صدر انتخابات کی تاریخ دے سکتے ہیں: چیف جسٹس، عارف علوی کی دی تاریخ پر الیکشن ممکن نہیں : اٹارنی جنرل ، سماعت شروع
اسلام آباد: پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات کے التوا پر سپریم کورٹ کا از خود نوٹس کیس کی سماعت شروع ہوگئی ہے ۔چیف جسٹس کی سربراہی میں 5رکنی بنچ سماعت کر رہا ہے۔ گزشتہ روز 4ججز کے الگ ہونے پر 9رکنی بنچ ٹوٹ گیا تھا۔
اسلام آباد: پنجاب اور خیبر پختونخوا (کے پی) میں انتخابات کی تاریخ کے تعین کے لیے سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کرنے والا 9 رکنی لارجر بینچ ٹوٹ گیا اور اب عدالت عظمیٰ کا 5 رکنی بینچ کیس کی سماعت کررہا ہے۔
گزشتہ روز سپریم کورٹ کے جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے علاوہ جسٹس اطہرمن اللہ اور جسٹس یحییٰ آفریدی نے بھی کیس سننے سے معذرت کرلی تھی ۔ پانچ رکنی بینچ میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال ، جسٹس منیب اختر، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال مندوخیل شامل ہیں۔
پیر کو سماعت کے دوران اپنے ریمارکس میں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ پارلیمان نے الیکشن ایکٹ میں واضح لکھا ہے کہ صدربھی الیکشن کی تاریخ دے سکتے ہیں، اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد 13 اپریل کو انتخابات لازمی کرانے کے 90 دن ختم ہوں گے۔
اس موقع پر اٹارنی جنرل آف پاکستان نے کہا کہ صدرکی جانب سے دی گئی تاریخ پر الیکشن ممکن نہیں ۔ کسی صورت بھی 25 اپریل سے پہلے انتخابات نہیں ہو سکتے ۔ 2008 میں بھی انتخابات کی تاریخ آگے گئی تھی اگر آج بھی الیکشن کا اعلان کریں گے تو 90 دن کی حد پر عمل نہیں ہوسکتا۔ اس پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ وہ تو قومی سانحہ تھا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آئین کی کوئی ایسی شق نہیں جو انتخابات میں90 دن سے زائد تاخیر کا جواز دے ۔ الیکشن کی تاریخ آئے گی توہی فیصلہ ہوگا کہ اس وقت انتخابات ہوسکتے ہیں یا نہیں ۔ پورا مہینہ اس بات پر ضائع کردیا کہ گورنر نے مشاورت کا کہا ہے۔
بینچ کے رکن جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ اگرملک کے پاس انتخابات کرانے کے پیسے نہ ہوں توکیا ہوگا؟ بینچ کے ایک اور رکن جسٹس منیب اختر نے کہا کہ تعجب ہے ملک بھرمیں کرکٹ میچز کرانے کے پیسے ہیں لیکن انتخابات کیلئے نہیں،کیسے ہوسکتا ہے کہ اس بنیاد پر انتخابات نہ ہوں کہ پیسے نہیں ہیں؟
تبصرے بند ہیں.