پنڈال لوگوں سے کھچا کھچ بھرا تھا، بلکہ یوں کہا جائے کہ وہاں تل دھرنے کو جگہ نہ تھی تو یہ مبالغہ نہ ہوگا، ملی نغموں کی بلند صدائیں اور فلک شگاف نعرے کان پھاڑنے کو کافی تھے، پھر ایسے میں ان تمام منچلوں کا لیڈر سٹیج پہ آیا اور اس نے ایک دھواں دھار تقریر کی۔ اس کے بعد اس نے اپنے بیرونِ ملک مقیم ہم وطنوں کو مخاطب کر کے کہا کہ وہ ترسیلاتِ زر کو محدود کر دیں، گر پیسے بھیجنے ہی ہیں تو حوالہ سے بھیج دیں، سیکڑوں کیمروں کے سامنے، بھرے مجمعے میں اس ہر دلعزیز لیڈر نے اپنا بجلی کا بِل پھاڑ کر جلا دیا ، نعروں کا ایک نہ تھمنے والا طوفان بپا ہو گیا، اس پنڈال میں تبدیلی کا خواہاں ہر جوان یہ سمجھ رہا تھا کہ شاید انہیں ان کا مسیحا مل گیا ہے، پھر مسیحا کا دور آیا اور ملک تباہی کے دہانے پہ جا کھڑا ہوا، حوالہ ہنڈی کے باعث ملک کو ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں ڈال دیا گیا، ہر دلعزیز لیڈر اپنی رعونیت، فرعونیت اور ناقابلیت کے باعث اتار کر کہیں کونے کھدرے میں رکھ چھوڑ دیا گیا، وقت کا پہیہ چلتا رہا، اسرائیل نے فلسطین پہ ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ ڈالے، تمام تر جنگی اخلاقیات کو پامال کرتے ہوئے سکول ہسپتال مساجد سب مسمار کر چھوڑیں، شہروں کے شہر قبرستان بنا ڈالے، شیر خوار بچوں کے لہو سے ہولی کھیلی گئی، عورتوں کے سہاگ اجڑ گئے، بچوں کے باپ مر گئے، حتیٰ کہ ہسپتالوں میں زیرِ علاج مریضوں کی بموں سے ایسی جراحت کی گئی کہ جسے لفظوں میں بیان کرنا مشکل ہے، اسرائیل نے اتنی بڑی تعداد میں مسلمانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ پھینکنے کے ساتھ ان کی تدفین کا بندوبست بھی کر دیا، لاشوں کے ڈھیر پر مسمار عمارتوں کے ملبے نے قبر کی رسم نبھائی، یہ سارا ستم دیکھ کر امت کا دل لرز اٹھا، احتجاج کیے گئے، ریلیاں نکالی گئی، اور سب متفق ہو گئے کہ یہودی پراڈکٹس کا بائیکاٹ کر دیں گے، ہم اگر اور کچھ نہیں کر سکتے تو کم از کم اپنی جیب سے انہیں فائدہ پہنچانے سے تو باز آ ہی سکتے ہیں جو ہمارے کلمہ گو بھائیوں کے لہو کی ندیاں بہا رہے ہیں، لوگوں نے غیر ملکی اشیاء کا استعمال بند کر دیا، ہر دلعزیز لیڈر ایک بار پھر سے اٹھا اور اپنے کچھ مطالبات پورے نہ کرنے پر لوگوں کو سول نافرمانی پہ اکسانے لگا، اس نے ایک بار پھر سے کہا کہ باہر والے پیسہ بھیجنا بند کر دو، اور مقامی اشیاء کا استعمال ترک کر دو۔ اس کے منچلے پیروکار شاید ہی ‘‘آپریشن گولڈ سمتھ’’ کی اس دوسری قسط کے آخری حربے کو سمجھ پائیں، لیکن میں کم از کم یہ ضرور سمجھ پائی ہوں کہ کسی زندان میں بند کسی خود پسند شخص نے ایک مسلم اکثریت والے ملک کے لوگوں کو بہت خوبصورتی اور چالاکی سے یہودی پراڈکٹس واپس خریدنے کی صلاح دی ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ منچلے مسلم بھائیوں کی کٹی پھٹی لاشوں کو یکسر فراموش کر دیں گے یا اب بھی کچھ ضمیر زندہ ہیں۔
پھر ہر دل عزیز لیڈر نے پشاور میں شہدا کی یادگار میں جلسہ رکھا ہے ، کیا اس جلسے میں ان رینجرز اہلکاروں کو خراجِ عقیدت پیش کیا جائے گا جن پر گاڑی چڑھا دی گئی تھی؟ یا منافقت تیرا ہی آسرا نو مئی کو شہدا کی یادگاروں کو دنیا جہان کی بد تمیزی سے پامال کرنے والے اللہ جانے کیسے جلسہ کریں گے؟ اب ایک طرف تو تمام سیاسی جماعتوں کو شرکت کی دعوت دی جا رہی ہے اور دوسری طرف سول نافرمانی کی تحریک شروع کی جا رہی ہے ساتھ یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ پہلا مرحلہ ہے۔ سوال میرا یہ ہے کہ کیا بیرونِ ملک پاکستانی پیسے سرکار کو بھیجتے ہیں؟ کیا جن ماؤں نے اپنے بیٹے پردیس کمانے بھیجے ہیں وہ فاقوں مر جائیں؟ یا آپ ہر مہینے کچھ لوگ متعین کریں گے کہ وہ ایک اڑن کھٹولے میں بیٹھ کر ترسیلاتِ زر کرتے پھریں؟ پچھلے سال کی نسبت امسال قریب 29% ریمنٹینس زیادہ آئی ہیں آپ کے بچے باہر پلتے رہیں ، لوگ وہاں مزدوریاں کریں اور بچے اپنے بھوکے مار دیں کیوں کہ مسئلہ آپ کی انا کا ہے۔
آپ تو ایسے پتے عادتاً کھیلتے ہیں، بل جلاتے ہیں، پھر بل دے آتے ہیں، عوام بلبلاتے رہ جاتے ہیں۔ اب سمجھ یہ آتا ہے کہ پیسے بھیجنا تو لوگوں کی مجبوری ہے، گویا عوام حوالہ ہنڈی کرے، اور جو دھرے جائیں وہ اپنی چمڑی ادھڑوائیں، ملک پھر سے گرے لسٹ میں چلا جائے، گزشتہ چند ماہ میں جو معاشی ترقی ہوئی ہے وہ خاک میں مل جائے۔ ویسے دیکھا جائے تو سول نافرمانی آخر کی جائے گی تو کیسے کی جائے گی؟ کیا کے پی کے میں لوگ اپنی ہی حکومت کو ٹیکس دینا بند کر دیں گے؟ اصولاً دیکھا جائے تو سول نافرمانی اگر کرنا ہی ہے تو سب سے پہلے تو خیبر پختونخوا کی حکومت چھوڑنی چاہیے۔ لیکن اگر یہ حکومت چھوڑ دی جائے تو دھرنوں کے اخراجات کہاں سے نکالے جائیں گے؟ اور ورغلا کر وفاق پہ دھاوا بولنے کے لیے سادہ اور جذباتی لوگ کہاں سے لائے جائیں گے؟ اب ایک طرف پارٹی کے لوگ اس تحریک کی مخالفت کر رہے ہیں دوسری طرف سوشل میڈیا پہ تحریک چل کر کامیاب بھی ہو چکی ہے اور عسکری پراڈکٹس کی قیمتیں بھی گر گئی ہیں، اور لوگ ایک دوسرے کو ہی شاباشیاں دیئے جا رہے ہیں کہ چْک کے رکھو کام کو… اب من پسند لیڈر کی ہمشیرہ نے بھی بہت ہی سمجھداری کی بات کی، فرمایا ‘‘سمندر پار پاکستانیوں کو موقع مل رہا ہے کہ وہ پاکستان کی آزادی میں اپنا کردار ادا کریں، ان کے پیسے سے ملک چل رہا ہے اور اگر ہمارے مطالبات پورے نہ ہوں تو وہ پیسے نہ بھیجیں ’’ اس بات پہ پنجابی کا ایک دوہڑا یاد آگیا کہ ‘‘مانگھی وی لے لئیں ہا عقل جے مْل وکدی’’ اب دیکھنا یہ ہے کہ جیسے اس لیڈر کی محبت میں مغلوب ہو کر لوگ سڑکوں پہ اس وقت رْلتے رہے جب لیڈر کے اپنے بچے گولڈ سمتھ خاندان کے اونچے محلوں میں عیش و عشرت سے زندگی بسر کر رہے تھے، تو کیا لوگ اب ان پاکستانی پراڈکٹس کا استعمال ترک کر دیں گے جو ہمارے اپنوں نے بہت محنت سے بنائی ہیں اور واپس ان پراڈکٹس پہ جائیں گے جن کی قیمت سے مزید کچھ بم خریدے جائیں گے، مزید کچھ لاشیں گرائی جائیں گی اور مزید کچھ ستم فلسطین پہ ڈھائے جائیں گے اور کیا ملک دشمن عناصر ایک بار پھر سے اسے گرے لسٹ کی جانب دھکیلنے کی کوشش کریں گے؟ اور کیا جس ماں کا بیٹا سات سال سے واپس نہیں آیا، خاندان کی کوئی خوشی غمی نہیں دیکھی، وہ تبدیلی کے نام پہ اپنے بچوں کے سکول کی فیسیں، سردی کے کپڑے اور بوڑھی ماں کی دوائیاں کسی بلوائی کے جنون میں جھونک دے گا؟۔
تبصرے بند ہیں.