خلافت یا برجِ خلیفہ؟

148

ہمارے ملّی اور آفاقی شاعر اقبال کو ذاتِ حق نے جس غیر معمولی بصیرت سے نوازا تھا، اس کی مثال عالمی ادب میں بھی خال خال ملتی ہے۔ سیراب تو وہ مشرق اور مغرب دونوں کے علمی اور عرفانی سرچشموں سے ہوئے مگر وہ مغرب کی علمی فضیلت کے قائل ہوتے ہوئے بھی اپنا وزن مشرق ہی کے پلڑے میں ڈالتے ہیں اور عالمی تہذیبوں کو فیضیاب کرنے میں مشرق کی دین کا کھل کر اور بے خوفِ ملامت اعلان کرتے ہیں۔ انہوں نے مشرقی اور مغربی دانش کا مطالعہ ایک مجتہد اور پُر اعتماد شخصیت کے طور پر کیا تھا اور وہ آج کے ہمارے بعض کوتاہ نظر دانشوروں کی طرح مغربی فکر کے خوانچہ فروش نہ تھے۔ پیام ِ مشرق کی ایک غزل کے شعر میں اپنے بارے میں انہوں نے کس پتے کی بات کہی ہے:
خرد افزود مرا درسِ حکیمانِ فرنگ
سینہ افروخت مرا صحبتِ صاحب نظراں 
(مغربی دانشوروں کی تعلیم اور مطالعے نے میری عقل میں اضافہ کیا مگر مشرق کے صاحب نظر اللہ والوں اور خدا پرستوں نے میرے سینے میں عشق اور آگہی کی مشعلیں روشن کیں!)
عشق اور آگہی کی اسی روشنی میں انہوں نے مغربی تہذیب کی مادہ پرستی اور عشق کے نور سے محروم نظامِ فکر و معاشرت اور ناقص تصورِ علم کا مطالعہ کیا اور اس کی کج نظریوں اور عیارانہ چالوں کو بے نقاب کرتے رہے۔ اس مطالعے کی بہترین اور مربوط ترین مظہر ان کی شعری تصنیف ”پس چہ باید کرد“ ہے جو انہوں نے اپنی نہایت پختہ عمر میں وفات سے صرف دو سال پہلے لکھی۔ میرے نزدیک اقبال کی یہ کتاب اس لائق ہے کہ اسے ہمارے تعلیمی نظام و نصاب کا لازمی حصہ بنایا جائے۔ مردہ، نیم مردہ اور لبِ گور قوموں کو یہ کتاب نئی زندگی کی ضمانت مہیا کر سکتی ہے۔ گو کہ اس کتاب کا خطاب اہلِ مشرق سے ہے مگر اس سے مغرب والے بھی فیض اندوز ہو سکتے ہیں اور سچائی اور صداقت کے ان سر چشموں تک پہنچ سکتے ہیں جنہیں وہ ایک مدت سے کھو چکے ہیں۔
اقبال کا ظہور برعظیم کی تاریخ کے اس نازک مرحلے پر ہوا جب صدیوں سے جاری مسلم اقتدار دم توڑ چکا تھا اور اس کی تہذیبی سالمیت پارہ پارہ ہو چکی تھی۔ سات سمندر پار سے ایک استعماری قوت اپنے تہذیبی کبر میں مست اور ایک متحرک طرزِ احساس سے لیس اس سرزمین پر اپنے پنجے گاڑ چکی تھی۔ عام لوگ تو خیر، معاشرے کی بچی کھچی خلاّق قوتوں نے بھی اس تند و تیز سیلاب کے آگے بند باندھنے کے بجائے اس کی غلامی کو ذہنی طور پر قبول کر لیا تھا اور ”چلو تم اُدھر کو ہوا ہو جدھر کی“ کا نعرہ بلند کر رہے تھے۔
اقبال خوش قسمت تھے کہ انہوں نے صداقت اور خلاقیت کے بڑے اور کبھی نہ خشک ہونے والے فکری اور روحانی چشموں سے فیض اٹھایا اور اس کے نتیجے میں ان کی شخصیت میں آزادیِ فکر، سر بلندی، غیرت و حمیت اور تازہ جہانوں کو وجود میں لانے کی ان تھک آرزو نے جنم لیا۔ جس ازلی باغبان نے ان کی مٹی میں مصرع بو کر شمشیر کی فصل کاٹی تھی، اس نے ان کے دل میں یہ بات راسخ کر دی تھی کہ شجر کو نخلِ سینا بنانے اور دورِ حاضر کی منفی قوتوں سے پیکار کو آخری دم تک جاری رکھنا تمہارا مقدر ہے۔ کُل تریسٹھ برس عمر پائی مگر کیسی بابرکت اور مرادوں والی عمر تھی۔
سر زمینِ مشرق سے اقبال ایک عاشقِ صادق کی سی وابستگی رکھتے ہیں۔ یہ والہیت بے سبب نہیں۔ دراصل یہ بات اقبال کے شعور میں زندہ و بیدار تھی کہ سرزمینِ مشرق اعلیٰ روحانی فضائل کا مرکز رہی ہے۔ یہیں آسمانی مذاہب کا ظہور ہوا۔ دنیا کی قدیم ترین تہذیبیں بھی یہیں جنم لیتی ہیں۔ اقبال جہاں ایک طرف مشرق کا متواتر ذکر کرتے ہیں، وہیں سرزمینِ ایشیا کو بھی کثرت سے موضوعِ شعر بناتے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ مشرق اور ایشیا کو دو مترادف حقیقتوں کے طور پر برتتے ہیں۔ یوں مشرق اور ایشیا کی عظمت کا احساس فکرِ اقبال میں مرکز کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ ایک مانی ہوئی حقیقت ہے کہ ایشیا نا صرف تصوف، روحانیت اور بڑی تہذیبوں کا مرکز رہا ہے بلکہ رقبے کے اعتبار سے بھی پوری دنیا کا نصف ہے۔ ترکی سے لے کر روس کے مشرقی سرے تک اس کا پھیلاؤ ہے۔ اولیں قدیم ترین سمیری تمدن کا ظہور بھی تو یہیں ہوا! ایک مرکزِ فیضان کے طور پر مشرق کے ذکر اور خود سرزمینِ مشرق میں اقبال کی فکر کے مسلسل پھیلاؤ کے باعث اگر انہیں ”شاعرِ مشرق“ کہا جاتا ہے تو اس پر اعتراض کرنا بے معنی ہے اور اپنی کم نظری کے اعلان کے مترادف!
اقبال نے ”پس چہ باید کرد“ میں جہاں ایک طرف برعظیم میں رہنے والی قوموں کے باہمی نفاق پر اشک بہائے ہیں وہیں عربی امت سے بھی خطاب کر کے اس روشنی کی طرف بلیغ اشارے کیے ہیں جو اب بدقسمتی سے عربوں کے دل و دماغ سے کافور ہو چکی ہے، روحانیت، بلند نگہی، غیرت مندی، اعلیٰ طبیعی و غیر طبیعی علوم کے لیے بے چینی اور وارفتگی کی روشنی! اب مغربی استعمار نے وہاں ایم بی ایس (محمد بن سلیمان) جیسے پکھیرو چھانٹ لیے ہیں اور ان جیسوں کی شخصیت سازی ہو رہی ہے تا کہ اس چکا چوند کے سیلاب میں عربوں سے ان کے ایمان کی رہی سہی پونجی بھی چھین لی جائے اور ان کو ان کے قیمتی وسائل سے یکسر محروم کر کے اپاہج کر دیا جائے۔ آج جب اہلِ اسلام کو خلافت کی ضرورت تھی، ہم برج خلیفہ بنا کر نہال ہو رہے ہیں۔ عربوں کی عظمتِ رفتہ کی متعدد جھلکیاں ”پس چہ باید کرد“ کے حرف حرف میں لو دیتی نظر آتی ہیں۔ یہ محض اتفاق نہیں کہ امریکیوں اور عربوں کے اشتراک سے تیل کی بہت بڑی کمپنی آرامکو کے وجود میں آنے کے جلد ہی بعد اقبال عربوں کو بیدار کرتے ہوئے انہیں متنبہ کرتے ہیں:
اے زافسونِ فرنگی بے خبر
فتنہ ہا در آستینِ او نگر
از فریب ِ او اگر خواہی اماں 
اشترانش را زِحوضِ خود براں 
(اے اہلِ عرب، تم افرنگی کی چالوں سے بے خبر ہو۔ اس نے اپنی آستینوں میں کتنے ہی فتنے چھپا رکھے ہیں۔ اگر اس کے فریبوں سے نجات چاہتے ہو تو اس کے اونٹوں کو اپنے حوضوں سے بھگا دو!)۔ افسوس، عربوں نے اقبال کے انتباہ پر کان نہ دھرے۔ اپنے حوضوں یعنی تیل کے چشموں سے مغرب کے چالباز اونٹوں کو نہ بھگایا اور آج ستاسی اٹھاسی سال کے عرصے میں وہ پوری طرح امریکی استعمار کے گھیرے میں آ چکے ہیں! آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا!
اقبال نے اپنی اس عظیم کتاب ”پس چہ باید کرد“ میں لکھا ہے کہ غیرت اور فقر کا حامل انسان دراصل شہباز ہوتا ہے اور شہباز سے کون کہہ سکتا ہے کہ اپنے شکار سے ہاتھ اٹھا لے۔ پھر عہد زوال میں غلطاں مسلم امت کو اس شاہین سے تشبیہ دیتے ہیں جو اپنے گھونسلے میں سر جھکائے واماندہ بیٹھا ہے اور فضائے نیلگوں میں پر پھڑپھڑانے اور تیزی سے اڑنے کی ہمت نہیں رکھتا (ایسے شپرّہ مزاج شاہین سے خدا کی پناہ!)
اقبال تمام عمر اپنے شعری صحیفوں میں مغرب کی تاجرانہ ذہنیت اور عیاریوں کو بے نقاب کرتے رہے۔ ”پس چہ باید کرد“ میں بھی انہی تلخ حقائق کو زیادہ شدت سے بیان کرتے رہے اور کہتے رہے: افرنگی کی چال میں نہ آنا۔ اس کے ریشم کو تج کر اپنا موٹا جھوٹا کھردرا لباس باعثِ راحت جاننا، اپنے بوریے کا اس کے قالین سے سودا نہ کرنا۔ اس کی کستوری سے دھوکا نہ کھانا کہ وہ ہرن کے نافے کے بجائے نافِ سگ سے حاصل کی گئی ہے۔ بدقسمتی سے ہم نے اقبال کی خود انحصاری پر مبنی ان حیات خیز نصیحتوں کو ہوا میں اڑا دیا۔ آج ہم نافِ سگ سے حاصل کی ہوئی عفونت کو کستوری سمجھ کر کیف اندوز ہو رہے ہیں۔ اقبال نے کس قدر سچ کہاتھا:
تھا جو ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا
کہ غلامی میں بدل جاتے ہیں قوموں کے ضمیر

تبصرے بند ہیں.