خیال تو تھا کہ آج صرف ان لوگوں کا ذکر کروں جن کی شخصیت افکار، جرأت اور خدمات سے ہم محض نفرت، تعصب، اختلاف اور دشمنی کی بنا پر بطور قوم اور پھر بطور امہ فائدہ نہ اٹھا سکے۔ ہماری سیاست، سماج، معاشرت کی شاید بنیاد ہی نفرت یا شخصیت پرستی پر ہے حد تو یہ ہے کہ موچھیں صاف کرنے کا رواج بھی لارڈ کرزن کی وجہ سے برصغیر میں عام ہوا حالانکہ اس کی مجبوری تھی کہ اس کے ہونٹ کے اوپر ایسا کٹ تھا جس پرمونچھوں میں گیپ آتا تھا ہم نے اس کی بھی نقل کی۔ شروع میں میرے ذہن میں مولانا مودودیؒ تھے جن کو جب سزائے موت ہوئی تو ان کی والدہ محترمہ اپنی ایک عزیزہ کے گھر میں بیٹھی تھیں۔ دوپہر کا کھانا کھانے لگی تھیں۔ ابھی پہلا نوالہ تھا کہ مولانا جن کو ان کی والدہ پیار سے منا کہتی تھیں مولانا کا ایک خالہ زاد جو رہتا بھی مولانا کے گھر میں تھا خبر لے کر ڈھونڈ کر مولانا کی والدہ محترمہ کے پاس گیا اور کہنے لگا خالہ امی منا کو سزائے موت سنا دی گئی وہ سمجھتی تھیں کہ یہ حاسد بھی ہے اور اندر سے خوش بھی نوالہ منہ میں تھا بولیں کہ تم کون اور میں کون زندگی اللہ کریم کے ہاتھ میں ہے۔ وہ خبر سنا کر چلا گیا اس کے جاتے ہی والدہ محترمہ نے نوالہ تھوک دیا کیسے اتر سکتاتھا حلق سے اور فرمانے لگیں کہ یہ دیکھنے آیا تھا میری کیفیت کیا ہے۔ اس وقت برصغیر کی تین عورتیں علم و حکمت اور بزرگی میں جانی جاتی تھیں۔ مولانا مودودیؒ کی والدہ، بیرسٹر آصف علی اور محمد علی جوہر کی والدہ۔ مقصد صرف یہ ہے کہ مولانا کے فالوورز کے تعصب اور دوسروں سے نفرت کی وجہ سے وطن عزیز کے لوگ مولانا کے افکار کے قریب بھی نہ گئے اور اسٹیبلشمنٹ کی وجہ سے جناب ذوالفقار علی بھٹو کے افکار سے ان کے مخالف استفادہ حاصل نہ کر سکے اور نہ ہی ملک و قوم کو کرنے دیا۔ ہم نے کیا کیا نگینے کھو دیئے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو، نواب زادہ نصر اللہ کیا کیا گنواؤں اور ان کی جگہ ہر تانگے کے کوچوان کی طرح توازن رکھنے کے لیے پتھر رکھ لیے اگلی سیٹ انسان اور توازن توازن کے لیے پتھر۔ اب یہ پتھر جمہوری کہلاتے ہیں تو جمہوریت کا حسن بھی پتھروں جیسا ہو گا انسانوں جیسا نہیں حقیقی جمہوریت سے اس لیے ڈرتے ہیں کہ فرعونیت اور عام آمریت کے پروردہ برج الٹ جائیں گے جو جمہوریت کا بہترین انتقام کہلائے گا۔ ہمیں باہمی نفرتیں مار گئیں۔ اب اخلاق احمد دہلوی کے بیان کردہ نگینے لوگوں کے چند واقعات ملاحظہ فرمائیں کہتے ہیں کہ ”حکیم اجمل خاں صاحب ”شریف منزل“ سے ایک دفعہ باہر نکلے تھے کہ کیادیکھا کہ ہندوؤں کی ایک بارات چلی آتی ہے۔ حکیم صاحب بارات کے جلوس کے نکل جانے کے انتظار میں رک گئے اور ان کے ساتھ ان کے مصاحب بھی۔ جب دولہا کا گھوڑا حکیم صاحب کے سامنے سے گزرا تو حکیم صاحب کی بھی نظر دولہاپر پڑی۔ فرمایا دولہا نہیں دولہا کی ارتھی جا رہی ہے۔ پتہ نہیں کس کا سہاگ اجڑا ہے اور کہتے ہیں ”شریف منزل“ سے دو پیسے ڈولی پر دلہن والوں کا گھر تھا۔ جب دولہا وہاں پہنچا اور وہاں گھوڑے سے دلہن والوں نے دولہا کو اتروایا تو وہ گھوڑے سے اترنے کے بجائے دھڑام سے زمین پر گر پڑا۔ سب کو حیرت ہوئی کہ یہ دولہا مرا کیسے۔
حکیم صاحب کے مصاحبوں نے جو اس وقت ساتھ تھے، جب حکیم اجمل خاں صاحب سے پوچھا کہ حضور آپ نے یہ کیسے اندازہ لگا لیا تھا کہ یہ دولہا نہیں دولہا کی لاش گھوڑے پر جا رہی ہے؟ تو حکیم صاحب نے فرمایا: آپ لوگوں نے شاید غور نہیں کیاکہ دولہاکے ماتھے پر سیندور کاٹیکہ گیلا تھا۔ حالانکہ نیل کے کٹڑے سے جہاں کی یہ بارات تھی بلی ماراں تک آتے آتے اس کے ماتھے کا سیندور خشک ہو جانا چاہیے تھا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس کے جسم کا سارا خون ست گیا تھا اور جب جسم میں خون ہی نہ رہے تو زندگی کے کیا معنی۔
”شریف منزل“ کے حکیم بھورے خاں صاحب کا یہ واقعہ سنا کہ دلی سے چالیس میل دور میرٹھ میں ان کے کوئی دوست تھے جن کے ساتھ وہ شکار کھیلنے جایا کرتے تھے۔ ایک دن جو وہ اپنے ان دوست کے گھر پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ گھر کے سب لوگ پریشان ہیں اور دلی کے بڑے بڑے ڈاکٹر اور انگریز سول سرجن میرٹھ میں براجمان ہیں۔ ان صاحب کے لڑکوں نے حکیم بھورے خاں صاحب کو بتایا کہ ہمارے والد کی تو ٹانگ کٹنے والی ہے۔ سول سر جن کہتا ہے کہ اگر فوراً جڑ سے ٹانگ نہ کاٹی گئی تو سارے جسم میں زہر باد پھیل جائے گا اور پھر کوئی انہیں مرنے سے بچا نہیں سکے گا۔ حکیم بھورے خاں صاحب نے فرمایا لیکن ہم تو شام کو ان کے ساتھ گھوڑے پر بیٹھ کر شکار کھیلنے کا منصوبہ بنا کر دلی سے میرٹھ آئے ہیں اور پھر سول سرجن کو بلوا کر یہ پوچھا کہ کیا ٹانگ کٹنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہے۔ اور جب سب ڈاکٹروں نے یک زبان ہو کر یہ فیصلہ سنایا کہ ”نہیں ہے“ تو حکیم صاحب نے کہا کہ اچھا آپ صرف ہمیں صرف یہ بتا دیجیے کہ کہاں سے اور کس طرح آپ ٹانگ کاٹیں گے۔ اور جب انگلی کے اشارے سے سول سرجن نے شگاف کی شکل بنائی تو حکیم صاحب نے کہا کہ روئی کی بتی بٹ کر لاؤ اور چیرا لگنے کا جو نشان انگلی کے اشارے سے اس انگریز ڈاکٹر نے بتایا ہے وہاں روئی کی بٹی ہوئی بتیاں رکھ دو اور برف کی ایک سلی منگوا کر ان روئی کی بتیوں پر برف کی ٹکور کرو اور حکیم بھورے خاں صاحب نے ان روئی کی بتیوں پر کوئی دوا چھڑکی اور ایک کپڑا ان پر ڈھانک کر اور برف کی ٹکور شروع کرا کر آرام کرنے کے لیے لیٹ گئے اور کہا دو گھنٹے بعد جب دوپہر ڈھل جائے تو ہمیں جگا لینا۔چنانچہ ایسا ہی کیا گیا اور دو گھنٹے بعد جب ٹکور کرتے کرتے برف کی سلی ختم ہونے کے قریب ہوئی تو حکیم صاحب کوجگایا گیا۔ انہوں نے اٹھتے ہی فرمایا ان ڈاکٹروں کو بلواؤ جو ٹانگ کاٹنے کو کہتے تھے اور جب سب ڈاکٹر جمع ہو گئے تو حکیم صاحب نے کہا کہ اب ان روئی کی بتیوں پر سے کپڑا ہٹا دو اور سب نے دیکھا کہ قندھاری انارکی طرح کی کوئی چیزران پر ابھرآئی ہے جیسے کھلا ہوا انار اور روئی کی بتیاں گوشت پھاڑ کر اندر بیٹھ گئی ہیں۔ پھر کہا کہ اب کسی جراح کو بلواؤ جراح سے کہا گیا کہ اس ران پر ابھرے ہوئے انار کو زور سے دباؤ اب جو اس جگہ کو جراح نے دونوں ہاتھوں سے دبایا تو شدید متعفن سیاہی مائل سبز گٹھلیاں سی اتنی نکلیں کہ تسلہ بھر گیا اورمریض نے آنکھیں کھول دیں جو تین دن سے بے ہوش پڑا تھا۔ حکیم صاحب نے اسی جراح سے کہا کہ اب اگر تمہارے پاس کوئی زخم پر لگانے کا مرہم ہو تو اس زخم میں بھر دو اورپٹی کر دو۔ مریض سے کہا کہ لو میاں کھڑے ہو جاؤ اور ان ڈاکٹروں کو چل کردکھاؤ جو تمہاری ٹانگ کاٹنے کو پھر رہے تھے اور مرہم پٹی کرا کے چلو ہمارے ساتھ گھوڑے پر بیٹھ کر شکار کو۔ ڈاکٹروں نے جب پوچھا کہ کیا دوا تھی جو آپ نے روئی کی بتیوں پر برف کی ٹکور سے پہلے ڈالی تھی تو حکیم صاحب نے کہا، یہ کھانے کا کشتہ تھا جس نے ساری ٹانگ کی پیپ کھینچ کر ایک جگہ جمع کر دی اور برف نے اس پیپ کو جما دیا۔ اسی طرح حکیم بھور ے خان صاحب کا ایک واقعہ یہ سنا کہ شاہی خاندان کی کوئی میم اپنے شوہر کے ساتھ ان کے مطب میں اپنے دائمی نزلے کے علاج کے لیے پہنچی، اس شاہی خاندان کی انگریز عورت کی ناک سے مستقل ریزش بہے جاتی تھی۔ حکیم صاحب نے اسے دیکھتے ہی کہا کہ کل آنا۔ اور اس میم کے جانے کے بعد ایک پتلے سے سرکنڈے میں ایک تار کا آنکڑا بنا کر پرویا اور رکھ لیا۔ دوسرے دن جب وہ میم آئی تو حکیم صاحب نے وہ آنکڑے والا سرکنڈے کا سرا اس انگریز عورت کی ناک میں ڈالا اور کئی بل دے کر باہر کھینچ لیا اور دیکھا کہ اس تار کے آنکڑے میں ایک گھوڑے کی دم کا سخت بال کوئی چار انگلی لمبا لپٹا ہوا ہے اور انگریز جوڑے سے کہا کہ بس اب جاؤ ہو گیا علاج اور فورا ً اس عورت کی ناک اور منہ سے ریزش بہنی بند ہو گئی۔ ہم نے اپنے لوگ ضائع کیے انگریز کا ریلوے، عدالتی نظام، انتظامی مشینری برباد کی۔ کم از کم طب کو ہی آگے بڑھاتے یہ چار ہزار فیس لے کر ہزاروں کے ٹیسٹ کرا کر حکم اللہ دا سنانے والے مسیحائی فروشوں سے جان چھوٹ جاتی۔ ہم نے اپنے بڑے خود مار ڈالے اور جو مارے نہیں ان کو کھو دیا بس! جی تھری پر جمہوریت کا سائلنسر لگا کر جمہوریت پسندوں کو موت کے گھاٹ اتارا کہ لوگوں کو پتہ نہیں چلے گا کیسے مرا۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.