اخلاقیات کے بغیر سیاست

90

گزشتہ جمعہ کو پیپلز پارٹی نے مہنگائی کے خلاف مظاہرے کیے کہنے کو تو یہ مظاہرے ملک گیر تھے مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔ جمعے کو یہ مظاہرے صرف صوبہ سندھ میں نظر آئے۔ مظاہروں کا مرکز کراچی شہر تھا۔قائد کے شہر میں مختلف مقامات پر چند ٹولیوں کے ساتھ پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے احتجاجی مظاہروں سے خطاب کیا۔اس سلسلے میں سندھ کے وزیر سعید غنی کی شعلہ بیانی قابل بیان ہے۔سعید غنی نے وزیر اعظم عمران خان پر بہت تنقید کی انہوں نے کچھ تیر ایم کیو ایم کی طرف بھی برسائے فرق صرف اتنا ہے کہ انہوں نے وزیر اعظم کو نااہل قرار دیا اور لوگوں سے کیے گئے وعدے یاد کروائے۔انہوں نے مختلف وعدوں کا تذکرہ کرتے ہوئے عمران خان کا ایک ایک وعدہ یاد کروایا جبکہ ایم کیو ایم کو کراچی شہر کا ٹھیکیدار قرار دیا۔اگر سعید غنی کی باتوں کا بغور جائزہ لیا جائے اور انہیں حقیقت کے آئینے میں پر کھا جائے تو ایک بات عیاں ہوتی ہے کہ کراچی شہر کو ان لوگوں کی سیاست کھا گئی ہے ۔یہ شہر دنیا کے خوبصورت ترین شہروں میں شامل تھا کبھی وہ زمانہ تھا کہ یورپ اور عرب ملکوں کے شہزادے ،شہزادیاں کراچی آکر چھٹیاں گزارا کرتے تھے پھر اس شہر کو نظر لگ گئی اور یہ شہر پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کی نذر ہوگیا۔ کراچی شہر کی ملکیت کا دعویٰ یہ دونوں جماعتیں کرتی رہی مگر کراچی کے مسائل حل نہ ہو سکے کراچی جہاں روشنیاں تھی امن تھا ، کاروبار تھا، وہاں گولیاں چلنا شروع ہو گئیں، وہاں بوری بند لاشیں ملنا شروع ہو گئیں، بدامنی نے کراچی کا سکون تباہ کر دیا، امن جاتارہا، کاروبار برباد ہو گیا اور روشنیاں بجھ گئیں۔ پچھلے پینتیس چالیس سالوں میں زیادہ تباہی ایم کیو ایم نے کی۔ ایم کیو ایم کے لوگوں نے کراچی میں چائنہ کٹنگ کے انوکھے مظاہرے کیے، نالوں پر بڑی بڑی عمارتیں بنائیں، پارکوں پر قبضہ کر کے ایم کیو ایم کے دفاتر قائم کیے۔ اسی طرح لوگوں کے گھروں پر قبضہ ہوتے رہے۔ بھتہ وصولیاں بھی ہوتی رہیں، لوگوں کے بچے قتل ہوتے رہے۔ کبھی فلاں کی سپاری تو کبھی کسی اور کی سپاری ملنے لگی۔ اس سارے کھیل نے شہر قائد کو برباد کر دیا۔
پیپلزپارٹی کا قصور یہ ہے کہ سندھ پر صوبائی راج ان کا تھا مگر وہ کراچی کے لئے کچھ نہ کر سکے بلکہ لوٹ مار کے اس بہتی گنگا میں انہوں نے بھی ہاتھ دھونے شروع کر دیئے۔ ان کے کئی لوگوں نے بھی سرکاری جگہ پر قبضہ کرکے اپنا حصہ ڈالا۔جہاں تک وعدوں کا سوال ہے اس سلسلے میں اتنا عرض کروں گی کہ پیپلز پارٹی کو روٹی کپڑا اور مکان کے نعرے کی طرف دیکھنا چاہیے پچاس سال سے زائد عرصہ گزر گیا ہے پیپلز پارٹی مسلسل یہ وعدے کر رہی ہے مگر یہ وعدہ پورا نہیں ہو سکا۔اب بھی پچھلی تین صوبائی حکومتوں سندھ میں مسلسل پیپلز پارٹی کی آئی ہیں مگر کیا صوبہ سندھ میں سب کو مکان مل گئے؟ کیا سب کو روٹی مل گئی؟ اور کیا سب کو کپڑا مل گیا؟ ان تمام سوالوں کا جواب یقینا نفی میں ہے۔ ایم کیو ایم اردو بولنے والوں سے ووٹ تو لیتی رہی مگر انہوں نے کراچی کیلئے کچھ نہ کیا۔الٹا کراچی کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا۔
اب جب پی ٹی آئی کی وفاقی حکومت نے کراچی میں گرین بسوں کا آغاز کردیا ہے، تو یہ دونوں جماعتیں عمران خان پر تنقید کے نشتر برسا رہی ہیں وفاقی حکومت نے کراچی شہر میں سڑکوں کی حالت بہتر بنانے کا فیصلہ بھی کیا۔قائداعظم کے شہر میں سب سے بڑے نالے کے دونوں اطراف خوبصورت سڑک بنا کر لوگوں کی آمدورفت کو آسان بنا دیا گیا ہے۔ اسی طرح شہر کے اندر ریلوے کا خوبصورت نظام بھی قائم کیا جا رہا ہے۔ ان تمام منصوبوں سے دونوں جماعتیں یعنی پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم خائف ہیں۔ اسی خوف میں ان کے رہنما پی ٹی آئی اور خاص طور پر وزیراعظم عمران خان پر تنقید کر رہے ہیں کہ کہیں پی ٹی آئی کراچی جیسے بڑے شہر میں سب سے زیادہ ووٹ بینک نہ بنا لے۔
جمعہ کے روز فیصل آباد میں سمندری کے قریب ڈجکوٹ نامی قصبہ میں مسلم لیگ نون کے دو رہنماؤں طلال چوہدری اور میاں فاروق نے ایک کارنر میٹنگ میں ننگی گالیاں دیں۔ سیاستدانوں کی طرف سے ایسی حرکات سے یقینا سرشرم سے جھک جاتا ہے ،پتہ نہیں ہمارے سیاستدانوں کو کیا ہوگیا ہے جو سیاست میں اخلاقیات کا ذرا برابر پاس نہیں کر رہے ہیں ایسے لوگوں کو تو سیاسی جماعتوں کو بھی برداشت نہیں کرنا چاہیے یہ لوگ معاشرے میں بگاڑ کے ذمہ دار ہیں۔پتہ نہیں ہمارے سیاستدانوں کو کب پتہ چلے گا کہ سیاست دراصل عبادت ہوتی ہے سیاست لوٹ مار اور مغلظات کا نام نہیں۔

تبصرے بند ہیں.