موجودہ سیاست کی سمجھ نہیں آ رہی کہ وہ گرگٹ کی طرح رنگ بدل رہی ہے لہٰذا کچھ بھی مستحکم نہیں کچھ بھی واضح نہیں۔ آر یا پار والی صورت حال نظر نہیں آ رہی؟
ہمارے سیاستدانوں کو نجانے کیا ہو گیا ہے کہ آپس میں ایک جگہ بیٹھنے کو تیار ہی نہیں وہ اب تک حکمرانی تو کرتے آئے ہیں اقتدار کے کھیل میں دلچسپی تو لیتے چلے آئے ہیں مگر انہوں نے کبھی یہ نہیں سوچا کبھی نہیں غور کیا کہ ان کے ہم وطن جن کے لیے وہ اقتدار میں آتے ہیں ان کی زندگیوں کو خوشگوار و خوشحال بھی بنانا ہے۔ وہ اس فرض سے ہمیشہ نا آشنا رہے ہیں بس انہوں نے اتنا ہی کیا جس سے معاملات کی گاڑی دھیرے دھیرے چلتی رہے اسے سبک خرام بنانے کی کوشش کبھی نہیں کی گئی۔ آج ہم ایک ایک ایک پیسے کو ترس گئے ہیں۔ ترقی کا خواب چکنا چور ہو گیا ہے۔ غریبوں کا آگے بڑھنا مشکل تر ہو چکا ہے، سرمایے کی سیاست نے انہیں قرضوں کی دلدل میں دھنسا دیا ہے۔ ان کی کوئی حیثیت نہیں۔ تمام سیاسی جماعتیں صرف اپنا اپنا الو سیدھا کر رہی ہیں ان کا خوش کن وعدوں سے دل بہلا رہی ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ان کا دامن خالی ہے اس میں سو چھید ہو چکے ہیں، ان کے دل میں محبت اور خلوص سرے سے موجود نہیں۔ ان کے باہمی الجھاؤ نے پورے ملک کو مضطرب کر دیا ہے۔ نظام حیات بُری طرح سے متاثر ہے۔ لوازمات زندگی کی کمی تو نہیں مگر ان کا حصول درمیانے اور نچلے طبقے کے لیے دشوار ہو چکا ہے وہ دو وقت اپنا پیٹ بھرنے سے قاصر دکھائی دیتے ہیں۔ اس پر جب وہ صدائے احتجاج بلند کرتے ہیں تو ہمارے قانون پر عمل درآمد کرانے والے محکمے ان پر ایسے جھپٹتے ہیں جیسے عقاب اپنے شکار پر جھپٹتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ ان کی فریادوں کو سنا جائے ان پر ہمدردانہ غور کیا جائے مگر الٹا انہیں چپ کرایا جاتا ہے۔ ایسا اس لیے ہوا ہے کہ ہمارے سیاستدانوں نے کبھی کسی تربیت گاہ کا رخ نہیں کیا، باقاعدہ سیکھنے کے عمل میں حصہ نہیں لیا، جن کے پاس دولت کی فراوانی ہوتی ہے وہ سیاست کے میدان میں آ دھمکتے ہیں۔ یہاں ہم ان سے متعلق وِل ڈیورانٹ کے خیالات پیش کرتے ہیں!
’’ابتدا میں ہر شخص اپنا طبیب خود تھا اور ہر گھر میں اپنی ضرورت کی دوائیں موجود ہوتی تھیں لیکن جوں جوں طبی معلومات میں اضافہ ہوتا گیا ایک عام انسان کے لیے یہ ناممکن ہو گیا کہ وہ تمام فہرست ادویہ کو ذہن نشیں کر لے۔ لوگوں کا ایک خاص گروہ اٹھا اور انہوں نے اپنا وقت طب کے مطالعہ پر صرف کیا اور ماہر طبیب وجود میں آئے۔ لوگوں کو اتائیوں سے محفوظ کرنے کے لیے طب کے ماہرین کو اعلیٰ خطاب اور سندیں دی گئیں۔ اب حالات یہ ہیں کہ جب تک کسی نے یہ سند حاصل نہ کی ہو قانون اسے طبابت کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ ہم اب اتائیوں کو یہ اجازت نہیں دیتے کہ وہ امراض کا کھوج لگائیں یا ہماری زندگی کو خطرہ میں ڈالیں۔ ہم معالج سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ اپنی زندگی کا قیمتی حصہ طب کے مطالعہ پر قربان کر چکا ہو گا لیکن جو لوگ ہمارے اجتماعی امراض کا علاج کرتے ہیں اور کروڑوں جانوں کو جنگ اور امن میں خطرہ میں ڈالتے ہیں اور جن کے اختیار میں ہماری آزادی ہماری جائیداد ہے، انہیں کسی مہارت یا کسی مطالعہ کی ضرورت نہیں۔ یہ کافی ہے کہ وہ صدر کے دوست ہوں جماعت کے وفادار ہوں با اخلاق ہوں۔
یہی وجہ ہے کہ وہ امور مملکت میں وہ کردار ادا نہیں کرتے جو اس کا تقاضا ہوتا ہے ان کی کم فہمی و کم علمی منتظمین و ماہرین کی مرہون ہوتی ہے لہٰذا جوں جوں حکومت پیچیدہ ہوتی جاتی ہے، منتخب نمائندے کم سے کم اور ماہرین زیادہ اہم ہوتے جاتے ہیں۔ منتظمین آئین سازوں کے معاملات میں دخل اندازی کرتے ہیں کیونکہ منتظمین ماہرین کی مجالس سے امداد حاصل کرتے ہیں۔ پریزیڈنٹ ہارڈنگ کے عہد حکومت میں کانگریس کے اراکین کو یہ دیکھ کر سخت صدمہ پہنچا کہ ایک پریڈ میں انہیں ماہرین کے پیچھے بیٹھنے کی جگہ ملی۔ سینیٹ نے اس معاملہ پر باقاعدہ احتجاج کیا اور مسٹر ہارڈنگ نے اپنے مخصوص انداز میں اس کا جواب دیا لیکن اس واقعہ نے یہ ظاہر کر دیا کہ حالات کا رخ بدل رہا ہے نمائندہ حکومت ختم ہو چکی تھی، جمہوریت نے اپنے عہدوں پر ذہین آدمیوں کو متعین کرنے کی کوئی راہ نہیں پائی تھی اور جب جمہوریت اخبار پڑھ رہی تھی یا تقریریں کر رہی تھی ذہین لوگ طاقت حاصل کر رہے تھے۔‘‘
بہر حال اگر واقعتاً ہمارے سیاستدان ملک کی خدمت کرنا اور جمہوریت کے پودے کو پروان چڑھانا چاہتے ہیں تو تمام سیاستدانوں کو ایک پلیٹ فارم پر کھڑا ہونا ہو گا اور اگر ان میں سے کچھ موقع پرستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے حکمرانی کی نیا پر بیٹھ کر مزے لوٹنا چاہتے ہیں تو پھر عوام کو خود آگے آنا ہو گا یعنی انہیں اختیارات تک رسائی حاصل کر کے اپنی دھرتی جو بانجھ ہو رہی ہے کو گل و گلزار بنانا ہو گا کیونکہ ستتر برس تک جن کرتا دھرتاؤں سے انہیں امید تھی انہوں نے مایوس کیا، اپنے آپ کو ہر اعتبار سے مضبوط بنایا ملک کے سرمایے پر خوب ہاتھ صاف کیے۔ انہیں تو چاہیے تھا کہ وہ جدید صنعتوں کا قیام عمل میں لاتے۔ انصاف سستا فراہم کرنے کا انتظام کرتے تعلیم صحت کی سہولتیں مفت دیتے۔ آپ کسی بھی ترقی یافتہ یا ترقی پذیر ملک کو دیکھ لیں وہ اپنے شہریوں سے ان تمام سہولتوں کے عوض کچھ نہیں لیتا اور اگر لیتا بھی ہے تو انتہائی معمولی مگر یہاں تو جینا ہی مشکل بنایا جا رہا ہے۔ حالات اپنے بدلتے ہی نہیں لکھنے والوں کے الفاظ و انداز بھی نہیں بدلتے اور ہمارے احباب کہتے ہیں کہ یکسانیت نظر آتی ہے۔ وہ ٹھیک کہتے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ حکومتیں کرنے والے چہرے بھی تو چکر کاٹ کر ہمارے سامنے آتے جاتے ہیں جنہیں دیکھ کر بیان و طرز تحریر کیسے بدلے۔ حالات کا ایک تسلسل ہے جو ختم ہونے میں ہی نہیں آ رہا اس کے رنگ ڈھنگ اور انگ تبدیل نہیں ہو رہے جبکہ شعور لہروں کی مانند ابھر ابھر کر نگاہوں کے آگے آ رہا ہے اور چاہ رہا ہے کہ اسے نئے دور کے مطابق جینے دیا جائے۔ اسے معلوم ہو گیا ہے کہ یہ تفریق کیوں ہے طبقاتی نظام کیوں ہے؟ وہ مطالبہ کر رہا ہے اپنے اختیار والوں سے کہ اسے آسانیاں دو، انصاف دو اور مساوات پر مبنی نظام دو۔ یہ جو طرز عمل ہے اسے ترک کرو کیونکہ جب ذہن جاگتے ہیں تو جسموں کو توانائی کی اشد ضرورت ہوتی ہے لہٰذا روایتی حکمرانی اور روایتی سیاسی آنکھیں اب نہیں مگر دولت میں کھیلنے والوں کی کوشش اور خواہش ہے کہ یہ چمن یونہی رہے یہ کھیت کھلیان جدید ٹیکنالوجی سے محروم رہیں مگر یہ ہو گا نہیں کیونکہ روشنی جب پھیلتی ہے تو اندھیرا باقی نہیں رہتا لہٰذا سیاستدانوں کو تربیت گاہوں میں جانا ہو گا تا کہ وہ وہاں سے کچھ سیکھ کر مایوس لوگوں کو طلوع صبح کا منظر دکھا سکیں۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.