم شماری کے جھگڑے نمٹانے کے بعد اسی قانون کے حوالے سے ناصرف اپوزیشن اراکین بلکہ سول سوسائٹی کے اراکین سے مشاورت کرتے لیکن ہمیں 30نومبر تک اسے منظور کرنا پڑا۔ ایسا لگتا ہے کہ اپوزیشن جماعتوں نے اس قانون کو پڑھا نہیں ہے ورنہ انہیں پتہ چلتا کہ اس قانون میں ایم کیو ایم اور تحریک انصاف مختلف جماعتوں کی ان تجاویز کو شامل کیا گیا ہے جس کا وہ ماضی میں وہ مطالبہ کرتے رہے ہیں۔

 

تبصرے بند ہیں.