وزیر اعظم کا دورہ چین

85

وزیر اعظم پاکستان 4 سے 8 جون تک چین کے انتہائی اہم دورہ پر ہیں اور چین کی جانب سے ان کا انتہائی گرم جوشی سے استقبال کیا گیا جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ آج تک پاکستان یہ کہتا تھا کہ پاکستان اور چین کی دوستی ہمالیہ سے بھی بلند ہے لیکن اس بار پہلی مرتبہ چین والوں نے کہا کہ پاکستان سے ہماری دوستی ماؤنٹ تائی سے بھی بلند ہے یاد رہے کہ یہ چین کے صوبہ شانڈونگ کا سب سے بلند مقام ہے۔وزیراعظم میاں شہباز شریف کے دورہ چین میں 32 ایم او یوز پر دستخط کئے گئے ہیں، توانائی، آٹو موبائل، آئی ٹی، ادویہ سازی اور دیگر شعبوں میں تعاون ہوگا، چینی کمپنیوں نے پاکستان میں الیکٹرک بائیکس، جدید زراعت میں سرمایہ کاری کیلئے دلچسپی ظاہر کی ہے جبکہ چین 2لاکھ پاکستانیوں کو AI کی تربیت دے گا۔یہاں پر رک کر دیگر شعبوں سے ہٹ کر چند گذارشات زراعت کے حوالے سے کرنا ضروری ہے کہ اس شعبہ میں چین کا پاکستان سے تعاون کس قدر اہم ثابت ہو سکتا ہے۔ پاکستان کی آبادی جس بے ڈھنگے انداز سے بڑھ رہی ہے ظاہر ہے کہ اس میں پاکستان کی غذائی ضروریات میں اضافہ ہو گا اور اس کے لئے بہت زیادہ ضروری تھا کہ جو غیر آباد بنجر زمینیں تھیں انھیں آباد کیا جاتا اور قابل کاشت بنایا جاتا لیکن شومئی قسمت کہ جو کچھ ہو رہا ہے وہ اس کے بالکل بر عکس ہو رہا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ آبادی کے بڑھنے کے ساتھ صرف غذائی ضروریات ہی نہیں بلکہ رہائشی ضروریات بھی بڑھ جاتی ہیں اور ہماری بد قسمتی کہ اس کے لئے بنجر اور غیر آباد زمینوں کو نہیں بلکہ زرعی زمینوں کو رہائشی کالونیوں میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔ اس سے ایک طرف تو زرعی زمینوں کا حجم بڑی تیزی سے کم ہو رہا ہے جس سے بڑھتی آبادی کے لئے غذائی اجناس کی ضروریات پوری کرنے میں وقت کے ساتھ مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور اس سے بھی کہیں زیادہ خطر ناک بات گلوبل وارمنگ کے حوالے سے ہے کہ زرعی زمینوں کی رہائشی کالونیوں تبدیلی کے باعث سبزہ اور خاص طور پر درختوں کی کٹائی کی وجہ سے گلوبل وارمنگ کے اثرات شدت اختیار کرتے جا رہے ہیں اور اب بھی گلوبل وارمنگ کے حوالے سے پاکستان دنیا کے ٹاپ ٹین ممالک میں شامل ہے تو اس ساری صورت حال کے تناظر میں چین زرعی شعبہ میں بھی کافی آگے ہے اور اگر اس میں پاکستان سے تعاون کرتا ہے تو پاکستان کو نہ صرف یہ کہ اپنی غذائی ضروریات پوری کرنے میں مدد ملے گی بلکہ گلوبل وارمنگ کے حوالے سے بھی مثبت پیش رفت کے امکانات کو رد نہیں کیا جا سکتا۔

اس کے علاوہ چین پاکستان کے 2لاکھ نوجوانوں کو انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے بشمول مصنوعی ذہانت کے شعبے میں مفت تربیت فراہم کرے گا۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی اس وقت دنیا میں چھائی ہوئی ہے اور اس میں ہندوستان نے کافی ترقی کی ہے۔ اس فیلڈ میں تربیت سے پاکستانی نوجوانوں کو اس شعبہ میں مہارت کے مواقع بھی ملیں گے اوریہ وہ شعبہ ہے کہ جس میں نوجوانوں کو امریکہ یورپ نہیں جانا پڑے گا بلکہ پاکستان میں گھر بیٹھے پوری دنیا سے آن لائن کام کر کے امریکہ یورپ جتنا کما بھی سکتے ہیں اور ساتھ میں پاکستان کے فارن ایکسچینج کے ذخائر میں بھی اضافہ ہو گا۔ جہاں تک مصنوعی ذہانت کی بات ہے تو اس پر کام تو عشروں پہلے شروع ہو چکا تھا لیکن دنیا کے سامنے اس کے نتائج اب آ رہے ہیں اور اس شعبہ کی اہمیت کو شاید ابھی پوری طرح نہیں سمجھا گیا لیکن یہ سمجھ لیں کہ یہ جدید دور کا ایٹم بم ہے۔ جیسے جیسے اس شعبہ میں ترقی ہوتی گئی تو بس اتنی بات سمجھ لیں کہ اس سے انسان کو بھی کمپیوٹر جتنا ذہین اور تیز رفتار بنایا جا سکتا ہے بہرحال یہ مستقبل کی باتیں ہیں لیکن ہمیں اس شعبہ پر ابھی سے توجہ دینے کی ضرورت ہے اور چین کی معاونت اور تربیت ہماری لئے یقینا سود مند ثابت ہو گی۔ اس کے علاوہ ہواوے پاکستان میں سیف سٹیز کے قیام، ای گورننس اور معیشت کی ڈیجیٹائزیشن میں بھی بھرپور تعاون فراہم کرے گا، ہواوے کے چیئرمین نے وزیراعظم اور پاکستانی وفد کے اعزاز میں ظہرانہ بھی دیا۔ وزیراعظم شہبازشریف کے ہواوے ہیڈ کوارٹرز پہنچنے پر ہواوے کمپنی کے چیئرمین لیانگ ہوا نے پرتپاک استقبال کیا، پاکستانی ملی نغمے بجائے گئے۔ چیئرمین ہواوے نے پاکستان کے مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری میں گہری دلچسپی کا اظہار کیا جبکہ وزیراعظم نے ہواوے کو پاکستان میں سرمایہ کاری کو وسعت دینے اور پاکستان کے مختلف شہروں میں ترجیحی بنیاد پر سیف سٹی منصوبے قائم کرنے کی دعوت دی۔
ایک بات یاد رکھیں کہ عدلیہ کے از خود نوٹس کے علاوہ اس دنیا میں از خود کچھ نہیں ہوتا۔ ہر کام کے پیچھے انتھک محنت ہوتی ہے جس کے بعد کہیں جا کر بات یہاں تک پہنچتی ہے۔کسی بھی ملک کے ساتھ اس طرح کے معاہدوں کے لئے سیکریٹری کی سطح سے بات شروع ہوتی ہے اور پھر بڑھتے پڑھتے وزیروں اور مشیروں تک پہنچتی ہے اور اس کے بعد کہیں جا کر ہیڈ آف اسٹیٹ کے ساتھ معاہدوں کو حتمی شکل دی جاتی ہے۔ ایک طرف یہ سب کچھ ہو رہا ہے کہ پاکستان کو بیرون ملک معاشی میدان میں ڈھیر ساری کامیابیاں مل رہی ہیں اور آنے والے دنوں میں کچھ وقت کے بعد ان کے ثمرات عوام تک پہنچنا شروع ہو جائیں گے لیکن دوسری جانب ان کامیابیوں پر پانی پھیرنے کے کام میں بھی بڑی تیزی آ گئی ہے اور مختلف سیکٹرز کی جانب سے پاکستان میں عدم استحکام پیدا کرنے کی سازشوں کا آغاز ہو چکا ہے۔

پاکستان میں ایسے حالات پیدا کئے جا رہے ہیں کہ جن کی وجہ سے ملک میں بے یقینی کی فضا بن رہی ہے۔ جس کے حق میں سب کچھ ہو رہا ہے ان کے دور میں سی پیک پر ایک قسم کا کام بند کر دیا گیا تھا یا بہت زیادہ سست کر دیا گیا تھا اور مشیر وزیر اعلانیہ سی پیک کی برائیاں کرتے دکھائی دے رہے تھے تو آج اگر چین سی پیک 2 شروع کرنا چاہتا ہے تو اسی قیادت کو دوبارہ پاکستان پر مسلط کرنے کی کوشش کیوں کی جا رہی ہے۔کیا یہ چین کو وارننگ ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ ایسے معاہدے نہ کرے کیونکہ ہم دوبارہ ایسی حکومت لا رہے ہیں جو یہ سب بند کر دے گی۔

تبصرے بند ہیں.