ربیع الاول طلوع ہوا۔بہار (ربیع) جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ مبارکہ سے جسم و جان، روح و ایمان کے لیے تا قیامت ہمہ گیر تازگی، عطر بیز فضائوں کا سامان بن کر آئی۔ خزاں رسیدہ، پست کرداری کی دنیا میں اللہ نے سیرت و کردار کا سراجِ منیر ظلمتیں دور کرنے کو عطا فرمایا۔ یخرجھم من الظلمات الی النور۔ گھپ اندھیروں (کی گھٹن) سے نکال کر روشنیوں میں لے آیا۔ یہ ہماری خوش نصیبی کی انتہا ہے کہ ہمیں امتی ہونے کی سعادت ملی۔ اسی نسبت سے ہماری ذمہ داری بھی دوچند تھی۔ مگر آج! دنیا ہمہ ویرانہ ز چنگیزیٔ افرنگ۔۔۔
اسرائیل اور امریکہ و مغرب کی متحدہ چنگیزی نے دنیا کے وسط میں خوفناک ویرانہ بنا ڈالا۔ خوبصورت چہچہاتے بچوں کی ہڈیاں بوٹیاں بکھیر کر اور جیتی جاگتی فلسطینی آبادی کو قبرستانوں میں بدل کر! مغرب کی دلکشی اور تہذیبی غلغلے کا فریب غزہ نے کھول کر رکھ دیا۔
اقبال ایسے میں ہمیں ہمارا فرض یاد دلاتے ہیں۔ معمارِ حرم باز بہ تعمیر جہاں خیز … اے مسلمان اٹھ اور دنیا کی تعمیرِ نو کا کام کر۔ تخریب کاری کی آخری انتہا اسرائیل یعنی نیتن یاہو اور اس کے سرپرست امریکہ یورپ نے کر ڈالی۔ تعمیرِنو کا مہیب کام درپیش ہے۔ اردگان نے کہا کہ واحد چیز جو اسرائیلی تکبر، اس کی دہشت گردی اور بدمعاشی کو لگام دے سکتی ہے وہ مسلم ممالک کا اتحاد ہے! نیتن یاہو پر تو اب اسرائیلی قوم، سابق اسرائیلی جرنیل سبھی چلا اٹھے ہیں۔ ’یہ موت کا ہرکارہ ہے‘۔ یرغمالیوں کا خون اس کے ہاتھ پر ہے۔ اپنی سیاسی بقا کے لیے یرغمالیوں کو قید میں قتل کروانے پر رضامند ہے۔ یہ خود اسرائیلیوں کا واویلا ہے۔ غزہ والوں نے تو پوری پوری آبادیاں قبرستان بنتے دیکھیں اور ان کا تاریخی صبر و ثبات دنیا نے دیکھا۔ مگر7 اسرائیلی یرغمالیوں کی لاشوں پر اسرائیل میں چیخ و پکار آسمان سے باتیں کر رہی ہے۔ ایسے میں صرف مسلمان اگر بیدار ہو جائیں۔ غزہ میں جنگ بندی پر کمربستہ ہوں تو عنداللہ اس فرضِ عین کی ادائی سے ہر مسلمان تلافی ٔ مافات کر سکتا ہے۔
بحمدللہ ربیع الاول میں مینارِ پاکستان پر عظیم الشان ختم نبوت کانفرنس کا انعقاد روشنی کی ایک کرن ہے۔ تحفظِ ختم نبوت پر پوری قوم نے اپنے جذبات کی سچائی اور پختگی پر جس طرح مہر ثبت کی وہ خوش آئند ہے۔ یومِ ختمِ نبوت 50 سال مکمل ہونے پر بلا تفریق ہم زبان ہو کر تمام جماعتوں نے بہار کا منظر دکھایا تو ہے۔ مگر عین یہی یک جہتی قدس کے تحفظ، اقصیٰ، غزہ کے لیے پوری حساسیت کے ساتھ اٹھ کھڑے ہونے کی متقاضی ہے۔مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ کے مطابق: ’تاریخِ اسلام کا سب سے بڑا المیہ نفسانیت کا کھیل ہے۔ ہم نے اپنے دشمنوں سے شکست نہیں کھائی ہے، ہم نے اپنے اندرونی اختلافات کے باعث شکست کھائی ہے ۔ … بعض اوقات اسلام پورے پورے ملکوں سے (نفسانیت کی بدولت) خارج کر دیا گیا ہے۔‘ ہمیں اپنا احتساب کرنا ہے قبل اس کے کہ اللہ کے حضور بغرضِ احتساب و حساب کھڑے کر دیے جائیں!
اس وقت کو غنیمت جان کر مسلم ممالک آواز اٹھا سکتے ہیں امریکہ کی محبت؍ خوف؍ اپنی معاشی ضروریات پس پشت ڈال کر۔ اسرائیل میں عوام کا پیمانۂ صبر لبریز ہو چکا ہے۔ بظاہر سی آئی اے کے چیف اور برطانوی M-16غزہ میں جنگ بندی کے لیے مشترکہ کوششیں کر رہے ہیں۔ سابق اسرائیلی جرنیل نیزیاک برک نے غزہ جنگ میں اسرائیل کی تباہی اور شکست ہونے کا اعتراف کیا ہے۔ ’حماس کے ہاتھوں اسرائیل کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے۔ فوج کمزور ہو رہی ہے۔ اسرائیل صفحۂ ہستی سے مٹ رہا ہے۔ ہم حماس کو نہیں خود کو تباہ برباد کر رہے ہیں‘۔ (اسرائیلی معیشت کا کھوکھلا ہو جانا اور بڑے پیمانے پر اسرائیلیوں کا ملک چھوڑ کر دائماً چلے جانا بھی ریکارڈ پر ہے!) اب بھی ہم میں کھڑے ہونے کی سکت نہ ہو؟ حیف صد حیف!
ادھر ٹائمز آف اسرائیل نے دعویٰ کیا ہے کہ بانی پی ٹی آئی ، اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے کے لیے موزوں ترین شخصیت ہیں! ثبوت کے طور پر میئر لند ن انتخاب میں جمائما کے بھائی زیک گولڈ سمتھ بمقابلہ پاکستانی صادق خان میں زیک کے حق میں چلائی مہم کا حوالہ بطور وفاداری موجود ہے! ٹائمز آف اسرائیل کے بلاگ پرآینور بشیروواکی تفصیلی رپورٹ، ’پاکستان اسرائیل تعلقات اور عمران خان ‘ بارے 4 ستمبر 2024ء کو شائع ہو ئی ہے۔اس میں اسرائیل پر عمران خان کی پبلک پوزیشن اور پسِ پردہ سفارتکاری مابین تضاد کا ذکر ہے۔
دوسری طرف برطانیہ میں تاریخ کا سب سے بڑا مظاہرہ اسرائیل کے خلاف، فلسطین میں جنگ بندی، آزادی کے لیے 10لاکھ کی تعداد میں دیدنی ہے! تمام مغربی، امریکی یونیورسٹیوں میں نئے سیشن کے آغاز کے ساتھ طلباء فلسطین کے ساتھ یک جہتی کی دیوٹی پر حاضر ہیں! وہ اپنا فرض جان کر پھر کمر بستہ ہیں۔ سبحان اللہ!
ہمارے ہاں ہر کمزوری کی جڑ بنیاد کرپشن اور حکومتی وسائل کو شیرِ مادر جان کر استعمال کرنا ہے۔ حکومتِ سندھ 138ڈبل کیبن گاڑیاں اسسٹنٹ کمشنروں کے لیے خریدنے چلی تھی کہ عدالت نے روک دیا۔ 2ارب بچا لیے ! یہ سول سرونٹ کہلاتے ہیں! یعنی قوم کے خادم! خادم کے پاس تو ڈبل کیبن کی عیاشی ہو،ہمارے کھاتے
سے پٹرول سے بھری اور مالکان؟ یعنی عوام! ایک موٹر سائیکل پر بیوی، تین چار بچے، دو بیگ لے کر (موت کے کنویں کی طرح) سڑک پر جانے کا خطرہ مول لیتا ہے۔ دوسری اصطلاح میں اُنھیں ’اشرافیہ‘ (یا بدمعاشیہ) کہا جاتا ہے۔ اور عوام کالانعام (بھیڑ بکریاں ہی رہے!)
بنگلہ دیش کے حالات پر متوجہ رہنا اہم ہے۔ انقلاب کا یہ انوکھا ماڈل! غزہ چپے چپے کے تحفظ کے لیے استقامت سے جانیں دینے کی مثال ہے ہولناک جنگ میں۔ بنگلہ دیش جابر و قاہر حکومت کی قوت کے آگے نوجوانوں، طلباء کے عزم و ہمت کا عجب نمونہ ہے۔ سب ڈھل کر بے مثل جذبے کے ساتھ ایک قوم بن گئے۔ یک زبانی ، اتحاد و اتفاق ، فکری ہم آہنگی اور یکسوئی دیدنی ہے۔ تفرقہ اندر سے کھوکھلا کر دیتا ہے ۔ ہمارے ہاں انتشارِ فکر، نسلی، لسانی، جماعتی، مذہبی تفرقات نے جسدِ قومی، ملی کو روگ لگا دیے۔ ایٹمی قوت بھی ہمیں قوی نہ رکھ سکی۔ نہتے فلسطینی، افغان اور بنگلہ دیشی طلباء سرخرو ہو گئے۔ صرف اخوت، محبت اور یک جہتی کے قوی جذبوں سے۔ڈاکٹر یونس محبت اور احترام کے ساتھ طلباء تحریک کی بے مثل قربانیوں کو سراہتے ہوئے پوری یک جہتی کے ساتھ بلا اختلاف، بلا نفسانیت عبوری حکومت مل جل کر حکمت و دانائی سے چلا رہے ہیں۔ بے شمار چیلنج درپیش ہیں مگر بہترین طریقے سے عہدہ برا ٔ ہو رہے ہیں اندرونی و بیرونی ہر محاذ پر۔ یو این جنرل اسمبلی کے سیشن کے لیے ڈاکٹر یونس 7افراد کا وفد لے کر جا رہے ہیں نیویارک (ہمارے ہاں ایسے مواقع پر بارات جایا کرتی ہے قومی وسائل کے سر پر!) وہاں ڈاکٹر یونس بھولے بسرے ’سارک‘ ممالک کو یک جا کرنے اور ازسرِ نو استوار کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔ یہ بھارت کے لیے ناگوار ہو گا۔ مگر خطے کے حق میں یہ اقدام نہایت برمحل اور خوش آئند ہے۔ بنگلہ دیش کے اعتماد کا مظہر ہے۔ ہمیں آگے بڑھ کر ایسے اقدامات میں ہمنوائی اور یک جہتی سے خلیج پاٹنی ہے۔ محبت و یک جہتی سے مسلم برادر ملک سے تعلقات میں گرم جوشی ہمارے مفاد میں ہے، بھارت جیسے دشمن کے مقابل۔ مت بھولیے کہ بلوچستان کے حالات کے بگاڑ میں بھارتی ’’را‘‘ کارفرما ہے۔ پچھلے تجربے کی روشنی میں (1971ئ) ہمیں اپنا گھر بچانے کو اپنے ہم وطن بگڑے ، ناراض عناصر کے ساتھ مضبوطی مگر نرمی ، محبت اور بڑائی کا ثبوت دیتے ہوئے مثبت مذاکرات سے مسائل حل کرنے ہیں۔ اگر امریکہ افغانستان کے ساتھ مذاکرات کی میز پر اپنا سارا تکبر اور اکڑفوں بھلا کر حقائق کو تسلیم کر سکتا ہے۔ بیس سال جن کے ساتھ برسرِ پیکار رہنے کے باوجود شکست خوردہ ہو کر گھٹنے ٹیکے اور اس مخمصے میں سے نکلا۔ جنھیں بدترین دشمن بنا رکھا تھا ان کے ساتھ معاملات طے کر لیے تو ہم اپنے ہی شہریوں کے ساتھ صدق و صفا اور بڑے پن کا ثبوت دے کر حالات کیوں نہیں سنوار سکتے؟ بلوچستان میں حالیہ حملے لمحۂ فکریہ ہیں۔ ہم ایک اور غلطی کے متحمل نہیں ہو سکتے۔
یہ رات بجھا جائے نہ قندیلِ نظر تک
اے تیرہ شبو جاگتے رہنا ہے سحر تک
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.