جب تک انسان اپنے وجود کے جمود میں گرفتار ہے، گرفتارِ بلا ہے۔ انسان بہت کچھ کرنا چاہتا ہے، بہت کچھ بننا چاہتا ہے لیکن وہ اپنے وجود کے حصار میں قید ہے … وہ اپنے مزاج، اپنی طبیعت اور اپنی پسند نا پسند کے بندی خانے کا اَسیر ہے۔
کیا انسان اپنی تشکیلِ وجود کے علاوہ کچھ نہیں بن سکتا؟ … کچھ نہیں کر سکتا؟ کیا پیدا ہوتے ہیں یہ تشکیلی سانچہ اس کے لیے مقدر کر دیا جاتا ہے؟ کیا انسان اپنی طبعی افتادِ طبع کے مطابق کام کرنے پر مجبور ہے؟ کیا انسان اپنی تمنا اور حاصل کے درمیان معلق ہی رہے گا؟ اگر وہ اپنے وجود کے جمود میںقید رہنے پر مجبور ہے تو اُس کے دل میں اِس سے آزادی کی تمنا کیوں پیدا ہوتی ہے؟ کیوںپلتی رہتی ہے۔ کیا انسان وہ کچھ ہے جو وہ نہیں ہے؟ کیا اس کے خیال اور اس کے وجود کے درمیان ایک ایسا بُعد المشرقین ہے جو ناقابلِ عبور ہے … ناقابل ِ تصفیہ ہے؟
عجب بات ہے، انسان رہتا فنا کے دیس میں ہے اور اس کے دل میں تمنا ملکِ بقا کی طرف ہجرت کرنے کی پلتی رہتی ہے۔ انسان ایک عجب تضاد کا شکار ہے۔ اِس کے وجودی تقاضے کچھ اور ہیں اور روحانی تقاضے کچھ اور! یہ اپنے وجود کے تقاضوں اور روح کے تقاضوں کے درمیان ایک پینڈولم کی طرح جھولتا رہتا ہے … اور یوں صبح سے شام ہوتی ہے اور اس کی زندگی تمام ہوتی ہے۔
جس انسان کے اندر کسی روحانی خیال کی شمع خواہ مدھم ہی کیوں نہ ہو، اپنے ہونے کا احساس دلانے کے لیے فقط ٹمٹا رہی ہو … وہ اس کرب کا شکار ہوئے بغیر نہیں رہتا۔ سکون میں بس وہ جس نے خیال اور وجود دونوں میں سے کسی ایک شعبے سے استعفیٰ دے دیا ہو۔ اپنی روح سے یکسر غافل، اپنے وجود کی طرف ہمہ تن متوجہ، اپنے وجود ہی کو حتمی حقیقت جاننے والا انسان بھی اک گونہ عیش میں ہوتا ہے، اگرچہ یہ عیش عارضی ہی کیوں نہ ہو۔ دوسری طرف اپنی روح کی طرف ہمہ حال متوجہ … ضمیر کی آواز سننے میں ہمہ تن گوش، اور اس آواز کے زیر و بم سے اپنے وجودی تقاضوں کو ریزہ ریزہ کر دینے والا
خوش نصیب بھی ہمیشہ کی راحت میں ہے … اگرچہ اس کے وجود کا پیرہن تار تار ہی کیوں نہ ہو چکا ہو۔
انسان کا جسم اور جائے جسم فنا ہے … اور اس کی روح فنا کے دیس میں بقا کی سفیر ہے۔ جسے روحانیت کی جرس کبھی سنائی دی ہو، جسے اُس جہان کی سفارت اور سندیسہ کبھی موصول ہوا ہو، اُس کے لیے فنا کے دیس میں قیام کرنا محال ہے۔ وہ اپنے وجود کی دنیا سے ہجرت کرنے کی تدبیر کرے گا … اور ہر صورت اُس کی کوئی بھی قیمت ادا کرنے کو تیار ہو گا۔ جس کے محبوب کا ٹھکانہ ندی کے اُس پار ہو، وہ اِس پار رہنے کے لیے کبھی تیار نہیں ہو گا، خواہ اس کے لیے عیش و آرام کے لاکھ محل تیار کھڑے ہوں … وہ ندی کنارے جائے گا، بار بار ملاح کی منت کرے گا۔ وہ کمزور ترین بیڑی اور نحیف تر ملاح کا دامن پکڑنے کے لیے بھی تیار ہو گا … وہ دریائے امکانات میں کود جانے کے لیے کچے گھڑے پر بھی سوار ہونے کو تیار ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ سالک، کیسا ہی کیوں نہ … نا کس ہو یا ناقص … اس کائناتی نظام میں بھرپور توجہ کا مستحق ہوتا ہے۔ سالک کی قیمت اس کی طلب اور تڑپ ہے۔ اس میں کسی صلاحیت کا کوئی دخل نہیں۔ صلاحیت دینے والے کے سامنے صلاحیت کا اظہار … چہ معنی دارد؟
روا ہے کہ سالکِ حقیقت اِس اَمر پر حیران ہو کہ اُس کے دل میں تمنا لامحدود کی ہے، جبکہ اس کا وجودِ زیست محدود ہے۔ اس کا زادِ راہ مختصر ہے، راہ طویل ہے۔ ایامِ سفر گنتی کے ہیں اور مسافتیں اَن گنت ہیں۔ بکنار سے ہمکنار ہونے کی تمنا اسے کسی پل چین نہیں لینے دیتی۔ وہ ہمکنار ہوتا ہے، نہ بے کنار … ایسے میں وہ اپنے محبوب قلزم سے فریاد کرتا ہے:
تُو ہے محیط بیکراں، میں ہوں ذرا سی آبجو
یا مجھے ہم کنار کر، یا مجھے بے کنار کر
اگر انسان اپنی منزل سے ہمکنار نہیں ہو سکتا تو اُس کے دل میں منزل کی تمنا ہی کیوں ڈالی جاتی ہے؟ اسے ایک کربِ مسلسل میں مبتلا ہی کیوں کیا جاتا ہے؟ آخر اُسے من و تو کی دوئی میں ملوث ہی کیوں کیا جاتا ہے؟ یکتائی کے مسافر کو یکجائی سے دور کیوں رکھا جاتا ہے؟ مجبور کو مہجور کیوں رکھا جاتا ہے؟ دل اور دلبر آخر ایک مقام پر اکٹھے کیوں نہیں ہو سکتے؟ اس کے خیال اور وجود میں تفریق کیوں رکھ دی جاتی ہے؟ وہ جمع اور جمع الجمع سے دور کیوں ہے؟ کیا اس کا وجود کبھی تحلیل ہو کر خیال کی صورت بن سکتا ہے؟ اور کیا خیال مجسم صورت میں اس کے وجود کی شکل اختیار کر سکتا ہے؟
کوئی نالہِ رسا انسان کی نارسائی کو دور نہیں کر سکا۔ ہر دور میں ہر مسافر اپنی نارسائی کا اعلان کر کے گیا ہے۔ یہاں ہر طالب کسی اور طالب ہی کے حضور حاضر پایا گیا۔ ہر طالب نے اپنے علاوہ ہر طالب کو مطلوب کے قریب تصور کیا۔ جاناں اور تصورِ جاناں میں فرق ملحوظ رہا۔ ہر سفر نامکمل رہا … لیکن مسافروں کا سفر جاری رہا۔ مسافر مکمل ہوتے رہے۔ شاذ شاذ کہیں سے آواز آئی:
گھڑیالی دیوں نکال نی! میرا پیا گھر آیاشاید مکمل ہونے والے جذب میں پہنچ کر مکمل ہوئے … لیکن جب وہ جذب میں پہنچے تو قابلِ تنقید ہو گئے … قابلِ احترام تو رہے، قابلِ تقلید نہ رہے۔ وہ ملامت کی کالی چادر سر پر ڈال کر تعلیم اور تعلم کی دنیا سے نکل گئے۔
مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ فرمایا کرتے کہ معراج کے سفر کے علاوہ باقی سب کچھ ابھی راستے میں ہے۔ بس! فقط ایک انسانِ کاملؐ ہی مکمل و اکمل ہے … جس کے ظاہر و باطن کے سب نقوشِ قدم لائقِ تقلید … بلکہ بہترین اُسوہ … سب انسانوں کے لیے … سب زمانوں کے لیے …!
شریعتِ محمدیؐ ہی راستہ ہے … ان مسافروں کے لیے محفوظ ترین راستہ جو فنا سے نکل بقا کے دیس میں مقیم ہونا چاہتے ہیں … جن کے دل میں اپنے کُل سے واصل ہونے کی تمنا ہے … جو اپنے وجود کے جمود سے نکلنا چاہتے ہیں۔ اخلاقِ محمدیؐ ہی وہ طریق ہے جس پر چلتے ہوئے انسان اپنے مزاج کے سانچے سے باہر نکل سکتا ہے۔ ذاتِ محمدیؐ ہی وہ سلطان ہے جو زمین و آسمان کے اَقطار و حصار سے باہر نکال سکتی ہے۔ اگر کسی طالب کے دل میں حُبِّ الٰہی کا ایک ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر بھی ہو تو بھی اُس کیلئے اَز روئے قرآن واحد راستہ اتباعِ کردارِ محمدیؐ ہے … اخلاقِ محمدیؐ ہے۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.