کوئی بابا فیشل کرا لے تو کیا ہو گا؟ کسی بزرگ نے جدید فیشن کا ہیئر سٹائل بنوایا ہو تو کیا خیال ذہن میں آئے گا؟ کوئی شخص سفید بالوں کے ساتھ سیاہ چشمہ اور لال جراب کیوں نہیں پہن سکتا؟ ریٹائرمنٹ کے بعد کسی شام کیفے میں قوالی سنتے ہوئے نوجوانوں کے درمیان بھنگڑا کیوں نہیں ڈالا جا سکتا؟ بڑھاپے میں میاں بیوی ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے چہل قدمی کے دوران اٹھکیلیاں کیوں نہیں کر سکتے؟ کیا آپ نے اپنے ارد گرد کوئی ایسا بابا دیکھا ہے جو کسی گانے کی دھن پر سیٹی بجاتے ہوئے بے فکری سے جا رہا ہو ۔ جسے دیکھ کر لگے کہ اس کا آج کا دن صرف اس کے اپنے لیے ہے۔ بدقسمتی سے ہمارا معاشرہ اسے قبول نہیں کرتا۔ ہم نے از خود یہ طے کر لیا ہے کہ عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ انسان کو سنجیدہ ہونا چاہیے۔ ہم نے اپنے بزرگوں کی خوشیوں کو ’’بزرگی‘‘ کے بوجھ تلے کچل دیا ہے۔ ہم نے از خود یہ طے کر لیا ہے کہ ریٹائرمنٹ کے بعد اگر آپ ریٹائرمنٹ لائف ’’بھرپور‘‘ گزارنا چاہتے ہیں تو پھر صبح فجر کے بعد چہل قدمی کریں اور شام کو ٹیرس پر تنہا بیٹھے سگار یا کافی پیتے رہیں۔ ہم نے اپنے بزرگوں کو رعب اور پرانی یادوں تلے دفن کر دیا ہے۔ انہیں بچوں کو سکول سے لانے لیجانے اور سودا سلف خریدنے تک محدود کر دیا ہے۔ ان کی زندہ دلی کے ہر انداز کو چھچھورے پن کا نام دے دیا گیا ہے۔ یہ کس نے طے کیا ہے کہ بال سفید ہونے سے انسان کا دل مردہ ہو جاتا ہے یا چہرے کی جھریاں زندہ دلی ختم کرتی ہیں؟ بدقسمتی سے اس معاشرے نے اپنے بزرگوں کے چہروں سے خوشی، مسکراہٹ اور زندگی سے بھرپور قہقہے چھین لیے ہیں۔ ہم نے یہ طے کر لیا ہے کہ بزرگوں کو نوجوانوں کی محفل میں نہیں بیٹھنا چاہیے کیونکہ جو باتیں اور ’’حرکتیں‘‘ وہ عمر بھر کرتے رہے اب ان کے لیے شجر ممنوعہ ہیں۔ ہم نے انہیں دوست بنانے کے بجائے ڈانٹ ڈپٹ اور روک ٹوک پر لگا دیا ہے۔ ہمارے معاشرے نے ایک عمر تک ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھانے والے پر بزرگی کا بوجھ لاد دیا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہمارے ارد گرد زندگی سے بھرپور قہقہے لگاتے بزرگوں کی شدید قلت ہے۔ ہم نے اپنے معاشرے میں عمر کی ’’طبقاتی‘‘ تقسیم رائج کر رکھی ہے۔ کچھ عرصہ قبل تک مجھے بھی یہی لگتا تھا کہ ڈیجیٹل ورلڈ نوجوانوں کی دنیا ہے۔ نئی نسل اس میں ماہر ہے اور بزرگوں کو اس کا پتا ہی نہیں ہے۔ یوٹیوب، ڈیجیٹل میڈیا مارکیٹنگ، ای کامرس، ایمازون اور ایسے ہی دیگر جدید آن لائن پلیٹ فارم سے پیسے کمانے کا ہنر صرف نوجوانوں کے لیے ہے۔ ایک خاص عمر سے تجاوز کرنے والوں کے لیے اسے سمجھنا مشکل ہے۔ یہ سارے نظریات اس ہفتے ختم ہو گئے۔ لاہور پریس کلب میں ڈیجیٹل سکلز پروگرام شروع ہوا تو اس میں شریک ہونے والے ’’طالب علموں‘‘ میں 60 برس کے نوجوان بھی شامل ہیں۔ مجھے خوشی ہوئی کہ اس کلاس میں تجربہ کار صحافیوں کی اکثریت ہے اور زیادہ تر 35 سے 60 سال کی عمر کے صحافی شامل ہیں۔ ایک دو ’’طالب علموں‘‘ کی عمر 60 سال سے زیادہ بھی ہے۔ یہ لاہور پریس کلب میں کرائے جانے والا ایسا کورس ہے جس کے شرکا کی تعداد نے سب کو حیران کر دیا ہے۔ پریس کلب کے نثار عثمانی ہال میں اضافی کرسیاں رکھنا پڑتی ہیں اور ’’طلبہ صحافی‘‘ وقت سے پہلے ہال میں موجود ہوتے ہیں۔ صحافت ایک بار پھر اپنی ڈومینشن تبدیل کر رہی ہے۔ پہلے اخبارات سے ٹی وی چینلز کی طرف منتقل ہوئی تو جہاں کئی صحافیوں نے دنوں میں لاکھوں کروڑوں کمائے وہیں اکثریت کو انتہائی مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑا، کئی اخبارات بحران کا شکار ہوئے اور کچھ ڈمی بن گئے۔ اب ایک بار پھر ڈیجیٹل میڈیا نے وہی حالات پیدا کر دئیے ہیں۔ یہی وقت ہے جس میں صحافیوں کو ڈیجیٹل میڈیا سکلز سیکھنے کی ضرورت ہے۔ میری خواہش اور کوشش تھی کہ اس سال کے آغاز سے ہی لاہور پریس کلب میں ڈیجیٹل میڈیا سکلز کے تین تین ماہ دورانیہ ہر مشتمل کورسز کا آغاز ہو اور مرحلہ وار کورسز متعارف کرائے جائیں تا کہ لاہور کے صحافی ڈیجیٹل میڈیا اور ای کامرس کے بھی ایکسپرٹ بن جائیں۔ یہ متبادل روزگار بن جائے تو صحافی معمول کے دباؤ سے آزاد ہو جائیں گے۔ کچھ مسائل کی وجہ سے یہ سلسلہ تاخیر سے شروع ہوا لیکن اب امید ہے کہ جاری رہے گا۔ لاہور پریس کلب کے ڈیجیٹل سکلز کورس میں شریک سینئر صحافیوں کی اکثریت نے یہ واضح کر دیا ہے کہ ڈیجیٹل سکلز کا تعلق صرف نوجوان طبقے سے نہیں ہے۔ یہ سکلز عمر کے کسی بھی حصہ میں سیکھ کر اسے ذریعہ روزگار بنایا جا سکتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ سب بہت زیادہ مشکل نہیں ہے اور نہ ہی اس کے لیے کمپیوٹر یا لیب ٹاپ کی شرط ہے۔ ابتدائی طور پر اینڈرائیڈ موبائل پر بھی کام ہو سکتا ہے۔ اگر آپ کی عمر پچاس سال سے زائد ہے، آپ اپنی زندگی جینا چاہتے ہیں تو یقین مانیں یہ دنیا بہت خوبصورت ہے۔ روزگار کے لیے جدید سکلز سیکھیں، نوجوانوں میں اٹھیں بیٹھیں۔ اپنی زندگی کو نام نہاد بزرگی کے بوجھ تلے ختم کرنے کے بجائے اپنے تجربات نئی نسل کو منتقل کریں اور ان کے زمانے کی ٹیکنالوجی سیکھیں۔ ڈالر کمائیں اور نوجوانوں کے ساتھ کیفے میں شام گزاریں، قہقہے لگائیں، آوارگی کریں اور اپنی بیماریوں کا ذکر کرنے کے بجائے اپنی کامیابیوں کی داستانیں سنائیں۔ جنریشن گیپ کو ختم کریں۔ یہ ظالم اور بے حسی معاشرہ عمر کی ایک خاص حد کے بعد اپنے ہی لوگوں کو عضو معطل بنا دیتا ہے لیکن اسی معاشرے میں اگر کوئی ’’بابا‘‘ ڈیجیٹل سکلز کی مدد سے ڈالر کمانے لگ جائے تو اس کی کالی عینک، لال جراب اور کیفے لائف چھچھورے پن کے بجائے ’’زندہ دلی‘‘ بن جاتی ہے۔
تبصرے بند ہیں.