گز شتہ جمعرات پاکستان سٹاک ایکسچینج میں شدید مندی، چند گھنٹوں میں دو ہزار پوائنٹس کی گراوٹ، ڈالر کا تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ جانا، ماہانہ بنیادوں پر بڑھتی ہوئی مہنگائی، جو قریب دو برس کا ریکارڈ توڑ چکی ہے اور تجارتی خسارہ جو گزشتہ ماہ 162 فیصد تک پہنچ چکا تھا، حکومتی معاشی پالیسیوں کی قلعی کھول رہا ہے۔ یہ سب کیسے اور کس رفتا ر سے ہوا، ذرایہ اعدا دو شما ر ملا حظہ فرما یئے:
پٹرول 70سال میں 80روپے پر پہنچا لیکن 3سال میں 148روپے پر پہنچ گیا۔ قرضہ 70سال میں 25ہزار ارب روپے پر پہنچا لیکن 3سال میں 45ہزار ارب روپے پر پہنچ گیا۔ ڈالر 70سال میں 105روپے پر پہنچا لیکن 3سال میں 175روپے پر پہنچ گیا۔ چینی فی کلو 70 سال میں 55 روپے پر پہنچی لیکن 3 سال میں 110روپے پر پہنچ گئی۔ گھی فی کلو 70 سال میں 170 روپے پر پہنچا لیکن 3 سال میں 360روپے پر پہنچ گیا۔ آٹا فی کلو 70 سال میں 35روپے پر پہنچا لیکن 3 سال میں 90 روپے پر پہنچ گیا۔ سونا فی تولہ 70 سال میں 50 ہزار روپے پر پہنچا لیکن 3 سال میں ایک لاکھ 10 ہزار روپے پر پہنچ گیا۔ کشمیر 70 سال متنازع رہا لیکن3 سال میں بھارتی ریاست بن گیا۔ ڈی اے پی کھاد فی بوری 70 سال میں 3500 روپے پر پہنچی لیکن 3 سال میں 7000 روپے پر پہنچ گئی۔ جو دوائی 70 سال میں 110 روپے پر پہنچی وہ 3 سال میں 330 روپے پر پہنچ گئی۔ بجلی فی یونٹ 70 سال میں 8 روپے پر پہنچی لیکن 3 سال میں 21 روپے پر پہنچ گئی۔ گیس کا جو بل 70 سال میں 300روپے پر پہنچا وہ3 سال میں 2000 روپے پر پہنچ گیا۔ جو گاڑی70 سال میں 7 لاکھ پر پہنچی وہ3 سال میں 330 روپے پر پہنچ گئی۔ بجلی فی یونٹ 70 سال میں 8 روپے پر پہنچی لیکن 3 سال میں 21 روپے پر پہنچ گئی۔ گیس کا جو بل 70 سال میں 300روپے پر پہنچا وہ 3 سال میں 2000 روپے پر پہنچ گیا۔ جو گاڑی 70 سال میں 7 لاکھ پر پہنچی وہ 3 سال میں 12 لاکھ پر پہنچ گئی۔ جو موٹرسائیکل 70 سال میں 95 ہزار روپے پر پہنچی وہ 3 سال میں ایک لاکھ 50 ہزار روپے پر پہنچ گئی۔ تعلیم یافتہ طبقہ میں بیروزگاری 3 فیصد تھی اب 16 فیصد پر آ گئی ہے۔ ان تین سال میں غریبوں کا خون چوسنے کے علاوہ حکومت نے اور کیا کام کیا ہے؟ یہاں کہنے کی بات یہ ہے کہ معیشت اعتماد اور اطمینان کی فضا میں پنپ سکتی ہے اور اس کے لیے حقیقی اقدامات درکار ہوتے ہیں مگر یہاں اس کی تشویشناک قلت ہے اور فقط طلاقتِ زبان اور دعووں، دلیلوں پر کوئی کہاں تک اعتبار کرے، عملی اور حقیقی طور پر بھی تو کچھ دکھائی دینا چاہیے۔ جب اس جانب کوئی پیش رفت نظر نہیں آتی تو مایوسی دوچند ہوجاتی ہے۔ حکومت کے پاس شاید تسلیوں کے سوا دینے کے لیے کچھ نہیں مگر یہ صورت حال ایسی دلدل ثابت ہورہی ہے جس میں قومی معیشت بتدریج دھنستی جارہی ہے۔ آئے روز کوئی ایک واقعہ اس بحرانی صورت حال کا حاشیہ بن
جاتا ہے۔ گزشتہ روز سٹاک مارکیٹ کی اچانک اور غیرمتوقع گراوٹ خسارے کے اس منظر پر چھائی رہی جو دن ڈیڑھ بجے تک سرمایہ کاروں کے کم از کم تین سو ارب روپے چاٹ چکی تھی۔ اس کے اثرات ملکی کرنسی پر شدید دباؤ کی صورت میں بھی سامنے آئے۔ حقیقت یہ ہے کہ روپے کی قدر پچھلے دو ماہ کے دوران سنبھل نہیں سکی۔ کرنسی کی قدر میں گراوٹ ایک الگ بات ہے، یہاں قدر میں استحکام کی صورت بھی نظر نہیں آتی۔ یہ معاشی بے یقینی کی واضح علامت ہے اور سٹاک مارکیٹ میں بے قابو گراوٹ سے بڑی بے یقینی کیا ہوسکتی ہے۔ چنانچہ اس کے اثرات ڈالر کی شرح مبادلہ پر بھی سامنے آئے اور اوپن مارکیٹ میں یہ 178 روپے تک پہنچ گیا۔ ماہرین تجارتی خسارے، توانائی کے بحران اور صنعتی شعبے میں بے چینی کو اس بے یقینی کا سبب قرار دیتے ہیں جبکہ کورونا کے نئے خطرات، یورپی مارکیٹ میں جن کے اثرات واضح ہونا شروع ہو گئے ہیں، ان عوامل میں ایک نیا اضافہ بن رہے ہیں۔ داخلی سطح پر مہنگائی کا منظر نامہ بھی معاشی بحران کو جانچنے کا ایک پیمانہ ہے اور گزشتہ ماہ کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ اکتوبر کی نسبت مہنگائی مجموعی طور پر 11.5 فیصد بڑھ گئی۔ یوں نومبر کے دوران مہنگائی نے گزشتہ 21ماہ کا ریکارڈ توڑ دیا۔ مہنگائی میں مجموعی اضافہ چیدہ چیدہ ضروری اور اہم اشیا کی قیمتوں کو سامنے رکھ کر اخذ کیا جاتا ہے، اس فارمولے میں یہ بات کبھی ظاہر نہیں ہوتی کہ جو اشیا زیادہ اہم اور ضروری ہیں ان کی قیمتوں میں اضافہ کس قدر ہوا ہے۔ چنانچہ ماہرین جو تجزیے کرتے ہیں اس میں عام شہری اور عام صارف کا کیا حشر ہوا، یہ نمایاں نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ سرکاری ماہر اور حکومتی ترجمان ہمیں خطے کی خبریں سناتے اور یہ بتاتے ہیں کہ ضروری اشیائے صرف کی ”ٹوکری“ ہمارے ہاں اب بھی سستی ہے اور جنوبی ایشیا میں مہنگی۔ اس میں شک نہیں کہ مہنگائی ایک عالمی حقیقت ہے، اس میں بھی شک نہیں کہ جب سے دنیا کورونا کی لپیٹ میں آئی ہے مہنگائی پوری دنیا کے لیے ایک مسئلہ بن چکی ہے۔وبا کی وجہ سے ہر ملک کی معیشت بری طرح متاثر ہوئی ہے مگر ہماری معیشت جو پہلے ہی ناتواں تھی، وبا کے حملے بعد ڈھیر ہونے کو ہے۔ قرضوں پر گزارا ہے۔ قرض مل جاتا ہے تو حکمران ایک دوسرے کو مبارک باد دیتے ہیں۔ ہمارے ہاں بے تحاشا مہنگائی کی دو بڑی وجوہ ہیں۔ اول: ہماری کرنسی کی کمزوری اور دوم: درآمدات پر انحصار۔ کمزور کرنسی جب درآمدات میں ڈھلتی ہے تو مہنگائی اس کے ایک نتیجے کی صورت میں سامنے آتی ہے۔ موجودہ حکومت نے اپنے شروع دنوں میں درآمدات اور درآمدی خسارہ کم کرنے کا عزم ظاہر کیا تھا، روپے کی قدر میں کمی کا بھی یہی جواز پیش کیا گیا کہ اس سے درآمدی خسارہ کم کرنے میں مدد ملے گی مگر یہاں بھی حکومت کی کارکردگی زبانی دعووں کے برعکس نظر آتی ہے۔ درآمدی خسارے میں کس تیزی سے اضافہ ہوا ہے اس کے لیے یہی دیکھ لیں کہ اس سال نومبر کا درآمدی بل گزشتہ برس کے اسی ماہ کے مقابل میں دو گنا تھا۔ مگر یہ کسی ایک مہینے کی بات نہیں، رواں مالی سال کے پہلے پانچ ماہ میں مجموعی تجارتی خسارہ گزشتہ برس کے پہلے پانچ ماہ کے مقابلے میں 117 فیصد سے بھی تجاوز کر گیا ہے۔ اگرچہ اس دوران برآمدات میں بھی کچھ اضافہ ہوا مگر درآمدات کے مقابلے میں برآمدات کی نمو معمولی ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ ہم بدستور ایک کنزیومر معاشرہ ہیں اور درآمدی معیشت۔ مگر گزارے اور قرضوں کی شرائط کو پورا کرتے ہوئے نڈھال ہوجانے والی معیشت کو اس صورت حال نے دہری اذیت سے دوچار کیا ہے۔ حکومت کے معاشی تجربات نتائج دکھانے میں کامیاب نظر نہیں آرہے اور ملکی معیشت پر بے یقینی کے بادل گہرے ہوتے جارہے ہیں اور بدقسمتی یہ کہ یہ سب کچھ ایسے وقت میں ہورہا ہے جب دنیا کورونا کے ایک نئے وائرس کے خطرے سے دوچار ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ آگے کیا ہوگا۔ حالات اگر پابندیوں کی طرف گئے تو اس کے اثرات ہمارے لیے خاص طور پر ناگفتہ بہ ہوں گے۔ یہ حالات وطن کا درد رکھنے والے حلقوں کے لیے چیلنج ہیں کہ اپنی صلاحیتوں اور کوششوں کو ملک کے اس معاشی ابتری کی دلدل سے نکالنے کے لیے بروئے کار لائیں۔ ایسے حالات وسیع قومی اتفاقِ رائے کے متقاضی ہوتے ہیں جہاں تمام متعلقہ فریق سر جوڑ کر بیٹھتے اور مسائل کا حل تلاش کرتے ہیں۔
Prev Post
تبصرے بند ہیں.