ادیب‘ناشر اورسائباں تحریک

65

میرے ۲ نومبر کے کالم (شاکر شجاع آبادی: ویڈیو کی اصلیت)پر دوستوں نے بہت سراہا کہ اگر شاکر شجاع آبادی کو اس قدر امداد ملی ہے تو وہ کہاں خرچ ہوئی‘اس کا آڈٹ ہونا چاہیے۔یہ سچ ہے کہ تخلیق کار اور فنکار کسی بھی طبقے کی اہم شناخت اور اثاثہ ہوتا ہے مگر اس کا قطعاً یہ مطلب نہیں کہ ایک فنکار کو مسلسل نوازا جائے جب کہ باقی سیکڑوں ایسے فنکاروں یا ادیبوں کو نظر انداز کر دیا جائے جو حکومتی امداد کے حقیقی مستحق ہیں۔پہلے مہدی حسن اور اب شاکر شجاع آبادی‘ دونوں قومی ہیروز کو حکومتِ وقت اور مداحوں کی طرف سے بھرپور نوازا گیا مگر افسوس اخیر عمر میں ان کو دوا کے لیے بھی جس اذیت سے گزرنا پڑا‘ ناقابلِ بیان ہے۔مجھے خوشی ہے کہ حکومت اس معاملے میں انتہائی سنجیدہ ہے اور اداکاروں‘فنکاروں اور گلوکاروں کے لیے فنڈز جاری کیے گئے۔سوال یہ ہے کہ وہ فنڈز کتنے فیصد میرٹ پر گئے اور کتنے مستحق اس سے مستفید ہوئے‘کہیں ایسا تو نہیں کہ ہر دور میں حکومت ایک ہی ہیرو کو نوازتی رہی اور باقی بے چارے مسیحا کے منتظر منوں مٹی میں چلے گئے؟۔
اس حوالے سے اکادمی ادبیات پاکستان‘سینئرزلکھنے والوں کو ماہانہ وظیفہ دیتی ہے مگروظیفہ ملنے کا کوئی وقت اور مہینہ بھی مقرر نہیں۔ایسے میں وظیفہ کس کام کاجب ضرورت پڑنے پر موجود نہ ہو۔اس کی ایک زندہ مثال انتہائی سینئر شاعر روحی کنجاہی ہیں‘ایک طویل عرصے سے بیماری سے جنگ لڑ رہے ہیں مگر حکومتِ وقت کے پاس بالکل وقت نہیں کہ ان کی مسیحائی کر سکے۔وہ دوا کے لیے کئی کئی ماہ اکادمی کے وظیفے کے منتظر رہتے ہیں‘اور پھروظیفہ بھی اتنا زیادہ نہیں کہ اس سے آسانی سے علاج ممکن ہو سکے۔دوسری طرف کنجاہی صاحب اکادمی کے وظیفے سے ہی گھریلو اخراجات بھی دیکھ رہے ہیں جو یقینا ایک مشکل کام ہے‘ان کے بیٹے کو اتنا تو کرنا چاہیے کہ گھر کی ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھائے۔افسوس تو یہ ہے کہ روحی کنجاہی کے بیٹے کا معاملہ بھی شاکر شجاع آبادی کے بیٹو ں سے زیادہ
مختلف نہیں‘کیوں کہ بقول محترم حسین مجروح: ”روحی کنجاہی صاحب کی پریشانی کی ایک بڑی وجہ ان کا بے روزگار بیٹا ہے“،گزشتہ روز مجروح صاحب‘کنجاہی صاحب سے ملنے گئے اور ان کے بیٹے کو دفتر سائبان میں ملازمت کی پیش کش کی ہے جو واقعی خوشی کی بات ہے۔کنجاہی صاحب ہماری شعری روایت کا ایک منفرد حوالہ ہیں‘ستر اور اسی کی دہائی میں کئی اہم سخن وروں کی موجودگی میں اپنی انفرادیت قائم کی‘ ان کے اشعار مداحین کو ازبر ہوتے تھے مگر افسوس ایک طویل عرصے سے روحی کنجاہی گوشہ نشینی کی زندگی بسر کر رہے ہیں‘ لاہور میں ہوتے ہوئے بھی ادبی تقریبات میں جانے سے قاصر ہیں۔
اسی طرح انتہائی پیارے اور درویش منش شاعر جاوید قاسم بھی گلاب دیوی ہسپتال میں بیماری سے لڑ رہے ہیں‘ان کے لیے تو کسی طرح کا وظیفہ بھی نہیں آتا حالانکہ حکومت ِ وقت اور ادبی اداروں نے کیسے کیسے لوگوں کوبغیر وجہ کے نوازا‘ایک طویل فہرست ہے مگر جاوید قاسم جیسے سنجیدہ اور درویش شاعر کے لیے کسی ادارے کے سربراہ کو توفیق نہیں ہوئی کہ وہ”ادبی سیاست“ اور نمود و نمائش سے باہر آ کر ہسپتال پہنچتا اور جاوید قاسم کی تیمار داری کرتا‘کیا ادبی اداروں کا کام محض اپنوں کو نوازنا‘ عہدوں کی دوڑ میں شامل ہونا ہی رہ گیا ہے؟خدا بھلا کرے محترم حسین مجروح کا‘جو روحی کنجاہی اور جاوید قاسم کے پاس پہنچے‘سائباں تحریک کی طرف سے مناسب ہدیہ پیش کیا اور ان ادیبوں کے علاج کے اخراجات کا ذمہ لیا۔محترم ناصر بشیر سمیت کئی دیگر دوست بھی جاوید قاسم اور روحی کنجاہی سے ملنے گئے‘ان کے لیے امداد کی فراہمی کو یقینی بنایا۔اسی طرح کا ایک اہم کام سائباں تحریک کے پلیٹ فارم سے حسین مجروح کر رہے ہیں۔سچ پوچھیں تو سائبان تحریک اپنی نوعیت کی ایک منفرد تحریک ہے‘جس کا مقصد ادیبوں کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنا ہے۔آپ خود سوچیں جس تحریک کا نعرہ”کتاب پڑھیں اور خرید کر پڑھیں“ہوگا‘وہ تحریک کس قدر اہم ہوگی۔
ہمارے ہاں ادیبوں کے ساتھ یہی معاملہ رہا‘ان کی تحریروں سے ناشر‘بک سیلر‘کمپوزر اورجلد ساز تک نے پیسہ کمایا‘اگر کچھ نہیں ملا تو وہ ادیب کو‘جو بے چارہ کل بھی خالی ہاتھ تھا اور آج بھی۔کیسا المیہ ہے کہ جس کی تحریروں نے معاشرے کی تقدیر بدلنے کا کردار ادا کیا‘وہ خود بھوکا رہا جبکہ اس کو چھاپنے والے پیسہ چھاپتے رہے۔ جب ناشرین سے یہ کہا جاتا ہے کہ جناب ادیب کو رائلٹی ملنی چاہیے‘تو ناشرین بیک زبان ہو کرایک ہی ”رٹا رٹایا“ جملہ بولتے ہیں:”کتاب کا کلچر ختم ہو گیا“،کیسی عجیب بات ہے اگر کتاب کا کلچر ختم ہو چکا ہے تو یہ لوگ ادارے بند کیوں نہیں کر دیتے؟ادیب کتاب بھی اپنی جیب سے چھپوائے‘ فروخت کے لیے مارکیٹنگ بھی خود کرے‘تقاریب بھی خود منعقد کرائے‘”مفت خوروں“ کو کتابیں بھی مفت تقسیم‘کتابوں کی پی ڈی ایف بھی خود بنائے اور پھر خود بے چارہ ”شودر“ بن کر زندگی گزار دے۔سائباں تحریک اور محترم حسین مجروح کا ایک بڑا کارنامہ یہ بھی ہے کہ انھوں نے کتاب جیب سے خرید کر پڑھنے کی تحریک کا آغاز کیا‘انھوں نے ادیبوں کی زندگیوں کو تبدیل کرنے کا سوچا‘برسوں سے بند ادبی جرائد‘جن کے پاس خریدار نہیں تھے‘ان کا از سرِ نو اجرا کیا۔کئی اہم جرائد کو سالانہ خریدار بنا کر دیے‘نئے لکھنے والوں کے لیے تربیتی ورکشاپس کا اہتمام کیا‘ایسے ادیب جن کا اخیر عمر میں کوئی پرسانِ حال نہیں‘ان کی مددکا بیڑا اٹھایا‘ ناشرین سے بات کی کہ ادیبوں کے لکھے پر عیاشی کرنے کے بجائے‘ادیبوں کو رائلٹی دیں۔کتاب کلچر کے فروغ دینے اور مذکورہ مقاصد پر عمل کے لیے سائباں تحریک کا ساتھ دیں‘ایک ماہ کے قلیل عرصے میں اس تحریک میں دو سو کے قریب تخلیق کار شامل ہوئے‘ہم سب کو اس تحریک کا حصہ بننا پڑے گا‘وہ حسین مجروح کے لیے نہیں بلکہ اپنا استحصال روکنے کے لیے۔آج اگر ہم نے ناشرین اور ادبی سرمایہ داروں کا راستہ نہ روکا ’تو وہ وقت بھی آ سکتا ہے جب ناشر‘ امیر سے امیر ترین ہو تاجائے گا اور ادیب بے چارہ دوا کے لئے سرکاری ہسپتالوں کے فرش پر ترپتا تڑپ ٹرپ کر اپنی جان دے دے گا۔سائباں تحریک کی ممبرشپ اور مزید معلومات کے لیے حسین مجروح سے رابطہ کریں۔

تبصرے بند ہیں.