وفاقی بجٹ برائے مالی سال 2021-22 کے بارے میں کچھ گزارشات، کچھ خیالات، کچھ معروضات اور کچھ تلخ حقائق کا تذکرہ ضروری ہے کہ پتہ چلے کہ اس میں وڈ ہولڈنگ ٹیکسز کی چھوٹ دینے، بعض اشیاء پر سیلز ٹیکس کی شرح میں کمی کرنے، مقامی طور پر تیارکردہ چھوٹی اور الیکٹرک گاڑیوں پر عائد ٹیکسوں کی شرح میں تخفیف کرنے، سرکاری ملازمین اور پنشنرز کی تنخواہوں اور پنشن میں دس فیصد اضافے کا لولی پاپ دینے اور اسی طرح کے کچھ دیگر بظاہر ”خوش کن اقدامات“ کرنے کے باوجود لگ بھگ 400 ارب روپے کے بالواسطہ اور بلاواسطہ، عیاں اور نہاں ٹیکس تجویز کر کے حکومت نے 6.3 فیصد بجٹ خسارہ پورا کرنے اور اپنی ”خالی جیب“ کو بھرنے کی کوشش کی ہے وہ کیوں کر ممکن ہو سکے گی اور اس کے عوام الناس کے مختلف طبقات پر کیسے کیسے اور کتنے منفی، تکلیف دہ اور ناقابل برداشت اثرات مرتب ہوں گے۔ ان سب کا تذکرہ ضروری ہے لیکن اس سے قبل اس دلدوز، افسوس ناک اور کسی حد تک شرمناک صورت حال کا تذکرہ جس کی منظرکشی پچھلے دنوں بڑی صراحت، وضاحت اور تفصیل کے ساتھ الیکٹرانک پرنٹ اور سوشل میڈیا پر ہوتی رہی ہے اور اب بھی ہو رہی ہے کہ وفاقی وزیر خزانہ جناب شوکت فیاض ترین نے جمعتہ المبارک 11 جون کی شام کو اپنی طویل نشری تقریر کی صورت میں مالی سال 2021-22 کا بجٹ عوام کے ووٹوں سے براہ راست منتخب ہونے والے نمائندگان سے تشکیل پانے والے سب سے بڑے مقدم، معتبر اور باوقار قانون ساز آئینی ادارے قومی اسمبلی میں پیش کیا۔ پارلیمانی روایات کے مطابق قومی اسمبلی کے اگلے ایک دو دنوں کے اندر شروع ہونے والے اجلاس میں قائد حزب اختلاف کی بجٹ پر تقریر سے بجٹ پر بحث کا آغاز ہو جانا چاہئے تھا لیکن پیر، منگل اور بدھ کو ایسا نہیں ہو سکا۔ اب جمعرات کو قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف جو ملک کی بڑی (سب سے بڑی؟) سیاسی جماعت مسلم لیگ (ن) کے صدر بھی ہیں بجٹ پر بمشکل اپنی تقریر مکمل کر سکے ہیں اوراس طرح قومی اسمبلی کے مقتدر ایوان میں مالی سال 2021-22 کے بجٹ پر ارکان کی تقاریر کے سلسلے کی سبیل نکل سکی ہے۔ بیچ میں اتنے دن بالخصوص پیر، منگل اور بدھ کو قومی اسمبلی کے ایوان میں کیا ہوا اس کا تھوڑا سا حوالہ اوپر آیا ہے۔ یقینا یہ انتہائی افسوسناک، تکلیف دہ اور کسی حد تک شرمناک صورت حال تھی اور پارلیمانی روایات میں ایک سیاہ باب کا اضافہ بھی جس کا مظاہرہ قومی اسمبلی کے ایوان میں مسلسل تین دن ہوتا رہا۔
پیر کو قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف نے پارلیمانی روایات کے مطابق اپنی تقریر سے قومی بجٹ پر بحث کا آغاز شروع کیا ہی تھا کہ ایوان آناً فاناً مچھلی بازار کا روپ دھار گیا۔ حکمران جماعت کے ارکان کی طرف سے شور شرابا، ڈیسک اورسیٹیاں بجانا، بجٹ کی کتابیں زمین پر پٹخنا یا اپنے مخالفین کی طرف پھینکنا یا ان کے منہ پر مارنا اس زورشور اور باقاعدہ منصوبہ بندی سے شروع ہوا کہ قائد حزب اختلاف کو اپنی تقریر کو آگے لے کر چلنا تو درکنار، سپیکر کو بھی قومی اسمبلی کا اجلاس اگلے دن کے لئے ملتوی کرنا پڑا۔ منگل کو قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا تو قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف نے اپنی ادھوری بجٹ تقریر کو مکمل کرنے کے لئے مائیک سنبھالا تو ایوان میں ہنگامہ آرائی، ہلڑبازی، شور شرابے، سیٹیاں اور ڈیسک بجانے، بھاری بھرکم بجٹ کتابیں ایک دوسرے کی طرف پھینکنے اور مارنے، گالم گلوچ اور دھکم پیل کے مناظر پچھلے دن کے مقابلے میں سوا تھے، سپیکر قومی اسمبلی اپنی نشست پر بظاہر بے بسی کا نمونہ بنے ہوئے اور ان کی ہاؤس کو ان آرڈر رکھنے کی اپیلیں صدا بہ صحرا ثابت ہو رہی تھیں۔ قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف اپنی تقریر پڑھنے یا بولنے کی اپنی سی سعی کر رہے تھے لیکن اس میں انہیں شدید مزاحمت اور رکاوٹوں کا سامنا تھا۔ اجلاس درمیان میں طویل وقفوں کے لئے ملتوی ہوا لیکن دوبارہ شروع ہونے پر پہلے والے مناظر کی تکرار ہوتی رہی۔ مجبوراً سپیکر کو اجلاس اگلے دن کے لئے ملتوی کرنا پڑا۔تاہم اگلے دن کے اخبارات میں اس اجلاس کے بارے میں جو شہ سرخیاں اور ذیلی سرخیاں جمائی گئیں وہ کچھ اس طرح کی تھیں۔
”قومی اسمبلی میں ”جنگ“، بجٹ کاپیوں سے حملے، گالیاں، کئی زخمی، اپوزیشن لیڈر کا خطاب شروع ہوتے ہی حکومتی ارکان کا شورشرابا، سپیکر بے بس، سکیورٹی طلب، اسمبلی کی تاریخ کی بدترین بدکلامی اور کشیدگی، پی ٹی آئی، نون لیگ کے چور، چور، گونیازی گو کے نعرے، سیٹیاں، حکومتی رکن فہیم خان ہنگامہ آرائی میں سب سے آگے، پی ٹی آئی کے رکن علی نواز کے ن لیگ کے رکن روحیل اصغر کے لئے نامناسب الفاظ، انہیں بجٹ کتاب دے ماری، حکومتی خاتون رکن اسمبلی ملیکہ بخاری کی بجٹ کتاب لگنے سے آنکھ زخمی، ایک قومی معاصر کی یہ سرخیاں اپنی جگہ چشم کشا ہی نہیں ہیں بلکہ عبرت نگیز اور افسوسناک بھی ہیں۔ تاہم بدھ کو قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا تو پھر ایک بار دو دن سے جاری ”ناٹک‘ دوبارہ رچایا گیا جس کے بارے میں ایک بڑے قومی معاصر نے اس طرح شہ سرخی اور ذیلی سرخیاں جمائیں ”قومی اسمبلی، تیسرے دن بھی مفلوج، پھر مارکٹائی، حکومتی رکن زخمی، ماحول انتہائی کشیدہ، شہباز تقریر مکمل نہ کر سکے، اجلاس ملتوی، ن لیگ کے 3، پیپلز پارٹی کے ایک اور تحریک انصاف کے 3 ارکان کا اسمبلی میں داخلہ معطل، سپیکر کا فیصلہ مسترد، تحریک عدم اعتماد لائیں گے، اپوزیشن“۔
دو بڑے قومی اخبارات کی قومی اسمبلی کے دو اجلاسوں کے بارے میں جمائی جانے والی یہ شہ سرخیاں اور ذیلی سرخیاں زبان حال سے بہت کچھ پکار پکار کر کہہ رہی ہیں لیکن معتبر اور مستند پارلیمانی رپورٹر اور سینئر صحافی جناب نصرت جاوید نے ایک قومی معاصر میں ”قومی اسمبلی میں ”گھسن مُکّی“ کا آغاز“ کے عنوان سے چھپنے والے اپنے کالم میں قومی اسمبلی میں جاری رہنے والی ہنگامہ آرائی کے بارے میں جو تفصیل بیان کی ہے وہ بھی پڑھنے کے لائق ہی نہیں ہے بلکہ آنکھیں کھولنے والی بھی ہے۔ وہ لکھتے ہیں۔ ”مخدوم شاہ محمود قریشی، ملتان کی ”اصلی نسلی“ اشرافیہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ بردباری کا بھرم رکھنا ان کا جبلی وصف ہے۔ پیر کی سہ پہر مگر شہباز شریف اپنے خطاب کے لئے اٹھے تو اسے روکنے کے لئے پہلا وار ان ہی کی جانب سے ہوا۔ ”سب سے بنا کر رکھنے والی شخصیت“ یعنی شاہ محمود قریشی کی طرف سے اپنایا جانے والا رویہ واضح طور پر یہ عندیہ دے رہا تھا کہ وہ ”پپا“ (عمران خان)کو خوش کرنے کے جنون میں مبتلا ہو چکے ہیں“۔ جناب نصرت جاوید آگے چل کر لکھتے ہیں ”مخدوم شاہ محمود قریشی جیسے ”اصلی نسلی، وضع دار“ وزیر بھی جب پپا (عمران خان) کو راضی رکھنے کی خواہش میں اپنی بردباری والی شخصیت کو نظرانداز کرتے نظر آئیں تو وفاقی کابینہ کے دیگر وزراء ”نرم“ کیوں نظر آئیں۔ وفاقی کابینہ کے ہر قابل ذکر رکن نے پیر اور منگل کے روز قومی اسمبلی میں ہنگامہ آرائی بھڑکانے میں بڑھ چڑھ کر اپنا کردار ادا کیا۔ مراد سعید البتہ اپنی نشست کے اوپر کھڑے ہو کر اپوزیشن بنچوں کی جانب بجٹ کی بھاری بھرکم دستاویزات میزائلوں کی صورت میں اچھالتے ہوئے سب وزراء پر چھا گئے۔ فواد چودھری کی مہارت ان کے ہوتے ہوئے اپنا جلوہ نہ دکھا پائی۔ محترمہ شیریں مزاری بھی پنجابی محاورے والی ”لِسّی“ یعنی کمزور نظر آئیں۔ امین اللہ گنڈاپور کی دہشت پھیلانے والی ”گج وَج“ اگرچہ اپنی جگہ برقرار رہی۔
پیر، منگل اور بدھ کے قومی اسمبلی میں ہونے والی ہنگامہ آرائی اور ہلڑبازی کے بارے میں جناب نصرت جاوید کی بیان کردہ اس ”حکایت پُرلذیذ“ کے حوالے کے بعد میں نہیں سمجھتا کہ بجٹ کے ”خشک اور مایوس کن“ اعدادوشمار کو آگے لے کر چلا جا سکتا ہے۔ ویسے بھی کالم کی گنجائش ختم ہو رہی ہے۔ ان شاء اللہ یار زندہ صحبت باقی! اگلے کالم میں بجٹ کا جائزہ لے لیا جائے گا۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.