علی امین گنڈاپور کی زبان، دھمکیوں اور بڑھکوں کو عمران خان صاحب اپنے آخری کارڈ کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ علی امین گنڈاپور سے کچھ کام زبانی دھمکیوں کی صورت اور کچھ عملی طور پرکرائے جا رہے ہیں۔ زبانی دھمکیاں تو ہمارے سامنے ہیں کہ انہوں نے اسلام آباد کے جلسے میں جس طرح اسٹیبلشمنٹ پر وار کیے۔ کہا کہ فیض حمید مجرم ہے تو ادارے کا قصور ہے۔ وہ اپنے وزیراعظم کو، جو فیض حمید کا باس تھا۔ جس کے ساتھ مل کر دونوں نے دس سال تک اقتدار میں رہنے اور ملک میں صدارتی آمریت تک قائم کرنے کے منصوبے بنائے تھے، اس وزیراعظم کو صاف بچا گئے اور سارا ملبہ ادارے پر ڈال کر کہہ دیا کہ ’’اپنا ادارہ ٹھیک کرو‘‘ انہوں نے صحافیوں اور خواتین پر بھی وار کیے لیکن میں صحافیوں کے حوالے سے پی ٹی آئی کی باتوں کو اس لیے سنجیدہ نہیں لیتا کہ ان کے نزدیک صحافی صرف وہی ہیں جو پی ٹی آئی کے ساتھ ہیں۔ جو عمران خان صاحب کو ولی ثابت کرنے کے لیے زبان کھولتے ہیں وہی اصل اور ’’کھوئے ملائی‘‘ والے صحافی ہیں۔ جو کوئی ان پر تنقید کرتا ہے وہ صحافی نہیں ’’لفافی‘‘ ہے۔ پی ٹی آئی کا یہ کوئی نیا فیصلہ یا اعلان نہیں ہے اس لیے گنڈاپور صاحب کی تقریر کا یہ حصہ اضافی تھا اصل مقصد فوج پر ’’چرکے‘‘ لگانا ہی تھا جو انہوں نے عمران خان صاحب کی ہدایت پر خوب لگائے۔
اسلام آباد جلسے کے بعد وزیراعلیٰ گنڈاپور نے رات کہاں گزاری، وہاں کیا ہوا، کوئی سرزنش ہوئی یا انہوں نے معافی مانگی یہ سب باتیں غیر متعلقہ ہیں۔ وہ دو دن منظر سے غائب ہوئے اور تیسرے دن بار کونسل کی ایک تقریب میں اپنے کپتان کی ہدایت پر فوج پر دباؤ ڈال کر ’’ڈیل‘‘ حاصل کرنے کے نامکمل ایجنڈے کو آگے بڑھاتے ہوئے خود بطور وزیراعلیٰ افغانستان سے مذاکرات اور کابل وفد بھیجنے کا اعلان کر دیا۔ اپنے اس اعلان کو سنجیدہ محسوس کرانے کے لیے اسی شام پشاور میں افغان قونصل جنرل سے ملاقات بھی کر لی۔ گنڈاپور ہوں یا عمران خان وہ جانتے ہیںکہ کوئی صوبہ یا کوئی وزیراعلیٰ دوسرے ملک سے پالیسی لیول کے مذاکرات کر سکتا ہے اور نہ ہی کوئی ملک کسی صوبے کے ساتھ اس طرح کی انگیج منٹ کرتا ہے لیکن خان صاحب اس ریاست کے کمزور اعضا پر ضربیں لگانے کے مشن پر ہیں کیونکہ ان کے نزدیک ان کی اپنی ذات کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔ وہ اس کے لیے لوگوں کو استعمال کرتے ہیں جب فائدہ ملنا بند ہو جائے تو ان کو ڈس اون کر دیتے ہیں۔ آج کل گنڈاپور کو استعمال کر رہے ہیں۔
علی امین گنڈاپور صاحب باتوں اور بیانات سے آگے نکل کر اب عملی کام بھی شروع کر چکے ہیں۔ وہ اس کام کے لیے اپنے صوبے کی پولیس کو استعمال کر رہے ہیں۔ لکی مروت اور بنوں میں پولیس نے اپنا ٹاسک کامیابی سے مکمل کیا ہے۔ وہ پولیس جس سے پہلے ہی صوبے کا امن و امان نہیں سنبھالا جاتا اس پولیس کو کام چھڑا کر دھرنے پر بٹھا دیا گیا اور الزام فوج پر کہ ان کی مداخلت کی وجہ سے پولیس کام نہیں کر رہی۔ آپ دیکھتے رہئے گا جب تک عمران خان صاحب کو ’’ڈیل‘‘ نہیں ملتی ان کی اور ان کی پارٹی کی طرف سے اٹھائے جانے والے ہر قدم کا ٹارگٹ پاک فوج ہی ہو گی۔
فوج کو ٹارگٹ کرنے کا آغاز انہوں نے اپنے خلاف آنے والی عدم اعتماد کے موقع پر کیا۔ اگر خان صاحب کو کسی بھی غیر آئینی طریقے سے، عدلیہ کے ذریعے یا فوج کی طرف سے کوئی دباؤ ڈال کر نکالا گیا ہوتا تو میں خان صاحب کے ساتھ ہوتا۔ لیکن خان صاحب کو آئینی اقدام کے ذریعے پارلیمنٹ کے اندر شکست دی گئی۔ پیچھے وجہ جو بھی ہو لیکن ان کے اتحادیوں نے سامنے سے ان کا ساتھ چھوڑا۔ اگر بقول خان صاحب باجوہ صاحب نے سب کرایا ہے اس لیے ان کو فوج پر غصہ ہے تو ان کو یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ ان کو لانے والے بھی تو باجوہ صاحب ہی تھے۔ اگر خان صاحب اتنے ہی اصول پرست اور سویلین بالادستی کے قائل تھے تو پھر اپنی طرف لایا گیا اقتدار قبول نہ کرتے۔ اس وقت کیا اتحادی خان صاحب کی محبت میں ان کے ساتھ آ گئے تھے؟ نہیں جو ان کو خان صاحب کے قریب لائے تھے وہی دور لے گئے تو پھر جھگڑا کس بات کا؟
خان صاحب کی فوج مخالف مہم نیوٹرل اور جانور سے شروع ہوئی۔ میر جعفر اور میر صادق سے ہوتی ہوئی اب اپنا ادارہ ٹھیک کرو اور خود افغانستان سے مذاکرات تک آ گئی ہے۔ خان صاحب دو سال سے فوج کے خلاف مہم چلاتے ہوئے اپنا سارا اسلحہ بارود ختم کر چکے ہیں۔ اپنے تمام کارڈ اور چالیں چل چکے ہیں تو سوال اہم ہو جاتا ہے کہ پھر ان کے یہ تیر اور تلواریں کام کیوں نہیں کر رہی ہیں۔ خان صاحب کا ہر بھرم ٹوٹ گیا ہے۔ ان کو زعم تھا کہ میں اپنے کارکنوں کی ریڈ لائن ہوں وہ مجھے کبھی گرفتار نہیں ہونے دیں گے ان کا یہ بھرم بھی ٹوٹ گیا اور وہ گرفتارکر لیے گئے۔ ان کو زعم تھا کہ اس سسٹم میں اتنی سکت نہیں کہ وہ ان کو سزا دلا سکے کیونکہ وہ بہت مقبول ہیں اور کارکن سسٹم کو ایسا کرنے نہیں دیں گے لیکن ان کا یہ بھرم بھی ٹوٹ گیا جب ان کو یکے بعد دیگرے تین مقدمات میں کئی سال قید کی سزا سنا دی گئی۔ ان کو زعم تھا کہ ان کو عدلیہ بچا لے گی کیونکہ ان کی مقبولیت سے عدلیہ میں موجود ججز بھی بہت بتاثر ہیں اس لیے عدلیہ ان کو سزا کے باوجود بہت جلد جیل سے رہائی دلا دے گی۔ عدلیہ نے کوشش کی کچھ اہم ترین مقدمات میں ہونے والی سزائیں بھی کالعدم کر دیں کچھ معطل کر دیں لیکن عمران خان صاحب جیل سے باہر نہ آ سکے۔ عمران خان کو زعم تھا کہ ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو کوئی ہاتھ نہیں لگا سکے گا لیکن ان کا یہ بھرم بھی ٹوٹ گیا ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو نہ صرف گرفتار کیا گیا بلکہ سزا بھی دی گئی اور آج کل دونوں القادر ٹرسٹ کرپشن کیس بھگت رہے ہیں۔
جب خان صاحب کے سارے بھرم ٹوٹ چکے ہیں تو پھر بچنے یا ڈیل کرنے کی ان کی اپنی امیدیں بھی ٹوٹ رہی ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ خان صاحب کے لیے کوئی ڈیل موجود نہیں ہے۔ موجود ہے اور ڈی جی آئی ایس پی آر آن ریکارڈ پیشکش کر چکے ہیں کہ نو مئی پر صدق دل سے معافی مانگ لیں تو آگے بڑھا جا سکتا ہے۔ خان صاحب اپنی سیاست بچانے کے چکر میں اس طرح کی اوپن ڈیل سے گھبرا رہے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ڈیل ٹیبل کے نیچے سے ہو۔ ان کا سیاسی بھرم قائم رکھا جائے۔ ان کو باعزت رہا کیا جائے۔ نو مئی کو فالس فلیگ آپریشن بنا دیا جائے۔ لیکن ان کو اس طرح کی ڈیل آفر نہیں کی جا رہی اور نہ کی جائے گی کیونکہ نو مئی فوج کے اندر بغاوت کی کوشش تھی اور فوج بغاوت کی کوشش کرنے والوں کے گلے میں ہار نہیں ڈالا کرتی۔ علی امین گنڈاپور کے ذریعے فوج پر حملے خان صاحب کی ریلیف حاصل کرنے میں مایوسی کے عکاس ہیں۔ انہوں نے جو مذاکرات کا دروازہ مکمل بند کرنے کی بات کی ہے وہ بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ لیکن خان صاحب کو بار بار یہ باور کرایا جائے گا کہ ان کے لیے ریلیف اور ڈیل نومئی کی معافی کے بعد شروع ہو گی۔
Next Post
تبصرے بند ہیں.