انٹیلی جنس ایجنسیوں کی ریاستی اور عدالتی معاملات میں مداخلت کوئی نئی بات نہیں اور نا ہی اس قسم کے الزامات صرف پاکستان میں لگتے ہیں۔ دنیا میں اس قسم کی بے شمار مثالیں موجود ہیں، جو اکثر قومی سلامتی کے بحرانوں یا سیاسی ہلچل سے جڑی ہوتی ہیں۔ خفیہ نگرانی سے لے کر عدالتی تقرریوں کو ترتیب دینے تک، ایجنسیوں پر پس پردہ اثر و رسوخ کے لیے مختلف حربے استعمال کرنے کے الزامات تو ترقی یافتہ دنیا میں بھی کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔
اس بات میں تو کوئی شک نہیں کہ انٹیلی جنس ایجنسیوں کے پاس اختیارات اور وسائل کی کوئی کمی نہیں ہوتی اور الزام یہ ہے کہ وہ اپنے زاویے سے چیزوں کو دیکھتے ہوئے معاملات پر نظر بھی رکھتے ہیں اور جہاں ضروری خیال کریں کم یا زیادہ مداخلت بھی کرتے رہتے ہیں۔ ممکن ہے اس بات میں کچھ حقیقت بھی ہو۔ اگر کہیں کچھ خرابی ہو تو سسٹم میں رہتے ہوئے اسے بہتر بنانے کی کوششیں تو ضرور کرنا چاہئیں لیکن ہمارے ہاں تو کچھ سیاسی پارٹیوں نے اپنے ہی ملک کے اداروں پر الزام تراشی کو وتیرہ اور اپنی سیاست کی بنیاد ہی بنا لیا ہے۔
کئی سال پہلے صحافیوں کے ایک وفد کے ہمراہ مظفر آباد جانا ہوا۔ اس دورہ کے دوران حکومتی اور سیاسی اہلکاروں نے تو خیر روایتی بریفنگز دیں، لیکن وہاں کے مقامی صحافیوں کے ساتھ کھل کر گپ شپ کرنے کا موقع ملا تو انہوں نے بتایا کہ وہاں پر سیاستدانوں کی جانب سے کرپشن کی انتہا ہے اور بقول ان کے اگر یہاں آئی ایس آئی ایک بھرپور کردار ادا نہ کر رہی ہو تی تو عین ممکن ہے کہ یہ لوگ (مقامی سیاستدان) ہمیں بیچ کر ہی کھا جائیں۔
بلاشبہ پاکستان کے معاملات میں بھی انٹیلی جنس اداروں کا خوف کافی زیادہ ہے شائد یہی وجہ ہے کہ ان پر الزامات بھی لگتے رہتے ہیں کہ یہ اسی خوف کو بروئے کار لا کر ملک کی اندرونی سیاست میں مداخلت کرتے ہیں اور اعلیٰ عدلیہ کے فیصلوں پر اثر انداز ہوتے رہتے ہیں۔ الزام لگانے والوں کا کہنا ہے کہ اس قسم کے ماحول کی وجہ سے اداروں پر عوامی اعتماد میں کمی میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ ویسے تو ہمارے ہاں لوگ اعلیٰ عدلیہ پر الزام تراشی کرنے یا ان پر عدم اعتماد کرنے سے بھی باز نہیں رہتے۔ اگر سیاسی پارٹیوں کی بات کی جائے تو ہم نے دیکھا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان مسلم لیگ (نواز) اور پاکستان تحریک انصاف سمیت تمام ہی سیاسی پارٹیاں کسی نہ کسی وقت میں اعلیٰ عدلیہ کی غیرجانبداری کو شک کی نگاہ سے دیکھتی رہی ہیں اور ان پر تنقیدبھی کرتی رہی ہیں۔
بدقسمتی سے حال ہی میں منظر عام پر آنے والے کچھ معاملات نے انٹیلی جنس ایجنسیوں کی جانب سے اعلیٰ عدلیہ کے معاملات میں مداخلت کے بارے میں قیاس آرائیوں کو ہوا دی ہے۔ ثبوتوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ، ججوں کو دھمکانا، یا واقعاتی انجینئرنگ جیسے الزامات نے ناصرف اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ جج حضرات کو چیف جسٹس آف پاکستان کو خط لکھنے پر مجبور کر دیا بلکہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے اس سلسلہ میں از خود نوٹس بھی لے لیا ہے اور امید ہے کہ اب سپریم کورٹ کا فل کورٹ اس معاملہ کی شنوائی کرے گا۔
یہ سب تو اپنی جگہ اہم ہے لیکن افسوس کی بات کہ ہماری کچھ سیاسی پارٹیوں نے اس بنیاد پر اپنے ہی ملک کے اداروں کے خلاف نفرت کی سیاست کا آغاز کر دیا ہے۔ حقیقت جو بھی ہو لیکن کسی کو بھی اس قسم کی حساس صورتحال پر سیاست کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔ حکام کی جانب سے ان معاملات کو کنٹرول کرنا انتہائی ضروری ہے اور اگر اس صورتحال کو فوری کنٹرول نہ کیا گیا تو اس کے بہت ہی بھیانک نتائج بھی نکل سکتے ہیں۔ میڈیا پر بھی اس سلسلہ میں طویل بحث چھڑی ہوئی ہے۔عدم اعتماد کی اس فضا میں ہمارا میڈیا بھی اپنی سمت کا واضح طور پر تعین کرنے میں ناکام نظر آتا ہے۔ یہ انٹیلی جنس ایجنسیوں اور عدلیہ کے گرد پروپیگنڈے کو بے نقاب کرنے اور اسے جاری رکھنے دونوں میں کردار ادا کر رہا ہے۔ بے شک تحقیقاتی صحافت بدعنوانی کی کسی بھی صورتحال کو بے نقاب کر سکتی ہے، لیکن سنسنی خیز رپورٹنگ اور سنسنی خیز سرخیاں غلط معلومات کو بڑھا رہی ہیں اور ایسی صورتحال میں بے یقینی کی صورتحال کو استحکام مل رہا ہے۔
ماضی میںبھی انٹیلی جنس ایجنسیوں اور اعلیٰ عدلیہ کے درمیان گٹھ جوڑ بحث کا موضوع رہا ہے۔ کیا اس بات سے اس قسم کا تاثر لینا درست ہو گا کہ اگر تو کسی خاص قسم کے سیاسی سیٹ اپ کی حمایت کرنا ہو یا کسی مخصوص سیاسی جماعت کی پشت پناہی کرنا درکار ہو تو سب ٹھیک ہے ورنہ آئین، قانون اور ملکی سالمیت سب خطرہ میں پڑ جاتا ہے۔ معاملہ اس وقت سپریم کورٹ آف پاکستان کے سامنے ہے اور ہمیں یقین رکھنا چاہیے کہ اس سلسلہ میں ایک بہترین اور واضح فیصلہ جلدسامنے آجائے گا جو سب کے لیے قابل قبول بھی ہو گا۔
سپریم کورٹ آف پاکستان یقینا اس سلسلہ میں فیصلہ صادر فرماتے ہوئے اس بات کو بھی مدنظر رکھے گی کہ ملکی سلامتی اور استحکام کے پیش نظر یہ کیونکر ممکن ہے کہ معاملات میں انٹیلی جنس ایجنسیوں کا کردار بالکل ہی ختم کر دیا جائے ۔ کیونکہ ہم نے دیکھا ہے کہ بعض معاملات میں جب حکومت یا عدلیہ کے کچھ فیصلوں کی وجہ سے صورتحال بگڑ جاتی ہے تو پھر انہی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی مدد سے صورتحال کو قابو میں لایا جاتا ہے۔
اس لیے ایک طرف تو قانون کی حکمرانی کے محافظوں کے طور پر یہ حکومت، میڈیا، ملکی اداروںاور سول سوسائٹی سب پر لازم ہے کہ وہ عدلیہ کی آزادی کو سلب کرنے کی کوششوں کے خلاف چوکنا رہیں اور انصاف اور احتساب کے لیے عدلیہ کوکسی بھی قسم کے پروپیگنڈے اور بیرونی دباؤ کے باوجود اپنی آئینی ذمہ داریوں کو پورا کر نے میں مدد فراہم کریں، تو دوسر ی طرف کسی قسم کے سیاسی رسوخ کا شکار ہو کر اپنے ہی ملک کے دفاع سے متعلق اداروں کے خلاف منفی پراپیگنڈہ کا حصہ نہ بنیں۔ اگر ملکی سالمیت ہی ترجیح نمبر ون ہو تو یقینا مذکورہ بالا دونوں باتوں میں کوئی تضاد نظر نہیں آئے گا۔
تبصرے بند ہیں.