وزیراعظم عمران خان اور انتہاپسندی

62

سانحہ سیالکوٹ پر آپ کو کچھ کہنا ہے؟ سوائے شرمندگی کے آپ کے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔ امن، سلامتی اور آشتی کے پیروکاروں نے اپنی ذاتی انا کی خاطر لبیک یا رسول اللہ کے نعرے بلند کیے اور ایک زندہ انسان کو جلا ڈالا۔ دنیا نے پاکستان کے وقار کو جلتے ہوئے دیکھا۔ یہ تماشا صرف پاکستان میں نہیں ہوتا بلکہ دنیا کے ہر اس ملک میں اس قسم کے کارنامے سرانجام دیے جاتے ہیں جہاں ریاست متشدد مذہبی جتھوں کی سرپرستی کرتی ہے یا ان جتھوں کے ہاتھوں یرغمال ہے۔ اس ملک میں بھی ریاست یرغمال ہے اور اس ملک پر قبضہ کرنے والی اشرافیہ نے بائیس کروڑ کی آبادی کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ کوئی آواز بلند کرے تو اس کا علاج ان کے پاس ہے۔ قانون نام کی کوئی چیز یہاں موجود نہیں ہے، بلکہ قانون کے محافظ ان کی حفاظت پر مامور ہیں۔ مذہب کے نام پر جس کو چاہیں قتل کر دیں، ناموس کی توہین کا الزام لگا کر جس کو چاہیں آگ لگا دیں، زندہ انسانوں کو اینٹوں کے بھٹے میں پھینک دیں، کون پوچھے گا۔ سیالکوٹ میں ذاتی عناد کی وجہ سے یہ پہلا قتل نہیں ہوا اس سے پہلے بھی کئی لوگ اس کا شکار کو چکے ہیں۔ اس قانون کو اپنے مذموم مقاصد کے استعمال پر تنقید ہوئی تو اسے بھی قاتل گردن زنی قرار دے دیا گیا۔ یہ واقعہ چونکہ سیالکوٹ میں ہوا ہے اس لیے سرکاری مشینری حرکت میں آئی ہے انہیں مرنے والے سے کوئی لینا دینا نہیں ہے بلکہ خدشہ یہ ہے کہ کہیں اس کو جواز بنا کر برآمدات نہ بند ہو جائیں۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ وہ ذاتی طور پر اس کیس کی نگرانی کریں گے، گرفتاریاں ہو رہی ہیں لیکن آگے کیا ہو گا کچھ پتہ نہیں۔ یہ صرف سیالکوٹ کا معاملہ نہیں ہے بلکہ اس ذہنیت پر قابو پانے کے لیے موثر اقدامات کی ضرورت ہے جو انسان کے ہوش و حواس کو مفلوج کر دیتی ہے۔ ہم نے اس کی جانب ابھی تک پہلا قدم بھی نہیں بڑھایا۔
مذہبی جنونی صرف پاکستان میں موجود نہیں ہیں، بھارت میں یہ اتنی ہی شدت کے ساتھ اپنے فرائض کی بجاآوری کر رہے ہیں۔ حال ہی میں مسلمان اس کا شکار ہوئے ہیں، وہاں بھی یہ کام سرکار کی چھتری کے نیچے ہوتا ہے اور یہاں بھی سرکار ان کی سرپرست ہے۔ وہاں بھی اسٹیبلشمنٹ الیکشن جیتنے کے لیے ان کو موافق حالات مہیا کرتی ہے اور یہاں بھی نظام کو اپنی مرضی کے تابع کرنے کے لیے خون کی بلی چڑھائی جاتی ہے۔
ناموس کی توہین کہاں سے شروع ہوتی ہے اس کا کوئی پیمانہ نہیں ہے۔ کون فیصلہ کرے گا کہ توہین ہوئی ہے یا نہیں یہاں تو صرف فیصلہ سنا کر اس پر عمل کر دیا جاتا ہے۔ جب ہجوم خود ہی مدعی، خود ہی منصف بن جائے تو سزا بھی خود ہی دے گا۔ یہ جہالت نہیں ہے بلکہ منظم انداز میں ہونے والی ذہن سازی ہے جس کا خمیازہ آج پوری قوم بھگت رہی ہے۔ ان سے کوئی سوال کرنے کی جرأت نہیں کر سکتا ان کی اتھارٹی کو کوئی چیلنج نہیں کر سکتا۔ لوگ خوفزدہ ہیں اور خاص پر اساتذہ اس خوف میں زیادہ مبتلا ہیں کہ پتہ نہیں کب کوئی ان پر توہین مذہب کا الزام عائد کر دے گا۔ ایک عدالتی فیصلے کے بعد پنجاب کے تمام تعلیمی اداروں میں تجوید کے ساتھ قرآن پاک بمعہ ترجمہ کا حکم نامہ سامنے آیا ہے اور مجسٹریٹس کو یہ اختیار دے دیا گیا ہے کہ وہ اس پر عملدرآمد کرائیں اور جو تعلیمی ادارے اس کی خلاف ورزی کریں ان کے خلاف سخت اقدامات اٹھائیں۔ یہ فیصلہ اس اعتبار سے بہت اچھا ہے کہ اس سے قرآن
پاک کو سمجھنے میں مدد ملے گی اور عصری تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم کا بندوبست بھی ہو گا لیکن اس فیصلے پر عملدرآمد کے لیے جن انتظامات کی ضرورت ہے وہ کیسے ہوں گے اور کیونکر ہوں گے؟ قرآن پاک کو طہارت کے بغیر آپ ہاتھ نہیں لگا سکتے اور قرآن پاک کے پارے آپ بستے میں رکھ کر روزانہ سکول نہیں لا سکتے۔ اس وقت حالات یہ ہیں کہ بہت سے سکولوں میں طہارت خانے موجود نہیں ہیں، وضو کے لیے الگ سے جگہ مختص نہیں ہے۔ نجی تعلیمی اداروں میں بھی طہارت اور وضو کے انتظامات بہت محدود ہیں، کیا بغیر وضو اور طہارت کے قرآن پاک کو چھونے سے توہین نہیں ہو گی اور کیا چھوٹے بچوں سے پارے زمین پر گرنے کا خدشہ نہیں رہے گا، قرآن مجید کا کوئی صفحہ کسی جگہ گر گیا تو کیا ہو گا۔ اس حکم پر اسی صورت صحیح طور پر عمل ہو سکتا ہے جب آپ سکول اور مسجد کو ایک ساتھ کر دیں یا ہر سکول میں مسجد بنا دیں جہاں بچے باقاعدگی سے جا کر اپنی کلاس لے لیا کریں۔ موجودہ حالات میں سکول انتظامیہ اور اساتذہ مسلسل دباؤ میں رہیں گے اور اوپر سے سیالکوٹ جیسے سانحات ہو رہے ہیں جہاں پر ہجوم بغیر کچھ سوچے سمجھے محض الزام پر جہنم واصل کرنے کے فریضے پر جت جاتا ہے۔
پولیس کی کارکردگی پر بھی سوالات اٹھائے گئے ہیں لیکن پولیس کے ساتھ جو ہوا اب وہ اس طرح کے کسی معاملے میں نہیں آئے گی۔ ہاں حالات قابو میں ہوں گے تو وہ کارروائی کریں گے۔ تحریک لبیک کے دھرنے اور احتجاج میں پولیس کے ساتھ جو ہوا اس کے بعد اس سے کارکردگی کا سوال نہیں پوچھا جا سکتا کیونکہ وہ سوال کریں گے کہ ہمارے لوگ شہید ہوئے ہیں ان کا خون بہا کس نے وصول کیا ہے۔
ایک مذہبی جنونی نے نیوزی لینڈ میں مسجد کو نشانہ بنایا، اس طرح کا ایک واقعہ کینیڈا میں بھی ہوا جہاں پر ایک خاندان کو مسلمان ہونے کی وجہ سے ہلاک کیا گیا لیکن وہاں اور یہاں کا معاملہ مختلف ہے وہاں ریاست اور اس کے ادارے متشدد مذہبی گروہوں کے سرپرستی نہیں کرتے۔ وہاں ریاست ان کے ہاتھوں یرغمال نہیں ہے اور ایسے عناصر کو قانون کے مطابق سزا دینے کا ایک نظام موجود ہے جس پر معاشرے کو اعتماد ہے۔
اب بھی اس ملک میں ایسے لوگ موجود ہیں جو اس سانحہ کو ایک سازش قرار دے رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ اس کی آڑ میں توہین مذہب کے قانون میں تبدیلی کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ سمجھنے کی ضرورت یہ ہے کہ اس طرح کے معاملات تو قانون تک جا ہی نہیں رہے بلکہ خود ہی قانون بنا کر اسے سزا دے دی جاتی ہے۔ قانون میں تبدیلی تو بعد میں ہو گی لیکن اس ذہنیت کو کیسے تبدیل کرنا ہے وہ اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ تحریک لبیک سمیت تمام مذہبی جماعتوں نے اس سانحہ پر افسوس کا اظہار کیا ہے اور اس کی مذمت کی ہے لیکن انہیں ایک قدم اور آگے بڑھنا ہو گا اور لوگوں کی ذہن سازی کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ انہیں لوگوں کو سمجھانا ہوگا کہ توہین رسالت ایک جرم ہے اور اس کی سزا کا تعین ملک کی عدالتیں کریں گے اگر کوئی اس کا ارتکاب کرتا ہے تو قانون کے مطابق اس کے خلاف مقدمہ درج ہو گا۔ جس پر الزام لگے اسے حکومت حفاظتی تحویل میں رکھنے کا بندوبست کرے اور عدالت کے فیصلے کی روشنی میں سزا پر عملدرآمد کرایا جائے۔ اور اگر کسی شخص پر الزام ثابت نہ ہو تو الزام عائد کرنے والے کے لیے اتنی ہی سخت سزا کا بندوبست کیا جائے تاکہ اس قانون کو ذاتی دشمنی کے لیے استعمال نہ کیا جا سکے۔
سانحہ سیالکوٹ کے مضمرات پر اگر ہم نے توجہ نہ دی اور اس ذہنی اپروچ کو ٹھیک کرنے کی کوشش نہ کی تو پھر لاکھ کوشش کر لیں اس طرح کے واقعات کو نہیں روکا جا سکے گا۔ ہم نے دہشت گردی پر قابو پا لیا ہے مگر انتہاپسندی اور جہالت پر قابو نہیں پا سکے اور یہی وہ بنیادی وجوہات ہیں جو معاشرے کو کھوکھلا کر رہی ہیں۔ صرف نگرانی اور نوٹس لینا کافی نہیں ہے اس پر قابو پانے کے لیے کچھ کرنا بھی ضروری ہے۔ وزیراعظم صاحب آگے آئیں اور اس مائنڈ سیٹ پر قابو پانے کا جتن کریں جس نے قوم کی ترقی کا راستہ مسدود کر رکھا ہے۔ آپ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ مغرب کو آپ سے زیادہ کوئی نہیں جانتا تو پھر آپ کو یہ علم بھی ہو گا کہ اس طرح کے واقعات کا معیشت پر کیا فرق پڑتا ہے۔ کوئی ایسا جتن کریں کہ اس سانحہ کی وجہ سے ایکسپورٹ آرڈرز منسوخ نہ ہوں کیونکہ اس قسم کی اطلاعات سیالکوٹ سے آنا شروع ہو گئی ہیں۔ سیالکوٹ نے پہلے چائلڈ لیبر کی وجہ سے بے شمار نقصان اٹھایا ہے کہیں اس واقعہ کی وجہ سے ایکسپورٹ کا یہ بڑا مرکز ویران نہ ہو جائے۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ ایک پاکستان کا امیج ایک متشدد ریاست کے طور پر دنیا میں جا رہا ہے، اس کو درست کرنے کے لیے معاشرے کے تمام طبقات کو آگے آنا ہو گا اور یہ کام اسی وقت ہو گا جب معاشرے کو یہ یقین ہو جائے گا کہ ریاست ایسے عناصر کی سرپرستی نہیں کرے گی جو مذہب کے نام پر قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کا ہنر جانتے ہیں۔

تبصرے بند ہیں.