کوئی سیاسی جماعت تنہا معاشی انقلاب برپا کر سکتی ہے؟

54

اس وقت انتخابی عمل کا باقاعدہ آغاز ہو چکا ہے تمام سیاسی جماعتیں متحرک ہیں اور ایک دوسری پر انگلیاں اٹھاتے ہوئے عوام کو مسحور کن خواب دکھا رہی ہیں یعنی مغربی ممالک کے لوگوں کو جو سہولتیں میسر ہیں ان کو ویسی سہولتیں دینے کے وعدے کر رہی ہیں۔ ان سے پوچھا جا سکتا ہے کہ اب جب غربت آکاس بیل کی طرح تیزی سے پھیلتی چلی جا رہی ہے اس سے کیسے چھٹکارا حاصل کیا جا سکے گا اور ملک پر جو قرضوں کی ایک دبیز تہہ جم چکی ہے اس کو ہٹانے کے لئے تو بہت کچھ کرنا پڑے گا اورکیا وہ اس کے لئے تیار ہیں مگر نہیں انہیں اقتدار سے تو دل چسپی ہے عوام کی فلاح و بہبود سے نہیں وہ صرف گونگلوؤں سے مٹی جھاڑ سکتی ہیں یعنی کوئی عارضی بندوبست تو کر سکتی ہیں مستقلاً نہیں جبکہ موجودہ صورت حال اس کی اجازت نہیں دیتی کہ ملکی معاملات ڈنگ ٹپاؤ پالیسی کے تحت چلائے جائیں اگر انہوں نے خلوص نیت کے ساتھ پیداواری ذرائع تخلیق نہیں کرنے اور قرضوں کے حصول کے لئے عالمی مالیاتی اداروں کی طرف ہی دیکھتے رہنا ہے تو معیشت کیسے اپنے پاؤں پر کھڑا ہوسکتی ہے۔ اب جب سیاسی جماعتیں اپنے جلسوں میں با آواز بلند رنگ برنگے وعدے کر رہی ہیں اورچند غیر پیداواری منصوبوں کو یاد کرا رہی ہیں تو بڑی حیرت ہوتی ہے لوگ کہتے ہیں کہ جب وہ ماضی میں کچھ نہیں کر سکیں تو اب کیسے دودھ کی نہریں بہا پائیں گی؟
سیاسی جماعتوں کے سربراہوں سے درخواست ہے کہ وہ ملک وقوم سے جب مخلص ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں ان کی بھوک افلاس سے پریشان ہیں تو انہیں چاہیے کہ وہ اس سرمائے کو جو انہوں نے محفوظ کر رکھا ہے میں سے ایک چوتھائی حصہ اپنے وطن کے خزانے میں رکھ دیں اس سے ہو گا یہ کہ ہمیں آئی ایم ایف سے نجات مل جائے گی اور لوگوں کے حالات قدرے بہتر ہو جائیں گے چلیں ایسا نہیں کرسکتے تو بتائیں کہ جیت کر کون سا ایسا مخفی خزانہ ہے جسے دریافت کر سکیں گے یا پھر ان کے پاس کوئی الہ دین کا چراغ ہے جسے رگڑنے سے جن بابا حاضر ہو کر پوچھے گا کہ کیا حکم ہے میری
سرکار اور سرکار کہے گی کہ پانچ دس ارب ڈالر کہیں سے لاؤ تووہ لے آئے گا۔
حقیقت یہ ہے کہ کوئی کچھ دینے کی پوزیشن میں نہیں سبھی آئی ایم ایف ایسے اداروں کے مرہون ہیں جس سے کبھی بھی خوشحالی نہیں آسکتی جو آئے گی وہ وقتی ہو گی اس کے بعد صورت حال خراب ہو جائے گی اب تک ملکی تاریخ سے یہی ثابت ہے مگر حیرانی یہ ہے اور دکھ بھی کہ ہماری سیاسی جماعتوں نے اس حوالے سے کبھی غور نہیں کیا کہ ملک کو کیسے مضبوط بنانا اور خوشحال کرنا ہے جب بھی غور کیا ذاتی آسودگی کے لئے کمیشن کھانے کے لئے اپنے عزیز و اقارب کو نوازنے کے لئے نتیجتاً مافیاز نے جنم لے لیا آج وہ اتنے طاقتور ہیں کہ اہل اختیار کو ان پر ہاتھ ڈالنے کے لئے کئی بار سوچنا پڑتا ہے۔حالت تو یہ ہے مگر سبز باغ مسلسل دکھائے جا رہے ہیں جس پر عوام ہنس دیتے ہیں وہ ان کی کسی بات پر یقین کرنے کو تیار نہیں۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ تمام جماعتیں مل کر ملک کو آگے لے جانے کے لئے منصوبہ بندی کرتیں انتخابات کو ایک طرف رکھ کر اسے قرضوں‘ غربت افلاس جہالت اور دیگر مسائل سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے ایک پلیٹ فارم پر کھڑا ہوتیں پھر انتخابی عمل کا آغاز کرتیں تو لوگ ان کے دعوؤں کے پیچھے چلنے میں فخر محسوس کرتے ان پر یقین کرتے۔اب ایسا نہیں مگر بس یہ خیال کیا جاتا ہے کہ کچھ نہ ہونے سے کچھ ہونا اچھا ہوتا ہے لہٰذا یہ جو چھوٹے موٹے عوامی اجتماع نظر آرہے ہیں اسی تناظر میں ہیں وگرنہ ہر کسی کو علم ہے کہ یہ بازو آزمائے ہوئے ہیں اور سٹیجوں پر کھڑے ہو کر تقریریں کرتے وقت لہرانے کے لئے ہیں۔ بہرحال ہر جماعت کی خواہش ہے کہ کوئی دوسری اس کے مد مقابل نہ ہو وہی اکیلی لڈیاں ڈالے اور آرام و سکون سے اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان ہو جائے اور دنیا اسے تسلیم کر لے مگر اب ایسا ممکن نہیں رہا کیونکہ وہ سب جان گئی ہے وہ اس جماعت کے قریب ہونے کو ترجیح دینے لگی ہے جو عوام کی بھر پور حمایت اور شفاف و صاف انتخابات کے ذریعے اختیارات کی باگ ہاتھ میں لے۔ دوسری جانب قرضہ دینے والے ادارے اور ممالک یہ پہلو بھی سامنے رکھنے لگے ہیں کہ حکمران طبقہ سماجی شعبے پر توجہ دے اور قرضے کے استعمال کا باقاعدہ حساب کتاب رکھے مگر اسے اس کی عادت ہی نہیں جبکہ قرضہ دینے والوں کے یہ بات وارے میں نہیں لہذا اب جب حکمرانوں کو قرضہ لینا ہوتا ہے تووہ ترلے منتوں پر اتر آتے ہیں۔ خیر اب قرضہ لینے کا یہ سلسلہ زیادہ دیر تک جاری نہیں رہ سکتا بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اب وہ ختم ہو رہا ہے کیونکہ قرضے لے کر بھی معیشت کی گاڑی کو رواں رکھنا مشکل ہی نہیں نا ممکن ہو رہا ہے اسی لئے ہی بڑے بڑے اداروں کو نجی تحویل میں دیا جانے لگا ہے سوال یہ ہے کہ قومی اثاثے بیچنے سے بھی مسائل حل نہیں ہوئے تو پھر کیا بیچیں گے؟ کوئی اس پہلو پر غور نہیں کر رہا ہر کسی کو انتخابات جیتنے کی پڑی ہوئی ہے۔ عوام پوچھیں کہ کامیابی کے بعد صنعتوں کا جال بچھ سکے گا۔ کیا خارجہ پالیسی کو آزادانہ بروئے کار لایا جا سکے گا کمیشن خوری پر قابو پالیا جائے گا۔مہنگائی مافیا کو قانون کی گرفت میں لاکر عوام کی دیرینہ خواہش کو پورا کیا جا سکے گا۔ملاوٹ کرنے والوں کو عبرت ناک سزائیں دلوائی جاسکیں گی اور اظہار رائے کی آزادی پر لگی قدغنیں ہٹائی جا سکیں گی؟
یہ جو سیاست کاری ہو رہی ہے اس میں دھوکا ہے فریب ہے ایک دوسرے کو عوام کی نگاہوں میں گرانے کے لئے ایسے ایسے ہتھکنڈے اختیار کیے جا رہے ہیں کہ کانوں کو ہاتھ لگانے پڑ رہے ہیں۔قابل غور بات یہ بھی ہے کہ پی ٹی آئی کو سکیڑا سمٹایا جا رہا ہے اس کے ووٹروں اور سپورٹروں کی انتظامیہ خوب خبر لے رہی ہے جو موجودہ شعوری دور میں کسی طور بھی ناقابل فہم ہے جو خطا وار ہے اس کے خلاف ضرور قانونی کارروائی ہونی چاہیے مگر جو بے قصور ہے اس کو سیاسی سر گرمیوں میں حصہ لینے کی پوری آزادی ہونی چاہیے بہر کیف سیاسی جماعتیں چار دن کے اقتدار کے لئے باہمی رنجشوں سے اجتناب برتیں ہمیں اس وقت متحد ہونے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ ہمارے اوپر بیرون سے بھی مشکلات آن پڑی ہیں۔ایرانی حملے پر ہمیں اپنی آنکھین کھول لینی چاہیں لہٰذا ہمیں ایک ہو کر دنیا کو دکھانا ہو گا اسی میں ہماری بقا و سلامتی ہے۔

تبصرے بند ہیں.