اقتدار کے ایوانوں سے گاہے گاہے اس بات کی تکرار اور بازگشت سنائی دیتی رہتی ہے کہ ہم یہ کام ’’مفاد عامہ ‘‘ کے تحت شروع کر رہے ہیں اور یہ کام’’ مفاد عامہ ‘‘کے تحت بند کررہے ہیں ۔ ’’ مفاد عامہ ‘‘ کے اس اظہار و بیان کے معانی ایسے ’’ بیان داغنے‘‘ والوں کی ضرورت و خواہش کے سوا کچھ اور نہیں ہوتے ۔ قیام پاکستان سے لیکر آج تک ، مفاد عامہ کے نام پر جھوٹ ، مکر ، فریب،کرپشن ، لوٹ مار اور دھوکہ دہی کا بازار گرم ہے ۔ مفاد پرست لوگ ایک تسلسل سے ،کہیں مفاد عامہ ، انسانی بنیادی حقوق، ملکی مفاد اور عوامی فلاح و بہبودکے نام پر تو کہیں ریاست کے نام پر اپنے مذموم ایجنڈے کی تکمیل میں مصروف عمل ہیں۔ بڑے بڑے عہدوں پر فائز لوگوں کی اخلاقیات کے معیار بہت پست ہو گئے ہیں۔ان لوگوں نے اختیار و اقتدار کو عوامی خدمت اور قومی ذمہ داری کی بجائے ذاتی منفعت کا ذریعہ سمجھ لیا ہے ۔’’عوام کے نام پر عوام کے لیے قائم حکومت‘‘ اور اداروں میں عوام رسوا ہو رہے ہیںجبکہ عوامی فلاح بہبود کے نام پر اشرافیہ کے تکبر ، غرور، انا، بڑائی ، مفاد پرستی ، ابن الوقتی، بے اصولی، بے انصافی، خود غرضی اور مادہ پرستی کی عمارت سے بلند سے بلندتر ہو رہی ہے۔صاحب اقتدار طبقہ کی طرف سے ، ’’مفاد عامہ‘‘ کے نام پرلوگوں کو بے وقوف بنا کر، اصول و ضوابط کے پھندوںمیں الجھا کر ، ریڈ ٹیپ کا شکار کرکے اور بے دریغ انداز میں قومی خزانہ لوٹ کر اپنی خواہشات کی تکمیل کی جارہی ہے اور اس کی آڑ میں اپنا الوسیدھا کیا جار ہا ہے۔ کسی سیاسی لیڈر سے جب کچھ اور بن نہیں پڑتا تو وہ فوراً عوامی مفاد کے نام لے لیتا ہے اور اس کی آڑ میں اپنا مطلب نکالنے کی راہ ہموار کرتا ہے۔
ہر سال بجٹ میں مختص کردہ کثیر رقوم سے مختلف منصوبہ جات کا قیام عمل میں لایا جاتا ہے۔مفاد عامہ کے نام پر ان منصوبوں کی موزونیت کی رپورٹ ، انفرا سٹرکچر اور تکمیل پربہت سے اخراجات کئے جاتے ہیں، مدتوں ان کی تکمیل اور کامیابی کے لیے سرمایہ کاری کی جاتی ہے اور بعد میںبڑی ڈھٹائی سے’’ مفاد عامہ‘‘ کے نام پر’’ کوڑیوں کے بھائو‘‘ ان کی نجکاری کردی جاتی ہے ۔ دوسرے الفاظ میںجہاں اور جس چیز میںاشرافیہ کو اپنا فائدہ نظر آتا ہے، وہاں اُسے عوامی مفاد ڈکلئیر کر کے اپنا کام نکالتے ہیں اور بعد ازاں کسی اور فائدے کی خاطر اس سے عوامی مفاد کے نام پر ہی دستبرداری اختیار کرلی جاتی ہے۔اس ضمن میںعملاً یہ صورت حال ہے کہ کل جو صنعت عوامی مفاد کے لیے قائم کی جارہی تھی ، آج اسے عوای مفاد کے نام پر فروخت کیا جارہا ہے۔اور شرم ہے کہ عوامی مفاد کے ان نام نہاد نقیبوں کو کہیں چھو کر بھی نہیں گزر رہی۔۔۔!
ایک عرصے سے ایک نعرے کی صورت عوام کویہی کچھ سنایااور سمجھایا جارہا ہے جس کی شکل، حسب ضرورت ، تھوڑی بہت تبدیل کرلی جاتی ہے۔کبھی اس کا نام عوامی مفاد، قومی مفاد، مفادِ عامہ اور ملی مفاد ہو جاتا ہے تو کبھی کسی اور پر کشش نعرے میں لپیٹ کر ذاتی مفادات کے حصول کو یقینی بنایا جا تاہے۔ اگر دیکھا جائے تو پاکستان کے قیام کے آغاز سے ہی ایسے دلفریب نعروں اور وعدے وعید کا سلسہ جاری ہے جن کی تکمیل کی کوئی منزل دوردور تک دکھائی نہیں دے رہی ۔ یہ صر ف اور صرف کا غذی پھولوں کی طرح مصنوعی رنگا رنگی تو ہے مگر ان میں خوشبو نام کی نہیں۔ایک طرح سے بے رنگ معاشرے میں مفاد پرستی کا کاروبار خوب زوروں پر جاری ہے۔
پاکستان کی تاریخ ایسے بے شمار معاشی منصوبوں اور اداروںکے قیام ،اداروں کے قومیائے جانے اور کچھ عرصہ بعد ان کی عوامی تحویل میں واپسی اور نج کاری سے بھری پڑی ہے۔ پاکستان اسٹیل مل کی مثال ہی لے لیجئے جو پاکستان کی تاریخ کا ایک سنگ میل ہے مگر اس کا کیا حال کر دیا گیا ہے۔پاکستان ا سٹیل پاکستان کی صنعتی تاریخ کا سب سے بڑا منصوبہ ہے جس کے قیام سے پہلے کئی دہائیوں تک اس کی ’’موزونیت ‘‘ کی متعدد رپورٹس کے بعد 1970ء کی دہائی میں کہیں جاکرکراچی میں اس کا قیام عمل میں لایا گیاجو "Long rolled steel” اور ـ”Heavy metal products” کی پیداوار کے حوالے سے اپنا ثانی نہیں رکھتی۔اس شاندار صنعتی منصوبہ کی تکمیل میں روس( اس وقت کے سوویت یونین) نے کلیدی کردار ادا کیا۔2022ء کے اعداد و شمار کے مطابق تقریباً 900 بلین روپے اثاثہ جات اور 17000 ایکڑ زمین کا حامل یہ ادارہ مدتوں منافع میں چلتا رہاجس کے زوال کا آغاز 2008ء سے ہوا، جب ناقص منصوبہ بندی، سیاسی تقرریوں، اعلیٰ عہدوں پر من پسند نااہل افراد کو تعیناتیاں اور بڑے پیمانے پر کرپشن سے اس کی ناؤ کو ڈبونا شروع کیا گیا۔ حد یہ کہ 9350 ملازمین پر مشتمل اس کی پیداوار کو صرف 18% تک محدود کر دیا گیا۔۔۔!
بعدازاں اس کو سہارا دینے کے لیے کئی بیل آؤٹ پیکجز دیے گئے جو بڑی صفائی اور سہولت سے کرپشن اور اقرباء پروری کی نظر ہو گئے اور ’’مرض بڑھتا گیا جو ں جوں دوا کی ‘‘ کے مصداق صورت حال بگڑتی اور بگاڑی جاتی رہی اور پھر اسٹیل پاکستان کو پرائیویٹائز کرنے کے نعروں اور منصوبوں کے ساتھ آہستہ آہستہ’’ بلی تھیلے سے باہر آتی گئی‘‘ اور شوکت عزیز صاحب کے دور حکومت میں اسے باضابطہ پرائیوٹائز کرنے کی کوشش کی گئی جسے سپریم کورٹ آف پاکستان نے ناکام بنایا۔ آج یہ عظیم الشان منصوبہ کمزور پرفارمنس اور معاشی نقصانات کی وجہ سے بند پڑا ہے اور بجائے اس کے کہ اسے پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ یا ایک کی بجائے کئی ایک صنعتی پیداواری شعبہ جات کی بنیاد پر یا چند ایک شعبہ جات کو کچھ وقت کے لیے لیز پر دے کر یا کسی غیر ملکی کمپنی کو کچھ وقت کے لیے آسان شرائط پر لیز پر دے کر اسے بھرپور انداز میں ملک و قوم کے لیے سود مند صنعت میں تبدیل کیا جائے، ایک بار پھر سے اسے پرائیویٹائز کرنے کے منصوبے ہیں اور اس کا جواز بھی ’’مفاد عامہ‘‘ ہی تراشا جا رہاہے۔۔۔! ایک ایک کرکے اگر یونہی ملکی اثاثے فروخت کیے جاتے رہے تو کل کو ملک کے پاس کیا ہوگا۔۔۔چند لوگوں کی نااہلی، اقرباء پروری ، بے ایمانی اور کرپش کی سزا ملک اور ملکی اثاثوں کو نہیں دی جاسکتی۔۔۔!
ایک طرف ملکی منصوبہ جات کے ساتھ’’ دو قدم آگے اور چار قدم پیچھے‘‘ جیسے کھلواڑ کا یہ حال ہے تو دوسری طرف اسٹیل کی پیداوار میں، دنیا کے دس بڑے ممالک میں انڈیا تیسرے نمبر پر ہے۔اوپری نمبروں پر چائنہ اور جاپان ہیںجبکہ اس کے بعدبالترتیب انڈیا ، امریکہ، روس، جنوبی کوریا، جرمنی، ترکیہ، برازیل اور اٹلی شامل ہیں۔ اقوام عالم کی یہ فہرست’’ مفاد عامہ ‘‘کے تحت کام کرنے والوں اور ’’مفاد عامہ‘‘ کا نام لے کر اپنے مفادات کی تکمیل کرنے والوں کے چہرے اور کردار واضح کرنے کے لیے کافی ہے۔
تبصرے بند ہیں.