اگر آپ سوشل میڈیا پر تھوڑا وقت لگائیں یا ٹیلی وژن دیکھیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ ہمارے کیا مسائل ہیں اَور ہماری سوچ کس سمت میں چلتی ہے۔ ہماری وڈیوز اَور ٹی وی پروگرام جن چیزوں کے گرد گھومتے ہیں وہ یہ ہیں: سیاست، کھانا پینا، فیشن، دِینی مسائل، اِسلامی تارِیخ کے مسائل، سیر سپاٹا، پراپرٹی کا عروج و زوال، گاڑیاں اَور موٹر سائیکلیں وغیرہ۔ اِن پر باتیں کرتے، بحث مباحثے میں الجھتے ہی ہمارا سارا وقت اَور تمام توانائی ختم ہو جاتی ہے۔
پھر یہ کہ ہمارے دِینی مسائل بھی عجیب ہیں۔ میں آپ کو چند مثالیں دیتاہوں جن پر سوشل میڈیا یا ٹی وی پر بحث چلتی رہتی ہے۔ اونٹنی کا پیشاب حلال ہے یا حرام، روزے میں اِستنجاء کرتے ہوئے کیا اِحتیاط برتیں کہ روزہ نہ ٹوٹے، موبائل فون کو واش روم میں لیجانا درست ہے یا نہیں، ذوالقرنین کہاں کہاں گیا تھا، یاجوج ماجوج اِس دنیا میں ہیں یا کسی دوسرے سیارے پر، جو لوگ رفع یدین نہیں کرتے کیا وہ گزشتہ تمام نمازیں دوبارہ سے پڑھیں، تراویح سنت ہے، واجب ہے، نفل ہے یا بدعت، معرکہ کربلا میں ہیرو کون تھا اَور ولن کون، کوئی ولن تھا بھی یا نہیں، جنت کی حور کی کیا خصوصیات ہیں وغیرہ۔
یہ اور سیاست، کھانا پینا وغیرہ وہ تمام چیزیں ہیں جن کا اِس دْنیا اَور اِس کے نتیجے میں آخرت بہتر بنانے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ کسی ویڈیو یا پروگرام میں یہ زیر بحث نہیں آتا کہ فزکس، کیمسٹری، ریاضی، معاشیات، عمرانیات میں دنیا میں کیا ترقی ہورہی ہے۔ اگر پلوٹو کو ہمارے نظام شمسی سے نکال دِیا گیا ہے تو اس کی کیا وجہ ہے۔ پارٹیکل فزکس کس سمت میں ترقی کررہی ہے۔ کون کون سی نئی مرکب دھاتیں (alloy) بن رہی ہیں۔ ان کے کیا فوائد ہیں۔ دنیا میں خلائی ترقی کہاں پہنچ گئی ہے۔ کمپیوٹر کی کون کون سی نئی ٹیکنالیوجی آرہی ہیں۔
ہم ان باتوں سے بالکل بیبہرہ ہیں۔ نہ صرف بے بہرہ ہیں بلکہ ہمیں اِن میں کوئی دلچسپی ہی نہیں۔ ہمارے سیاسی اَور دِینی مسائل ہی حل نہیں ہوپارہے تو ہم نے مزید کیا سوچنا ہے۔ سیاست میں بھی ہم بالکل پاگل پنے کی حد تک پہنچ گئے ہیں۔ جو جسے درست سمجھتا ہے، جسے برا سمجھتا ہے اس پر پتھر پر لکیر کی طرح قائم ہے۔ یہی حال دِینی مسائل کا ہے۔ ہم سوچ سوچ کر نئے نئے فرضی مسائل پیدا کرتے ہیں اَور پھر ان کے حل کے لیے بحث مباحثوں میں الجھ جاتے ہیں۔ دوسری جانب دنیا روزانہ کے حساب سے ترقی کررہی ہے۔ ہم سے رمضان اَور عید کے چاند کا فیصلہ نہیں ہوپارہا اَور دنیا کے لوگ چاند پر لینڈ کرچکے ہیں۔
اِس سے بھی آگے بڑھ کر ہماری بدنصیبی یہ ہے کہ ہم فزکس، کیمسٹری کو کافروں کا علم سمجھتے ہیں۔ ہمارے نزدِیک دنیا میں ہمارے آنے کا مقصد نمازیں پڑھنا، روزے رکھنا اَور تسبیحیں پھیرنا ہے۔ خلائی ترقی، نئی نئی اِیجادات، مواصلات کی ٹیکنالوجی کی نئی جہتیں وغیرہ دراصل دْنیا میں گم ہوجانے کی باتیں ہیں اَور ایک مسلمان کو اِن سے بچنا چاہیے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارا وقت اَور وسائل وضو کے مسائل بنانے اَور بگاڑنے میں صرف ہوجاتا ہے جبکہ دنیا کے لوگ طاقت ور ہوتے چلے جارہے ہیں۔ اِس طاقت کو وہ ہم پر ہی اِستعمال کرتے ہیں۔ فلسطین، شام، عراق، افغانستان وغیرہ اِس کی روشن مثالیں ہیں۔ لیکن جو بات افسوس کی ہے وہ یہ ہے ہم پھر بھی نہیں سمجھ رہے۔ جب ہم پر قیامت ٹوٹتی ہے تو ہم وظائف کی تلاش میں چل پڑتے ہیں۔ ہم سوچتے ہیں کہ چونکہ ہم نے مسواک چھوڑ کر ٹوتھ برش اِستعمال کرنا شروع کردِیا ہے اِس لیے ہم پر اللہ تعالیٰ کا یہ عذاب آیا ہے۔
کیا آپ نے کبھی کوئی پاکستانی پروگرام یا ویڈیو دیکھی ہے جس میں اِس بات پر گفتگو ہو کہ دْنیا میں گزشتہ مہینے میں کون کون سی اچھی کتابیں شائع ہوئی ہیں؟ کن کتابوں کو اِس سال ایوارڈ ملا ہے؟ آج کل کون کون سے اچھے مصنف موجود ہیں؟ اچھی کتابیں حاصل کرنے کے لیے کیا کیا جائے؟ اب ہم دیکھتے ہیں کہ کتابوں کی دْکانیں بند ہورہی ہیں اَور ان کی جگہ جوتوں کی دکانیں، کھانے پینے کی دکانیں کھل رہی ہیں۔ ہم نے کتابیں پڑھنے کے بجائے بونگ پائے کھانے شروع کردیے ہیں۔
کیا مقتدر حلقوں سے کوئی اَندیشہ، کوئی پریشانی، کوئی بے چینی ظاہر کی جارہی ہے کہ قوم کدھر جارہی ہے؟ کیا اَیسا نہیں ہے کہ ہر کوئی اَپنی اَپنی دنیا میں مگن ہے؟ ہر ایک کا مطمع نظر اس کی اَپنی ذات یا زیادہ سے زیادہ اس کے قریبی لوگ ہیں؟ پاکستانی قوم کنویں میں گرے یا سمندر میں، اِس سے کسی کو کوئی غرض نہیں ہے۔ اِس سوچ، اِس اَندازِ فکر کا نتیجہ ہم دیکھ رہے ہیں۔ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے اَور ہمارے مسائل حل نہیں ہو پا رہے۔ اگر کوئی حل ہوجائے تو ہم نئے نئے مسائل خود سے گھڑ لیتے ہیں تاکہ سانس چلتی رہے۔
رمضان کے مہینے میں مساجدکے لاؤڈ اسپیکروں پر یوں اعلان ہوتا ہے ”روزے دارو، اللہ نبی کے پیارو، جنت کے حق دارو“۔ چنانچہ ہمیں یقین ہوگیا ہے کہ اگر ہم نے روزہ رکھ لیا تو جنت پکی ہوگئی۔ کوئی یہ نہیں بتاتا کہ جنت پر کسی کا اِستحقاق نہیں ہے۔ جنت محض اللہ تعالیٰ کی رَحمت اَور رضا سے ملنی ہے۔ کوئی یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ مجھے ہرصورت میں جنت میں جانا چاہیے۔ لیکن چونکہ ہم ازخود جنت کے حق دار بن چکے ہیں اِس لیے ہم نے مزید کچھ سوچنا، محنت کرنا، اپنی راتیں کالی کرنا ترک کردیا ہے۔ اب ہم صرف مرنے کے منتظر ہیں کہ اِدھر روح نکلے گی اَور ادھر ہم جنت میں لینڈ کرجائیں گے۔ اِس کے نتیجے میں قوم میں ایک خوفناک قسم کی بے عملی پیدا ہوگئی ہے۔
جن لوگوں نے تارِیخ کا مطالعہ کیا ہے وہ جانتے ہیں کہ جب تاتاری بغداد کے دروازے پر دستک دے رہے تھے تو وہاں کے مسلمان اِس بحث میں اْلجھے ہوئے تھے کہ مسواک اَور داڑھی کی لمبائی کیا ہونی چاہیے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ہلاکو خان نے شہر کی اِینٹ سے اِینٹ بجادی۔ لاکھوں مسلمان تہ تیغ کردیے گئے۔ دریائے دجلہ کا پانی کئی دِنوں تک سرخ رہا۔ جب ایک روز ہلاکو خان گھوڑے پر بیٹھ کربغداد میں نکلا تو ایک مسلمان عورت نے گھوڑے کی باگ پکڑ کر اس سے کہا کہ تم نے بہت ظلم ڈھایا ہے۔ تم پر اللہ کا عذاب ٹوٹے گا۔ اِس پر ہلاکو خان نے جو جواب دیا تھا وہ ہمارے لیے سوچنے کا مقام ہے۔ اس نے کہا ”مجھ پر کیا اللہ کا عذاب ٹوٹے گا۔ میں خود اللہ کا عذاب ہوں جو تم پر نازل ہوا ہے“۔ دیکھا جائے تو اس کی بات غلط بھی نہیں تھی۔ ہم دوبارہ سے اْسی بے عملی اور بے فکری کی زِندگی میں واپس چلے گئے ہیں۔ آج بھی ہمارے مسائل اسی طرح کے ہیں جیسے بغداد کے لوگوں کے تھے۔ دشمن آج بھی ہمارے چاروں طرف ہمارے دروازوں پر دستک دے رہا ہے۔ اس نے معاشی، سائنسی، تعلیمی لحاظ سے ہمیں اتنا کمزور بنادیا ہے کہ ہمیں سانس بھی بڑی مشکل سے آرہا ہے۔ اِس وقت اِس بات کی اشد ضرورت ہے کہ ہم قوم کی سوچ کے دھارے کو بدلیں۔ ٹی وی اَور سوشل میڈیا پر فضول اَور بیکار کے بحث مباحثوں کے بجائے جدید علوم، ٹیکنالوجی، معاشی ترقی کے میدانوں کی باتیں کریں۔ عوام میں کتابوں کی محبت پیدا کی جائے۔تعلیم کو عام کیا جائے۔ لوگوں کویہ باور کرایا جائے کہ تم لوگ جدھر جارہے ہو اس کا اَنجام سوائے تباہی کے اَور کچھ نہیں ہے۔
تبصرے بند ہیں.