پہلے میں دو وضاحتیں اپنے گزشتہ دو کالموں کے حوالے سے کر دوں، 4 جون 2024 منگل کے کالم میں غلطی سے لکھا گیا ”احمد اسحاق جہانگیر نے بطور ڈی جی ایف آئی اے اپنا چارج جنوری 2018 میں سنبھالا تھا“، جنوری 2024 کے بجائے جنوری 2018 لکھا گیا، ایف آئی کے کچھ سینئر افسران اور کچھ قارئین نے اس غلطی کی نشاندھی کی اس کی وضاحت ضروری تھی، دوسری وضاحت پرسوں 6 جون جمعرات کو شائع ہونے والے کالم کے حوالے سے ہے، میں نے اس میں لکھا تھا ”شاید دو تین برس پہلے کی بات ہے لاہور میں ایک سی سی پی او ہوتے تھے“، اس کے بعد میں نے اس سی سی پی او سے جڑی کچھ بدنامیوں کا ذکر کر دیا”، مجھے دو تین سینئر پولیس افسران کے فون آئے، وہ فرمانے لگے بلال صدیق کمیانہ کی شہرت ایسی نہیں جیسا آپ نے آج کے کالم میں لکھا“، میں نے عرض کیا ”ہمارا مسئلہ ہی یہی ہے ہم غور سے کچھ دیکھتے ہیں نہ پڑھتے ہیں، میں واضع طور پر دو تین برس پہلے کے ایک سی سی پی او کا ذکر کیا تھا، بلال صدیق کمیانہ کو سی سی پی او لاہور تعینات ہوئے ابھی ڈیڑھ پونے دو برس بھی شاید نہیں ہوئے“، مجھے اپنے ان افسروں سے کوئی گلہ شکوہ نہیں، یہ بیچارے اپنی فائلیں ٹھیک طرح نہیں پڑتے ہماری تحریریں ٹھیک طرح کہاں اْنہوں نے پڑھنی ہیں؟، بلال صدیق کمیانہ کو میں ذاتی طور پر جانتا ہوں، ہم ایک دوسرے کی میزبانی بھی کرتے رہتے ہیں، کئی بار انہوں نے اپنے کچھ ذاتی مسائل کا مجھ سے ذکر کیا اور کئی بار میں نے اپنے کچھ ذاتی مسائل ان کی خدمت میں پیش کئے، ایک دو بار کسی ایشو پر دوستانہ تکرار بھی ان سے ہوئی، یہ ان کی اعلی ظرفی اور بڑا پن ہے انہوں نے مجھے ناراض نہیں ہونے دیا، ان کی شہرت ہر گز ایسی نہیں جو لاہور میں تعینات ہونے والے کچھ ایسے مال پسند سی سی پی اوز کی تھی جن میں ایک فوت ہوگئے دوسرے ریٹائرڈ ہوگئے، بلال صدیق کمیانہ کو میں گورنمنٹ کالج لاہور (جی سی یو) کے زمانے سے جانتا ہوں، جب ان کے اکثر کلاس فیلوز کے پاس سائیکلیں اور موٹر سائیکلیں تھیں تب بھی ایک اچھے ماڈل کی گاڑی پر وہ آتے تھے، کم از کم میرے نوٹس میں آج تک نہیں آیا دوران سروس کرپشن کے لحاظ سے کوئی ایسی ”چول“ انہوں نے ماری ہو جو ہمارے اکثر پولیس افسران مارتے ہوئے اپنی اور اپنے عہدے کی ساری گریس ہی گنوا بیٹھتے ہیں، بلال صدیق کمیانہ کا ”نقص“ یہ ہے وہ زبان کے کڑوے ہیں، یہ اس اعتبار سے ان کی خوبی بھی ہے وہ اپنے غصے یا ناراضگی کا اظہار کر کے دل صاف کر لیتے ہیں، منافقت نہیں کرتے، نہ نقصان کرتے ہیں، جب ان کا کوئی ماتحت اپنی ذمہ دادیاں ٹھیک طرح سے نہ نبھا رہا ہو، وہ اس کے ساتھ ”سیدھے“ ہو جاتے ہیں، اپنے ماتحت افسران کی کارکردگی و دیگر معاملات کی وہ پوری خبر رکھتے ہیں، انہیں کوئی بے وقوف نہیں بنا سکتا، یہ الگ بات ہے کسی ماتحت افسر کی کسی ایک خوبی کی وجہ سے وہ اس کی کچھ خرابیوں کو جان بوجھ کر نظرانداز کر دیں، ان کی ایک اور خوبی کا میں اعتراف کرنا چاہتا ہوں ”گھٹیا شہرت“ سے وہ ہمیشہ پرے رہتے ہیں، معاشرے کے مجھ جیسے کچھ مسخروں بھانڈوں اور ٹک ٹاکروں کے وہ قریب بھی نہیں پھٹکتے، کبھی ڈگڈگی نہیں بجاتے، کہیں تماشا نہیں لگاتے، فنکاریوں اور شعبدہ بازیوں سے ہر ممکن حد تک وہ گریز کرتے ہیں، اب میں واپس ایف آئی اے پر آتا ہوں، احمد اسحاق جہانگیر سے پہلے جناب محسن بٹ ڈی جی ایف آئی اے تھے، وہ کچھ عرصہ قبل بہت عزت مندی سے ریٹائرڈ ہوگئے، وہ اعلیٰ اخلاقی اقدار کے حامل ایسے شخص ہیں جن سے تعلق پر ہمیشہ ہمیں مان رہا، کسی کو ناجائز فائدہ یا جائز نقصان پہنچانے کا کوئی تصورہی ان کے ہاں نہیں ہے، انہوں نے بہت مشکل حالات میں ڈی جی ایف آئی اے کے عہدے کا چارج سنبھالا تھا، میرے ذاتی نوٹس میں ہے نگران سرکار اور اس کے سرپرست ان سے کچھ ایسے کام لینا چاہ رہے تھے جو ان کے مزاج کے برعکس تھے، انہوں نے بڑی دانشمندی سے خود کو ان معاملات سے الگ رکھا، وہ کسی کے خلاف استعمال نہیں ہوئے، کوئی ایسا داغ دھبہ انہوں نے اپنے کردار پر نہیں لگنے دیا جو ساری عمر نہ مٹ سکتا، اس کے برعکس کچھ پولیس افسران نے یہ ”داغ دھبے“ خود پر اتنے لگا لئے ہیں اب دنیا کے کسی کونے میں وہ چلے جائیں ان سے اپنی جان وہ نہیں چھڑوا سکیں گے، کچھ اعلیٰ پولیس افسران جیل میں ہوں گے، انہیں ان ممالک میں بھاگنے کی مہلت ہی نہیں ملے گی جہاں اپنے عزیز و اقارب کے نام پر اربوں کھربوں کی کمرشل پراپرٹیاں وہ بنا چکے ہیں، محسن بٹ صاحب سے پہلے کچھ دنوں کے لئے ہمارے ایک اور محترم بھائی رائے طاہر بھی ڈی جی ایف آئی اے بنے، پھر اللہ جانے کس سے ان کی نہیں بنی کہ سنا ہے اس عہدے سے خودہی الگ ہونے کی گزارش ارباب اختیار سے اْنہوں نے کر دی، انہیں بھی اپنی عزت بہت پیاری ہے، دوستوں سے محبت، رشتے اور تعلق نبھانے میں وہ بھی آخری حد تک جاتے ہیں، پاکستان کو دہشت گردی اور دہشت گردوں سے پاک کرنے کے لئے ان کی خدمات اتنی گراں قدر ہیں جس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے، بطور ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی یہ کارنامے اپنی جان کا رسک لے کر جس دلیرانہ انداز میں انتہائی مہارت سے انہوں نے کئے میرا بس چلے پاکستان کے جتنے پولیس میڈل اور ایوارڈ ہیں سب ان سے منسوب کر دوں، وہ اتنی مرنجاں مرنج اتنی نفیس شخصیت کے مالک ہیں ان سے مل کر کوئی یہ اندازہ ہی نہیں کر سکتا کتنی طاقت سے بڑے بڑے دہشت گردوں کا انہوں نے مقابلہ کر کے انہیں ان کے انجام تک پہنچایا، ایک وقت تھا پاکستان میں اتنے دھماکے اتنے خودکش حملے ہوتے تھے یوں محسوس ہوتا تھا یہ سانحے یا سلسلے شایدہی کبھی ختم ہوں گے، الحمد للہ افواج پاکستان، پولیس اور کچھ دیگر اداروں نے جو قربانیاں دیں جو کوششیں کیں وہ رنگ لے آئیں، آج پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے، اسے مکمل طور پر ختم کرنے کے لئے مزید اقدامات کی ضرورت ہے جو رائے طاہر جیسے انتہائی پروفیشنل، محب وطن، دلیر اور سمجھدار افسروں کی راہنمائی اور مدد سے ہی ممکن ہو سکتے ہیں۔ (جاری ہے)
تبصرے بند ہیں.