جیش العدل ایک ایرانی عسکری تنظیم ہے۔جس کا قیام ایرانی صوبے ”سیستان بلوچستان“میں 2012میں عمل میں آیا تھا۔ جیش العدل کا قیام دراصل گذشتہ چالیس سالوں سے ایرانی حکومت کی جانب سے روا رکھے گے معاندانہ رویوں و متعصبانہ پالیسوں کا نتیجہ تھا۔ جس کو دنیا سے چھپایا جارہا ہے۔ جیش العدل کا چیف عبدلمالک ریگی پاسداران انقلاب کے درجنوں اہلکاروں کے قتل میں ملوث تھا۔ آخر کار پاک سیکورٹی اداروں کے تعاون سے ہی فروری 2010 کو دبئی سے کرغستان جاتے ہوئے گرفتار کیا گیا۔جیش العدل کے سابق کمانڈر عبدالرؤف نے ایک دفعہ میڈیا سے بات کرتے ہوئے پاکستان سے اپنی نفرت کا کھل کر اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ”ہماری ہمدردیاں پاکستانی بلوچستان کے ان علیحدگی پسندوں کے ساتھ ہیں جو اپنے حقوق کے حصول کے لیے ہتھیار اٹھا کر اپنی حکومت و سیکورٹی اداروں کے خلاف لڑ رہے ہیں، کیونکہ وہ بھی ہماری طرح مظلوم ہیں“۔ حیرانگی اس بات پے ہوتی ہے جب ہمارا میڈیا (ایران) ہمیں زبردستی پاکستانی شہری بنانے پر تلا ہوتاہے۔ حقیقت ِ حال کچھ اس طرح ہے کہ پاکستان کی طرح ایران میں بھی ایک صوبہ ”سیستان بلوچستان“کے نام سے موجود ہے۔جو پاکستان کے صوبہ بلوچستان سے ملحقہ ہے۔لیکن بڑے دکھ کے ساتھ عرض کرنا پڑ رہا ہے کہ جب بھی ایرانی صوبے سیستان بلوچستان میں کوئی بھی چھوٹا بڑا واقعہ رونما ہوتا ہے۔تو پڑوسی ملک کا میڈیا انتہائی چالاکی و عیاری سے ان واقعات کو پاکستان کے بلوچستان سے نتھی کر کے دنیا بھر میں کچھ اس قسم کا تاثر دینے کی کوشش کرتا ہے کہ ان وارداتوں میں پاکستانی گروپس ملوث ہیں۔
ایران کی جانب سے کی گئی جارحیت کوئی نئی بات نہیں بلکہ یہ تو دہائیوں سے جاری ہے۔ بدقسمتی سے جس کا نشانہ اغیار نہیں بلکہ اپنے ہی بنے۔عراق و یمن کو تہ تیغ کرنے سے لیکر شام کو کھنڈرات میں تبدیل کرنے اور پاکستان میں فرقہ وارانہ فسادات تک۔ پاکستان میں پڑوسی ملک کی دہشت گردی نے اس وقت شدت اختیار کی جب ستمبر2021کو افغانستان میں طالبان نے عنان ِحکومت سنبھالی۔ تب تمام علیحدگی پسند بلوچ مسلح تنظیموں نے ایران میں پناہ لی۔ وہاں کی خفیہ ایجنسیوں کی چھتری تلے پاکستانی بارڈر سے ایران کی جانب سے 45کلومیٹر کے ا ندر اپنے دہشت گردی کے اڈے قائم کیئے۔ اس دوران تواتر کے ساتھ پاک سرحدی سیکورٹی فورس پر بیسیوں دہشت گردانہ حملے کئے۔ جس کے نتیجے میں درجنوں پاکستان سیکورٹی اہلکار شہید و زخمی ہوئے۔ لیکن آفرین ہے شہید ہونے والے جوانوں کے گھرانوں، حکومتوں اور سیکورٹی قیادتوں پر انہوں نے صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ تاکہ دشمنوں کو ہمارے اور ایران کے درمیان چپقلس پیدا کرنے کا موقع نہ مل سکے۔ لیکن افسوس! ایرانی حکومت نے اس صبر یوسف کو ہماری کمزوری سمجھا اور 17جنوری کو ننگی جارحیت کا ارتکاب کر دیا۔ اب پاکستان کا صبر کا پیمانہ چھلک چکا تھا۔خطے کے حالات کا تقاضا تھا کہ ایسا منہ توڑ جواب دیا جائے کہ ایرانی حکومت سمیت اس کے ظاہری و پوشیدہ اتحادیوں کے کان بھی کھڑے ہو جائیں۔ پاکستان کی جانب سے کی گئی جوابی کاروائی سے خطے میں ایرانی ملٹری ساکھ کو ایسا نقصان پہنچا کہ دنیا بھر میں ایرانی انتہا پسندانہ بیانیے کی جگ ہنسائی ہو رہی ہے۔
کتنی حیرت کی بات ہے ایرانی حکومت اپنے مسلح جتھوں سمیت پچھلے تین ماہ سے دھمکیاں تواسرائیل و امریکہ کو دے رہی ہے لیکن اپنی ننگی جارحیت کا نشانہ پاکستان کو ہی کیوں بنایا؟دراصل ایران اس جارحیت کی آڑ میں خطے میں پاکستان کے اتحادیوں کو ایک پیغام بھی دینا چاہتا تھا کہ جس پر تم نے تکیہ کیا ہوا ہے،جب چاہیے اس کو بھی ٹارگٹ کر سکتے ہیں۔ لیکن الٹی ہو گئیں سب تدبیریں۔غزہ کی غیر متوقع صورت حال یعنی طول ہوتی ہوئی جنگ، خطے میں بڑھتی ہوئی تنہائی کے احساس اور اندرون ملک بڑھتی ہوئی غیر مقبولیت کی وجہ سے ایرانی حکومت خاصی ڈپریشن کا شکار تھی۔ اوپر سے اپنے ہی تیار کردہ مسلح گروہوں کی جانب سے دن بدن دباؤ بڑھتا جارہا تھا کہ وہ کوئی جارحانہ کاروائی کرے۔ کیونکہ مسلم دنیا کا ان پر اعتماد تیزی سے ختم ہوتا جارہا ہے۔ایران کی بدقسمتی کہ اس نے بوکھلاہٹ میں اپنی جارحیت کا نشانہ پاکستان کو بنا ڈالا۔ لیکن پاکستان کی جانب سے فوری و جرآت مندانہ رد عمل نے ایرانی حکومت کے اشتعال انگیز اقدام کو لمحوں میں مٹی میں ملا دیا۔جس کی ایران کو بالکل توقع نہیں تھی۔ مبصرین کے مطابق پاکستان کی جوابی کاروائی کے بعد ایران کے پاس اب دو آپشن بچے ہیں۔ مسلم دنیا میں پھیلی ہوئی اپنی proxy کو سمیٹ کر ایک اچھے بچے کی طرح سکون سے رہے، اور عدم مداخلت کی پالیسی پر سختی سے کاربند ہو۔لیکن اس صورت میں مسلح ملیشیاؤں کے حوصلے ڈی مورال ہوں گے۔ جس سے ایران کو خطے سے اپنا بوریا بستر گول کرنا پڑے گا۔کیا ایران جس نے گذشتہ تیس سال کے دوران بیسیوں مسلح گروہ تیار کیے، کیا وہ محض ایک حملے کی نتیجے میں آسانی سے اپنے انتہا پسندانہ بیانیے سے دستبردار ہو جائے گا۔ خطے میں اپنی چو دھراہٹ کو قائم رکھنے اور مسلح ملیشیا ؤں کا مورال بلند رکھنے کے لیے ایران کے پاس تب آخری آپشن یہی بچتا ہے کہ وہ کوئی سخت رد عمل دے۔ جس کا خدشہ محسوس کیا جا رہا ہے۔ کیا اس صورت میں خطے میں ایک بڑا incident تو نہیں ہونے والا، جو پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا ۔ سب جانتے ہیں کہ خطے میں پاکستان کے کون کونسے اتحادی ہیں۔ بہرحال قوم کو ہر قسم کے حالات کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہنا ہو گا کیونکہ ”آپریشن طوفان الاقصیٰ ایک بہانہ ہے، غزہ ٹھکانہ ہے اور مسلم دنیا نشانہ ہے“۔
Prev Post
تبصرے بند ہیں.