اُمید سحر کی بات سنو

163

1941سے قائم جماعت اسلامی کے چھٹے امیر نے حلف اٹھا کر اپنے فرائض منصبی انجام دینا شروع کردیئے ہیں، عروس البلاد سے زندہ دلان لاہور کا رخت سفر باندھنے والے حافظ نعیم الرحمان نئی وضع وقطع کے آدمی ہیں،کراچی میں مظلوموں کی آواز بن کر شہرت پانے والی اس معتبر ہستی نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا اور اب قرعہ انکے نام نکلا، اراکین نے پوری جماعت اسلامی ان کے حوالہ کردی، انہوں نے لاہور میں اقصیٰ مارچ سے خطاب میں پیغام دیا کہ جہاد اور مزاحمت میں عزت ہے، جو باطل کے سامنے دب اور لیٹ جاتے ہیں انکی دنیا میں کوئی عزت ہے نہ ہی آخرت میں حصہ، ظالم کے خلاف اورمظلوم کی حمایت میں شروع ہونے والا سفر اب تلک جاری ہے۔

حلف کے موقع پر نئے امیر کا خطاب جماعت اسلامی کے لئے مستقبل کا لائحہ عمل بھی تھا،اپنے نشان اور جھنڈے پر سیاسی جدوجہد کا اعادہ کرتے ہوئے انھوں نسل نو کو جماعت اسلامی میں شمولیت کی دعوت بھی دی اور کہا وہ مستقبل میں 10لاکھ نوجوانوں کو ”بنو قابل“ پروگرام کے تحت آئی ٹی کی ٹریننگ دیں گے جو کامیابی سے کراچی میں جاری ہے۔ محترم حافظ نعیم الرحمان کا امتیاز ہے کہ انھوں نے زبانی، کلامی متاثرہ اور مظلومین کی حمایت کا دعویٰ نہیں کیا بلکہ اس کا عملی ثبوت بھی دیا اور متاثرین کی جائیداد کے پیسے ایسے طاقتور افراد اور ادارہ سے نکلوا کردیئے جن کے سامنے بڑے سورمائوں کا پتہ پانی ہو جاتا ہے، امانت، دیانت اور کردار سازی ہی جماعت اسلامی کی میراث ہے، جس کو طاقت ور حلقے بھی خریدنے سے قاصر رہے۔

جتنے بھی امراء جماعت اب تلک اسکی قیادت کا فریضہ انجام دیتے رہے ہیں وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ، معاملہ فہم اور صاحب کردار رہے، جماعت اسلامی کی جمہوری اقدار، صلاحیتوں کا اعتراف مخالفین بھی کرتے ہیں، پاکستان کی یہ واحد سیاسی جماعت ہے جس کا اتنا بڑا ہیڈکوارٹر منصورہ میں ہے۔ پہلے امیر محترم بانی جماعت سید مودودی نے ا س کے خدو خال جوطے کئے اور دستور بنایا اس پر جماعت کے امراء اراکین عمل پیرا ہیں، محترم میاں طفیل محمد نے بھٹو کے فسطائی ہتھکنڈوں کا جہاں مقابلہ کیا وہاں جہاد افغانستان کے صبر آزما دور سے بھی گزرے۔

قاضی حسین احمد بذات خو دجہاد افغانستان میں شریک ہوئے، امت مسلمہ، مذہبی جماعتوں کے اتحاد کے وہ بہت حامی تھے،انھوں نے الخدمت فاؤنڈیشن، غزالی ٹرسٹ، ادارہ معارف اسلامی جیسے ادارے بنائے، وہ فکر مند رہتے فرقہ وارانہ کشیدگی اگر بڑھ گئی تویہاں جہاد اور اسلامی نظام کو متنازع بنایا جائے گا، ناکام ریاست کا واویلا کرتے ہوئے ایٹمی اثاثوں کو عالمی تحویل میں دینے کو کہا جائے گا، نیزہماری اسلامی حیثیت ختم کرنے کیلئے دباؤ ڈالا جائے گا، 1988میں قاضی حسین احمد کی قیادت میں ”کارواں دعوت محبت“ چلا، ملک بھر کی سڑکوں پر رواں دواں رہا اس کامعروف نعرہ تھا دور ہٹو سرمایہ اور جاگیر دارو پاکستان ہمارا ہے، جماعت کی مقبولیت میں انھوں نے بے پناہ اضافہ کیا۔

محترم سید منور حسن نے افغانستان پر امریکی قبضہ کے تناظر میں گو امریکہ گو تحریک چلائی ،کیری لوگر بل کی متنازع شقوں کے خلاف رائے عامہ ہموار کی، لاپتا پاکستانیوں کی باز یابی، ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے لئے اور سی ٹی بی ٹی پالیسی کے خلاف متحرک رہے، امریکی جاسوس ریمنڈ ڈیوس نے اپنی خود نوشت میں اعتراف کیا کہ پاکستان کی واحد پارٹی جماعت اسلامی انکی رہائی میں اہم رکاوٹ تھی۔

محترم سراج الحق نے اپنی امارت کے دوران کے پی کے میں بطور وزیر خزانہ فرائض انتہائی ایمانداری سے انجام دیئے عالمی ادارے انکی صلاحیتوں کے معترف رہے، اپنے دوسرے دور میں انھوں نے کرپشن کے خلاف بھر پور تحریک چلائی، عدالتی محاذ پر بھی اس کے خلاف ڈٹے رہے۔ نئے امیر محترم نے سوال اٹھایا ہے کہ وصیت، وراثت اور خاندانوں کی بنیاد پر سیاسی پارٹیاں چلانے والے اور جن کے پاس پارلیمانی لوگ ہیں انھوں نے پاکستان کے لئے کون سا اچھا کام کیا ہے؟ پوری قوم بیرونی قرض میں غرق ہے وہ خود خوشحال ہیں، تینوں پارٹیوں نے خود انحصاری کے بجائے ہاتھ میں کشکول تھامے ایک دوسرے سے سبقت لینے کی کوشش کی ہے، ”تبدیلی“ کے نام پر جو ڈرامہ رچایا گیا وہ بری طرح فلاپ ہوا ہے، نئے امیر نے کہا جماعت اسلامی سہارا دینے اور لینے والوں کو بے نقاب کرے گی۔

آمرو ں کو ڈیڈی کہنے ،انکی نرسریوں میں پروان چڑھنے، سپہ سالار کو باپ ماننے، سلیکٹڈ کی گردان کرنے والے کس منہ سے جماعت کو انتخابی ناکامی کا طعنہ دیتے ہیں؟متحدہ پاکستان کے لئے جماعت کی قربانیوں کا تذکرہ وہ کیوں نہیں کرتے؟ اس لئے کہ ان کے دامن حب الوطنی کے ان پھولوں سے خالی ہیں، انھوں نے توقومی خزانہ سے اپنی تجوریاں بھرنے کو کافی سمجھا ہے۔ تاہم غیر جانبدار ذرائع کہتے ہیں کہ اگر مشرقی پاکستان میں صاف اور شفاف انتخاب ہوتے تو آج کا جغرافیائی منظر نامہ بالکل مختلف ہوتا،وہاں شورش اپنی موت آپ مر جاتی مگر عالمی منصوبہ سازوں کو یہی مطلوب تھا۔ پارلیمنٹ میں موجودگی کی بابت پلڈاٹ نے جماعت اسلامی کے پارلیمنٹرین کی کارکردگی کو ہمیشہ سراہا ہے،انھو ں نے محض مراعات لینے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ قانون سازی میں کلیدی کردار ادا کیا ہے، سنیٹر مشتاق احمد پارلیمنٹ میں باآواز بلند فرماتے تھے کہ ”ہم چند“ مگر قابل فخر ہیں۔
نئے امیر محترم نے اپنے پہلے خطاب میں خواتین، نوجوانان، کسانوں، مزدورں کی بابت اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے،کشمیر، فلسطین، ایران،چین کے حوالہ اپنا نقطہ نظر بیان کیا اور کہا کہ ریاست میں وسائل کی کمی نہیں مایوسی پھیلانے والے ملک دشمن ہیں، عالمی اسٹیبلشمنٹ کے آلہ کاروں نے ملک کو یرغمال بنایا ہے قوم کے پاس جماعت اسلامی ہی بہترین آپشن ہے، کیونکہ جماعت اسلامی باصلاحیت، ایماندار قیادت کی حامل ،مظلوم کی حامی اور تمام تر تعصبات سے بالا تر ہے سابقہ امراء نے اپنی اپنی صلاحیتوں کی بابت باہمی مشاورت سے فرائض انجام دیئے، دہشت گردی، عالمی طاغوت کے خلاف ہمیشہ سینہ سپر رہے، رخصت ہونے والے امراء نے خوش دلی اپنے اختیارات نئے امراء کو منتقل کئے ذمہ داری لینے والوں نے بھیگی آنکھوںسے انھیں قبول کیا۔ کوئی دوسری سیاسی جماعت اس روایت کی امین نہیں ہے۔اسی کا فیض ہے کہ اس میں کوئی گروہ بندی، موروثیت، خاندانی اجارہ داری قائم نہیں ہوسکی ہے۔ وہ دانشور جو جماعت اسلامی کو مشورہ نہ دینے صر ف دعا دینے کا شکوہ کرتے ہیں وہ ووٹ کی بابت عوام کو مشورہ دینے سے نجانے کیوں گریزاں ہیں یہ بتانے میں کیا حرج ہے کہ جماعت اسلامی اور نئے امیر قوم کے لئے امید سحر ہیں۔

بقول انس معین:
امید سحر بھی تو ہے وراثت میں شامل
شائد کہ دیا اب کے جلائے گا کوئی اور

تبصرے بند ہیں.