ملک بھر میں موسم سرد، حواس منجمد کرنے والی سردی، شدید برفباری، ایسے میں گیس ندارد، غریبوں نے سوچا گیس گئی چولہے بھاڑ میں لکڑیوں سے چولہے جلائو اور کھانا پکائو، ظالموں نے جلانے والی لکڑی بھی مہنگی کردی۔ ’’دل جلائو کہ روشنی کم ہے‘‘ غریب دل مسوس کر رہ گئے۔ سردی میں ٹھٹھر ٹھٹھر کر مرجائیں یہ مرضی میرے صیاد کی ہے۔ ستم بالائے ستم، وزیروں، مشیروں کی ضد کہ ’’ہم آگئے ہیں گرمیء بازار دیکھنا‘‘ انہوں نے ٹی وی چینلوں اور کیمروں کے سامنے پرے جمالیے۔ چند ایک نے تو ترجمانی کے لئے ڈیرے ڈال دیے۔’’ بستر لگا دیے ہیں تیرے گھر کے سامنے‘‘ ادھر کوئی اپوزیشن لیڈر بولا دھڑ سے اس کا جواب، زہر کا تریاق حاضر، 24 گھنٹے ایک ہی رٹ، ’’پاکستان دنیا میں سستا ترین ملک ہے‘‘ تحقیق کی ضرورت ہی نہیں، جن کی ترجمانی پر مامور ہیں انہوں نے ایک بار یہ فلسفہ پیش کیا۔ پوچھا سستا ملک کیسے ہر چیز تو مہنگی ہے بس جان سستی ٹھہری، جواب ملا۔ ’’باس از آل ویز رائٹ‘‘ غلط ہو ہی نہیں سکتے’’ باقی تے زمانہ سارا جھوٹ پیامار دا اے‘‘ محترم وفاقی وزیر نے تو کمال ہی کردیا کہا ’’ملک میں بس چائے مہنگی باقی تمام اشیا سستی ہیں، 3 روپے کی گولی 7 روپے میں پڑے تو کیا فرق پڑتا ہے‘‘۔ کسی دل جلے نے جلی کٹی سنائی کہ حضرت دوستوں کو چائے پلانے اسلام آباد کے سٹریٹ ون کیفے یا ٹس کینی (TUSCANY) چلے گئے ہوں گے۔ چائے کا بل ہزاروں میں آیا دوست نکل لیے عرصہ بعد بل ادا کرنا پڑا احساس تو ہوگا کہ چائے سب سے مہنگی۔ آٹا، دال، گھی خریدنے کا کبھی اتفاق ہی نہیں ہوا۔ کبھی بازار کا منہ نہیں دیکھا مہنگائی کا کیسے پتا چلے، خوش قسمت لوگ ہر دور میں خوشحال ورنہ پورا ملک اور ماہرین معاشیات چیخ رہے ہیں کہ مہنگائی کا اژدھا خلق خدا کو نگل رہا ہے۔ خود اسٹیٹ بینک نے اعتراف کیا کہ عمومی مہنگائی 11.5 فیصد اور تجارتی خسارہ 5 ارب ڈالر تک بڑھ گیا۔ اس لیے شرح سود میں ایک فیصد اضافہ کرنا پڑا۔ شرح سود بڑھنے سے قرضوں پر 150 سے 1600 ارب کا سود بھی بڑھ گیا۔ ملکی قرضے 50 کھرب تک پہنچ گئے۔ ماہرین مہنگائی کی شرح 18 فیصد سے زائد بتاتے ہیں بلکہ ادارہ شماریات کے مطابق مہنگائی 19 فیصد ہے۔ (شاید جھوٹ بولتے ہوں گے) لیکن ریسرچ کرنے والے بتاتے ہیں کہ بھارت میں مہنگائی کی شرح 4.48 فیصد اور بنگلہ دیش میں 0.57 فیصد ہے۔ بنگلہ دیش کا ایک ٹکہ 2 پاکستانی روپوں کے برابر ،50 سالہ ملک کی برآمدات ہم سے دگنی، تجارتی خسارہ 22 ارب ہمارا 31 ارب ڈالر، ہماری درآمدات برآمدات سے 3 گنا زیادہ۔ دنیا بھر میں
مہنگائی مقامی حالات کے تحت بڑھی لیکن کسی ملک میں لنگر خانوں کے باہر ہائوس فل کے بورڈ نہیں لگے۔ کسی ملک کے ماہرین نے اشاروں کنایوں میں بھی نہیں کہا کہ ملک دیوالیہ ہوچکا ہے یا دیوالیہ ہونے جیسی صورتحال سے دوچار ہے، ڈالر 181 روپے سے تجاوز کرگیا تین سال میں ڈالر 55 روپے بڑھا روپیہ ایک سال میں 20 روپے کم ہوا۔ دو ماہ میں عوام پر بجلی کی مد میں 115 ارب کا بوجھ ڈالا گیا۔ متوسط طبقہ ناقابل بیان مہنگائی کے باعث سڑک پر آگیا۔ یقین کیجیے زندگی میں اتنے وائٹ کالر منگتے نہیں دیکھے۔ دنیا بھر کے 2 سو ممالک میں پاکستان کا مہنگائی میں تیسرا نمبر، کوشش ہے کہ پہلے نمبر پر آجائے ہمارے لئے ’’ عالمی اعزاز‘‘ ہوگا۔ سرد موسم میں گیس بندش سے سی این جی اسٹیشنز کو ایک کھرب 30 ارب کے نقصان کا خطرہ، ہزاروں ڈیلی ویجز بیروزگار ہر شہری 2 لاکھ 35 ہزار کا مقروض ، 3 سال میں ہر شہری پر 91 ہزار قرض کا اضافہ ہوا۔ 50 کھرب کے قرضوں سے حکومت کا کشکول بھر گیا۔ غریب کی جیب بلکہ جھولی خالی ہو گئی۔ سارے ترقیاتی پروگرام منصوبے ادھار پر چل رہے ہیں۔ وزیر مشیر کہتے ہیں ملکی قرضہ کم ہوا ہے۔ پتا نہیں حبیب جالب مرحوم کہا کرتے ہیں ’’دن پھرے ہیں فقط وزیروں کے، وہی حالات ہیں فقیروں کے، ہر بلاول ہے قوم کا مقروض، پائوں ننگے ہیں بے نظیروں کے‘‘ جسم و روح کو منجمد کرنے والے ان حالات میں حکومت کی اولین کوشش کہ عوام یقین دہانیوں پر ایمان لے آئے، عوام کی چیخیں نکل رہی ہوں تو کوئی کیسے یقین کرلے اسی ادھیڑ بن میں دو ضمنی الیکشن میں سرکار کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔ دونوں الیکشن ن لیگ جیت گئی۔ اپوزیشن (جتنی اور جیسی ہے) تین الزامات لگا رہی ہے۔ مہنگائی، نا اہلی اور لوٹ مار۔ مہنگائی اظہر من الشمس لوٹ مار کب اور کیسے ثابت ہوگی۔ نا اہلی کا فیصلہ عوام کریں گے۔ فی الحال سارے وزیر، مشیر اور ترجمان تینوں الزامات کا ذمہ دار اپوزیشن کو ٹھہرانے کے لئے سرگرم، روزانہ ہدایات مل رہی ہیں۔ ’’چوروں ڈاکوئوں کی لوٹ مار اجاگر کرو۔‘‘ وزیروں مشیروں اور ترجمانوں کا پورا زور اس پر ہے کہ سرد موسم میں عوام کو گرما گرم سیاست میں الجھا دیا جائے۔ چنانچہ گزشتہ دنوں سے اب تک آڈیو ویڈیو اسکینڈل، اپوزیشن لیڈر کے خلاف نئے ریفرنسز 100 گواہوں کی فہرست۔ کسی بٹ صاحب کو تلاش کرلیا گیا جس نے 50 لاکھ شہباز شریف کے اکائونٹ میں ڈالے اس نے کہہ دیا کہ میں نے تو پارٹی فنڈ میں دیے تھے۔ آصف زرداری مزے میں رہے۔ گاڑی کا رخ موڑا۔ بڑے بھائی کو ایک آدھ بار برا بھلا کہا۔ ما شاء اللہ ریفرنسوں کا پورا ریکارڈ ہی غائب ہوگیا اللہ کرے سارے بچے کھچے ریکارڈ بھی غائب ہوجائیں اور وہ ملک بھر میں نمبر 1 کے بعد نمبر 2 صادق اور امین بن جائیں۔ کوئی تو متبادل ہو۔ ن لیگ تو لیڈر کو ترس رہی ہے ایک الیکشن مرحوم رکن اسمبلی کے بیٹے کی کوششوں سے جیت لیا دوسرا عطا تارڑ کی محنت سے ہاتھ آگیا مگر وفاقی وزیر اطلاعات نے یہ کہہ کر خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے کہ آئندہ انتخابات میں مقابلہ ن لیگ اور پی ٹی آئی میں ہوگا، پی ٹی آئی منظم ،ارکان کمپیوٹرائزڈ، ایک ایک رکن پر نظر، ن لیگ کے پاس ووٹر ہیں ارکان نہیں، عوام نواز شریف کو ووٹ دیتے ہیں وہ نہیں ہیں تو کس کو دیں گے ایک ن لیگی رہنما نے کہا تھا نواز شریف دسمبر میں واپس آجائیں گے۔ دسمبر گزر گیا۔ سیاں جی وہیں بیٹھے ہیں یہاں لوگ عوام کو ترغیب دینے اور حمایت میں اضافہ کے بجائے آئندہ وزیر اعظم کے لئے نامزدگیوں میں الجھے ہوئے ہیں۔ اپوزیشن منتشر ہو کر رل گئی۔ بلاول اور آصف زرداری راستہ کھلا ملنے پر سرد موسم میں بھی گرما گرم سیاست کر رہے ہیں۔ پنجاب میں پائوں ٹک جائیں تو پوری ن لیگ کو خیمے سے باہر نکال دیں گے۔ لانگ مارچ لمبا ہوتا جا رہا ہے۔ 23 مارچ کو کون سا مارچ ہوگا پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ۔ سیانے سچ کہتے ہیں بکھری بکھری الجھی الجھی اپوزیشن تو شاید حکومت کا کچھ نہ بگاڑ سکے لیکن مہنگائی اپنا رنگ ضرور دکھائے گی۔
Prev Post
تبصرے بند ہیں.