خونِ ناحق… رزق خاک ہوا!

96

ٓٓآج سے چودہ سال قبل ۲۷دسمبر ۲۰۰۷ ء کے دن کو راولپنڈی اسلام آباد میں ہی نہیں پورے ملک میں بھر پور سیاسی سر گرمیوں کا حامل ایک دن قرار دیا جا سکتا تھا کہ اس سے کچھ ہی دن بعد ۸ جنوری ۲۰۰۸ کو ملک بھر میں منعقد ہونے والے عام انتخابات کی انتخابی مہم پورے زور و شور سے جاری تھی۔ راولپنڈی اسلام آباد بطور خاص اس دن اہم سیاسی اور انتخابی سر گرمیوں کا مرکز بنے ہوئے تھے کہ ملک کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائدمحمد نواز شریف اور پاکستان پیپلز پارٹی کی چیئر پرسن محترمہ بے نظیر بھٹو بہ نفسِ نفیس دارالحکومت میں موجود تھے۔ اس دن بعد دوپہر لیاقت باغ راولپنڈی میں پاکستان پیپلز پارٹی کا جلسہ عام منعقد ہو رہا تھا۔جس سے محترمہ بے نظیر بھٹو نے خطاب کرنا تھا، جبکہ اسی سہ پہر کو اسلام آباد ایکسپریس وے پر کورال چوک اور دوسری جگہوں پر میاں محمدنوازشریف نے مسلم لیگ (ن) کے قومی اسمبلی کے اُمیدواروں کی انتخابی ریلیوں سے خطاب کرنا تھا۔ بلاشبہ یہ ایک بھر پور سیاسی سرگرمیوں کا حامل دن سمجھا جا سکتا تھا۔ لیکن اس دن ان سیاسی سر گرمیوں سے بڑھ کر جو المناک واقعات رونما ہوئے ان سے اس دن نے ایک بھر پور سیاسی سر گرمیوں کے حامل دن سے بڑھ کر قومی تاریخ کے ایک سیاہ دن کی حیثیت حاصل کر لی اور پنڈی کے نام پر یہ داغ مزید گہرا ہو گیا کہ یہاں سے لاشیں سندھ جاتی ہیں۔
لیاقت باغ میں پیپلز پارٹی کے جلسہ عام سے محترمہ بے نظیر بھٹو کا خطاب جاری تھا کہ سٹیج پر کچھ ایسی پُر اسرار سرگرمیاںاور اشارے سامنے آئے کہ دیکھنے والے ان کو دیکھ کر حیران ضرور ہوئے لیکن شائد ایک دو افراد یا چند افراد کو چھوڑ کر باقی کسی کے گمان میں نہیں تھا کہ یہ اشارے کسی مقصد کے حامل ہو سکتے ہیںاور کچھ ہی وقت تقریباً آدھ پون گھنٹہ بعد جو المناک سانحہ وقوع پذیر ہوگا کہ تاریخ ہی اپنے آپ سے شرمندہ نہیں ہو گی بلکہ اس المناک سانحے کی تمام کڑیاں بھی جڑ کر ایک مکمل سکرپٹ کی صورت میں کبھی سامنے نہیں آسکیں گی۔
لیاقت باغ کے باہر لیاقت روڈ پر اس دن بے گناہوں کا جتنا بھی خون بہہ نکلا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو اپنی بلٹ پروف گاڑی کی روف سکرین سے سر باہر نکالے اپنے پُر جوش کارکنوں اور پارٹی کے جیالوں کے نعروں کا جواب دیتے جس طرح قریب سے چلائے جانے والی پستول کی گولیوں اور خودکش حملے کا نشانہ بنیں اس نے کچھ وقت کے لئے نہ صرف محترمہ کی زندگی کی سانسوں کی ڈوری کو کچے دھاگے کے ساتھ باندھ دیا بلکہ بے شمار پاکستانیوں جن میں میری طرح کے محترمہ کے روایتی ناقدین اور مخالفین بھی شامل تھے ایک بار ہلا
کر رکھ دیا۔ انھیںبھی ایسے لگا کہ جیسے ان کے سانسوں کی ڈوری بھی کچے دھاگے سے لٹک رہی ہے۔ ایسا کیوں نہ ہوتا بلاشبہ محترمہ بے نظیر بھٹو وفاق پاکستان کی زنجیر تھی۔ خود رونمائی پر محمول نہ کیا جائے تو میں کچھ بتائوں کہ میرے ساتھ کیا بیتی۔ میں شام کے اوقات کی کچھ ذمہ داریاں پوری کرنے کے بعد گھر پہنچا تو محترمہ بے نظیر بھٹو پر قاتلانہ حملے یا خودکش حملے کی خبر سُنی۔ سچی بات ہے بالکل سچی بات کہ ایک بار میں اندر سے ہل کر رہ گیا۔
مجھے محترمہ بی بی کے شدید زخمی ہونے کا دُکھ تھا ہی کہ پیپلز پارٹی کا عشروں سے روایتی طور پر مخالف ہونے کے باوجود پچھلے چند برس سے محترمہ بی بی کے ساتھ ایک طرح کی حقاہمت اور اُنسیت جنم لے چکی تھی۔ اس کی بڑی وجہ محترمہ کا اقتدار سے محروم کیا جانا اور پے درپے ذاتی سانحوں کا نشانہ بنایا جانا تھا۔ تو اس کے ساتھ ایک وجہ یہ بھی تھی کہ محترمہ منجھے ہوئے اور پختہ سیاسی خیالات و افکار کی مالک سیاسی شخصیت کی حیثیت ہی اختیار نہیں کر چکی تھیں بلکہ عالمی سطح بالخصوص امریکہ اور مغربی ممالک میں ایک روشن خیال رہنما کے طور پر اپنی ایک مثبت پہچان بنائے ہوئے تھیں۔
سچی بات سے میری آنکھیں بھیگ رہی تھیںاور میں خودکلامی کے انداز میں بار بار یہ الفاظ دہرائے جا رہا تھا۔ یااللہ یہ کیا ہُوا؟ ظالموں نے کتنا بڑا ظلم کر دیا۔ اب پاکستان کا کیا ہو گا۔ اللہ کرے بے نظیر بچ جائیں۔ لیکن مشیتِ ایزدی کو کون ٹال سکتا ہے۔ کچھ ہی دیر بعد خبر آگئی کہ محترمہ بی بی شدید زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ہسپتال میں اللہ کو پیاری ہو گئی ہیں۔ اب دُکھ اور غم کا سلسلہ تو تھا ہی اس میں کچھ ذاتی تشویش اور پریشانی بھی شامل ہو گئی۔ ان دنوں میرا بیٹا عثمان ملک گارڈن کالج میں بی ایس سی فائنل کا طالب علم تھا اور شام کو ٹیوشن پڑھنے کے لئے ٹیپو روڈ پر جایا کرتا تھا۔ اس دن بھی وہ حسبِ معمول ٹیوشن پڑھنے گیا ہواتھا ۔ ٹیپو روڈ لیاقت باغ کے قریب اور وہاں کی سرگرمیوں سے براہ راست متاثر ہونے والی جگہ سمجھی جاسکتی ہے۔ مجھے فکر تھی کہ سعد بھی جلسے جلوس قریب سے دیکھنے کا شوق رکھتا ہے یہ نہ ہو کہ کہیں لیاقت باغ نہ چلا گیا ہو۔ یا محترمہ بی بی پر خودکش حملے کا سن کر ادھر کہیں قریب نہ چلا گیا ہو۔ میں پوری کوشش کر رہا تھا کہ کسی طرح سعد سے رابطہ ہو سکے۔ لیکن ایسا نہیں ہو رہا تھا میری پریشانی اور تشویش بڑھ رہی تھی۔ اس دوران میرا رابطہ اپنے بھتیجے عمران نوید ملک سے ہو گیاجو مسلم لیگ ن کی ریلیو ںمیں شرکت کے لیے گاڑی سے آیاہوا تھا۔ اس کا رابطہ سعد سے ہوگیا تھا اور اس نے بتایا کہ سڑکوں پر توڑ پھوڑ اور آتش زنی شروع ہو چکی ہے۔ لیکن وہ اور سعد بچ بچا کر کچھ دیر تک آجائیں گے۔ کچھ دیر بعد دونوں آ گئے تو فکر لاحق ہوئی کہ عمران نے ہر صورت میں گائو ں جانا ہے۔ یہ نہ ہو کہ اڈیالہ روڈ پر ہنگاموں اور احتجاج کا سلسلہ شروع نہ ہو گیا ہو ۔ خیر عمران کو خداحافظ کیا ہی تھا کہ چوک میں جہاں ہم کھڑے تھے کچھ مظاہرین ا ٓگئے اور انہوں نے ٹائروں وغیرہ کو آگ لگانا شروع کر دی۔ محترمہ بی بی کی شہادت پر احتجاجی مظاہرے اور ہنگامے پھوٹ پڑے ۔ دو تین دنوں تک گھروں سے نکلنا محال ہو گیا۔ بلاشبہ قومی اور نجی املاک کو بڑا نقصان پہنچا لیکن محترمہ بی بی کی المناک موت اور شہادت سے قوم کو جو نقصان برداشت کرنا پڑا اس کا شاید مداوانہ ہو سکے بلاشبہ پاکستانی قوم ایک بڑی رہنما ایک مدبر سیاست دان اور عالمی پائے کی ایک سٹیٹسمین سے محروم ہو گئی۔ مقدر کے کھیل کہ پیپلز پارٹی میں بہت سارے لوگو ں کی لاٹری نکل آئی۔ آصف علی زرداری پیپلز پارٹی کے قائمقام چیئرمین بن گئے اور صدر مملکت کے عہدہ جلیلہ پر جا پہنچے۔ سید یوسف رضا گیلانی اپنی مرنجان مرنج شخصیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وزارت عظمیٰ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے اور راجہ پرویز اشرف کو بھی اس منصب جلیلہ سے فیض یاب ہونے کا موقع نصیب ہو گیا۔
محترمہ بی بی کا خو ن ناحق تا حال افتاں و پریشاں ہے۔ لگتا ہے خون ناحق رزق خاک ہو گیا۔

تبصرے بند ہیں.