آرمڈ فورسز کے ڈسپلن کا اطلاق سویلینز پر کیسے ہو سکتا ہے؟:سپریم کورٹ

108

 

اسلام آباد:سپریم کورٹ میں سویلینز کے ملٹری کورٹس میں ٹرائلز کے فیصلے کے خلاف اپیلوں کی سماعت کے دوران اہم سوالات اٹھائے گئے۔ جسٹس جمال خان مندو خیل نے ریمارکس دیتے ہوئے پوچھا، "جو شخص آرمڈ فورسز کا حصہ نہیں ہے، وہ اس کے ڈسپلن کے تحت کیسے آ سکتا ہے؟”

آئینی بنچ کی سربراہی جسٹس امین الدین خان کر رہے تھے اور اس میں سات ججز شامل تھے۔ دورانِ سماعت، جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ ملٹری کورٹس میں زیر حراست افراد کو ایف آئی آر کی نقول فراہم نہیں کی گئیں۔ وفاقی حکومت کے وکیل خواجہ حارث نے اس بات کی وضاحت کی کہ ملٹری کورٹس کے فیصلے میں دو اہم باتیں شامل ہیں: ایک میں آرمی ایکٹ کی دفعات کو کالعدم قرار دیا گیا ہے، اور دوسرے میں ملزمان کی کسٹڈی پر سوال اٹھایا گیا ہے۔

جسٹس جمال خان مندو خیل نے اس بات پر زور دیا کہ اگر کوئی شخص آرمڈ فورسز کا حصہ نہیں ہے تو اس پر آرمڈ فورسز کے ڈسپلن کا اطلاق کیسے ہو سکتا ہے؟ جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ "اگر قانون اجازت دیتا ہے تو ڈسپلن کا اطلاق ہوگا۔”

جسٹس محمد علی مظہر نے سوال کیا کہ کیا پانچ رکنی بنچ نے آرمی ایکٹ کی دفعات کو آئین کے آرٹیکل 8 سے متصادم قرار دیا تھا؟ انہوں نے اس بات کا بھی ذکر کیا کہ گزشتہ فیصلوں میں آرمی ایکٹ کی دفعات کو آئین کے آرٹیکل 8 سے متصادم قرار دیا گیا تھا۔

فی الحال سپریم کورٹ نے کیس کی مزید سماعت کل تک ملتوی کر دی ہے

تبصرے بند ہیں.