اس میں کوئی شک نہیں کہ پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں نوّے دن کے اندر الیکشن ہونا آئین کا تقاضا ہے، اور دونوں صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد الیکشن کی تاریخ کا اعلان کرنا گورنر حضرات کی آئینی ذمے داری تھی جو پوری نہیں کی گئی، آئین میں واضح طور پر لکھا ہے کہ اگر صدر پارلیمنٹ کے منظور شدہ کسی قانون پر دستخط نہیں کرتا تو اگر اسی قانون کو پارلیمنٹ من و عن اسی طرح پاس کر دے تو صدر اس پر دستخط کرنے کا پابند ہو جاتا ہے وگرنہ دس دن کے بعد یہ تصور کر لیا جائیگا کہ صدر نے اس قانون پر دستخط کر دئیے ہیں اور یوں وہ قانون بن جائیگا۔ یہی صورت حال صدارتی آرڈیننس کی ہوتی ہے جس پر اگر صدر دستخط نہ بھی کرے اور کابینہ اسی آرڈیننس کو من و عن دوبارہ منظور کر لے تو وہ بھی دس دن بعد از خود ہی ”صدارتی آرڈیننس“ تصور ہو گا، اس اصول کے تحت صوبائی اسمبلی کی تحلیل کے مشورے پر اگر گورنر دو دن تک دستخط نہیں کرتا تو بھی دو دن بعد صوبائی اسمبلی از خود تحلیل ہو جاتی ہے اور آئینی طور پر یہ تصور کیا جاتا ہے کہ گورنر نے اسمبلی تحلیل کر دی ہے۔ اور ایسے میں تاریخ کا اعلان بھی گورنر کو ہی کرنا ہوتا ہے، یہ فرق ہے آئین کا لفظی ترجمہ کرنے میں جسکے مطابق بظاہر اسمبلی دو دن بعد خود ہی ٹوٹ گئی اور آئین کی تشریح کرنے میں جسکے مطابق اسے گورنر کی طرف سے تحلیل شدہ اسمبلی تصور کیا جائیگا، اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ جانتے بوجھتے ہوے بھی حکمران اتحاد نے آئینی طور پر غلط موقف کیوں اپنایا اور گورنر حضرات نے دو صوبوں میں الیکشن کی تاریخ کیوں نہ دی- اسکے پیچھے سیاسی، آئینی اور قانونی پیچیدگیاں ضرور ہیں جن کو دیکھتے ہوئے سپریم کورٹ نے اب فیصلہ دینا ہے-
سیاسی طور پر دیکھا جائے تو عمران خان مزاحمت کا وہ استعارہ بن کر طاقت ور اسٹیبلشمنٹ کے سامنے کھڑے ہیں جو صرف دو سال پہلے تک نواز شریف اور مریم نواز تھے- اسٹیبلشمنٹ نے اپنے نام نہاد اداراتی و مالیاتی مفادات کے باعث انسدادِ کرپشن کے نام پر عمران خان کی اپوزیشن کے ٹانگیں بازو توڑے اسے آج اْسی لولی لنگڑی اپوزیشن کو اقتدار میں بیٹھا کر اسکے پیچھے چھپنا پڑ رہا ہے، عمران خان اسٹیبلشمنٹ اور ہمارے سیاسی نظام کی وہ ہڈی بن چکی ہے جو اْگلے بھی نہیں جا رہی اور نگلے بھی نہیں جا رہی، گلی محلے میں خان کی مقبولیت اسٹیبلشمنٹ اور حکمران اتحاد دونوں کو جلد الیکشن کرانے سے روک رہی ہے، مگر پھر جس طرزِ سیاست کی پیداوار خود عمران خان ہیں اسکے مطابق تو اب دو صوبوں میں الیکشن کی تاخیر پر انکا دھاڑیں مارنا بنتا نہیں ہے، جس طرح کی سیاست وہ کر رہے تھے اور ہیں اسی طرح کی سیاست موجودہ حکمران کر رہے ہیں اور شاید مستقبل میں کرینگے، خان صاحب بھی اپنے وقت میں فیض یاب ہوتے رہے اور اب ن لیگ اپنے وقت میں باجوو (بوزن باوجوہ) اقتدار کے مزے لے رہی ہے، آپ خود بھی تو ایک پیج والے اس ٹرک کے ڈرائیور رہے ہیں جسکے پیچھے آپ نے لکھ رکھا تھا ”پاس کر یا برداشت کر“ تو اب کریں برداشت جناب۔ کوئلے کے دلالوں کو اپنا منہ کالا ہونے کا افسوس نہیں ہونا چاہئے، آزادئی رائے اور بنیادی حقوق کے برخلاف آپ کے کارکنوں کے ساتھ حالیہ سلوک یقیناً قابل مذمت ہے مگر آپکے منہ سے اس پر احتجاج کی منافقت بھی ناقابلِ برداشت ہے، تو جناب دو صوبوں میں الیکشن کی تاخیر سیاسی اعتبار سے حکمران اتحاد کی ایک قابل فہم حکمت عملی لگتی ہے، آخر آپ نے بھی تو آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات ناکام بنانے کے لئے قوم سے بے وفائی کی تمام حدیں پار کی تھی اور اس کو سیاست کا نام دیا تھا-
اب رہ گئی بات کہ آئین اور قانون میں حکمران اتحاد کے مؤقف کی کتنی گنجائش ہے، تو جناب اس کا فیصلہ خوش قسمتی یا بد قسمتی سے ہماری انہیں عدالتوں نے کرنا ہے جسکے کچھ فیصلوں سے خانصاحب اتفاق کرتے ہیں اور کچھ سے نہیں، جیسے کے پہلے ذکر ہو چکا ہے کہ بظاہر گورنر حضرات کو الیکشن کی تاریخ دینی چاہئے تھی مگر اب جبکہ ایک حکومت نے اس معاملے میں کچھ آئینی پیچیدگیوں کی نشاندہی کر دی ہے تو اسکے ذمے دار کیا خود عمران خان نہیں؟ موجودہ آئینی سیٹ اپ میں پہلی بار سب سے بڑے صوبے کی اسمبلی قبل از وقت توڑنے کا فیصلہ کیا گیا، یہ وہ صوبہ ہے جہاں سے منتخب ہونے والے اراکین قومی اسمبلی آئندہ ویر اعظم کے انتخاب میں سب سے اہم کردار ادا کرتے ہیں، آئین میں نگران حکومتوں کو متعارف اس لئے کرایا گیا تھا کہ جو بقول عمران خان نیوٹرل ایمپائر کا کردار ادا کرتیں ہیں، اب اگر پنجاب میں الیکشن ہوتے ہیں تو وہ مخالفین کی وفاقی حکومت کے ہوتے ہوئے انتخابی نتائج قبول کرینگے؟ یہ خان صاحب بھی تسلیم کرتے ہیں کہ قومی اسمبلی تحلیل کرنے کا آئینی حق عمران خان کے پاس نہیں شہباز شریف کے پاس ہے، تو پھر الیکشن کمیشن کے صاف اور شفاف الیکشن کرانے کے آئینی اختیار کے تحت کیا وہ وفاقی حکومت کو معطل کر دے؟ اور پھر کچھ عرصے بعد قومی اسمبلی کے جنرل الیکشن ہوں تو کیا صوبوں کی منتخب حکومت کو بھی معطل کیا جائے گا؟ نگران حکومت جیسی آئینی بدعت کا مقصد ہی الیکشن میں حکومتی اختیارات و وسائل کے استعمال کو روکنا تھا مگر اس نگرانی کے نظام کو لانے والے بیوقوفوں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ آئینی طور پر صوبائی اور قومی اسمبلیوں کی تحلیل اور پھر تاریخ کا اعلان مختلف اوقات میں بھی کیا جا سکے گا اور ایک بار صوبوں اور وفاق میں الگ الگ وقت کے الیکشن ہو گئے تو پھر جس ملک نے کل دیوالیہ ہونا ہے وہ آج ہی ہو جائیگا، یہ کوئی پی ٹی آئی، ن لیگ یا پیپلز پارٹی کی جماعتوں کے اندرونی انتخابات نہیں جو چند سال بعد چند دیگوں یا بریانی کی پلیٹوں پر بھگتا دئیے جاتے ہیں، ایسے میں الیکشن کمیشن جیسے آئینی ادارے کا کردار بھی بڑھ جاتا ہے جس کو آئین کے تحت صاف اور شفاف انتخابات کروانے کے لئے لامحدود اختیارات دیئے گئے ہیں، انہیں اختیارات کے تحت کیا الیکشن کمیشن از خود یا گورنروں کی طرف سے دی گئی کسی تاریخ کے باوجود بھی کوئی ایسی تاریخ دے سکتا ہے جس روز وفاق اور صوبوں میں ایک ساتھ الیکشن کر دیئے جائیں؟ اس کا جواب بھی سپریم کورٹ نے تلاش کرنا ہے-
اب آ جاتے ہیں سپریم کورٹ کے سو موٹو نوٹس کی طرف، اگر حکومت یہ سمجھ رہی ہے کہ آئین کی نوّے دن میں الیکشن متعلق واضح ہدایات پر عمل بھی نہیں کرنا اور عدالت کو بھی اس کا نوٹس نہیں لینا چاہئے تو یہ ایک احمقانہ سوچ ہو گی، اس آئینی خلا کو کسی خلائی مخلوق نے نہیں عدالتی مداخلت نے ہی پر کرنا تھا، اس میں کوئی شک نہیں کہ آئین میں کسی مخصوص کام کے لئے مختص مخصوص مدت میں وہ کام نہ کیا جائے یا جا سکے تو اسکے لئے بھی آئین میں کسی حد تک گنجائش ضرور ہے اور عدالت کو بھی اس گنجائش پر رائے دینا ضروری ہو گا، مگر اس سارے معاملے میں سپریم کورٹ کی مداخلت قابل اعتراض نہ سہی مشکوک ضرور ہو گئی ہے، اگر چیف جسٹس عمر عطا بندیال سترہ میں سے پندرہ ججوں کی موجودہ سپریم کورٹ میں سے اپنی ذاتی پسند یا نا پسند کی بجائے تمام پندرہ ججوں پر مشتمل فْل کورٹ بنا دیتے تو شکوک شبھات نہ پیدا ہوتے، ایک منتخب وزیر اعظم کے اختیارات کو اس(صفحہ 4پر بقیہ نمبر1)
کی کابینہ کی مشاورت سے مشروط کرنے والی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس صاحبان مفاد عامہ میں از خود کارروائی کے آئین میں درج ”سپریم کورٹ کے اختیارات“ کو اپنی ذات تک کیسے محدود کر سکتے ہیں؟ اور پھر یہ ذاتی فیصلہ کرنا کہ سترہ ججوں میں کتنے اور کون کون سے جج کس کیس میں آئین کی تشریح کرینگے، کیا یہ میچ فکسنگ نہیں؟ اور الیکشن تاریخ متعلق از خود کارروائی کے لئے تشکیل کردہ بنچ میں کس سوچ کے حامل کتنے جج شامل کرنا ہیں، کیا یہ جوڈیشل انجینئیرنگ نہیں؟ چیف جسٹس کے بعد سینئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو اور ان کے ایک اور ساتھی جسٹس سردار طارق مسعود کو ہمیشہ کی طرح بنچ سے باہر رکھنا کونسا روحانی اختیار ہے جس پر سوال نہیں اٹھایا جا سکتا، اور اس پر ستم ظریفی دیکھیں کہ پانامہ کیس میں متنازعہ عدالتی فیصلے دینے والے اور اس میں نگران محقق مقرر ہونے والے جسٹس اعجاز الاحسن کو بھی شامل کیا گیا ہے، ہائی کورٹ میں سینیارٹی کو پامال کر کے سپریم کورٹ میں تعینات کئے گئے جسٹس منیب اختر، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کو بھی اس کرکٹ ٹیم میں ڈالا گیا ہے جس کے کپتان خود چیف جسٹس عمر عطا بندیال ہیں۔ بظاہر پانچ چار کی اکثریت کا فیصلہ بنچ کی تشکیل کے ساتھ ہی آ گیا ہے، یوں تو راقم نے آغاز میں ہی الیکشن کی تاریخ میں تاخیر کو آئین کی خلاف ورزی تصور کیا تھا مگر آئین کے اندر ایسی مخصوص خلاف ورزی کے آئینی کفارے پر کم از کم غور بھی کرنا موجودہ بنچ کی اکثریت کے بس کی بات نہیں لگتی، مذکورہ پانچ معزز ججوں میں سے چار وہ حضرات ہیں جنہوں نے پارٹی وفاداریاں تبدیل کرنے والوں کی ووٹ شمار نہ کرنے والی آئینی تشریح کی تھی اور اس کو آئین کی روح قرار دیا تھا جس کے بعد پنجاب میں ن لیگ کی حکومت چلی گئی تھی، سپریم کورٹ میں جسٹس فائز عیسیٰ اور عمران خان مخالف جماعتوں کیخلاف عدالتی فیصلوں میں مذکورہ ججوں کا ہی زیادہ کردار رہا ہے، ہم آج تک ”اکثریتی فیصلوں“ کے بارے میں تو سنتے رہے ہیں مگر اِس نو رکنی بنچ کو ایک ”اکثریتی بنچ“ کہنا بھی غلط نہ ہو گا۔
مشہور مقولہ ہے کہ انصاف صرف ہونا نہیں بلکہ ہوتا نظر بھی آنا چاہئے، بدقسمتی سے پچھلے چھ سال میں اسٹیبلشمنٹ نے عدلیہ کو استعمال کر کے جس طریقے سے پانامہ کیسوں کے فیصلے کروائے (اور پھر ختم بھی کروائے) اس سے ان کیسوں کے اصل شواہد بھی پس منظر میں چلے گئے، انہی فیصلوں کے باعث سپریم کورٹ میں موجود آج کچھ معزز ججز صاحبان اپنے مستقبل کے بارے میں عدم تحفظ کا شکار ہیں، انہیں خوف ہے کہ آٹھ ماہ بعد اگر جسٹس فائز عیسیٰ چیف جسٹس بنتے ہیں تو وہ انہیں عدالت کے کٹہرے میں لا کھڑا کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں، ماضی قریب میں اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ نے ملک کے سیاسی عمل کے ساتھ جو کھیل کھیلا اس کھیل کے آئینی آڈٹ کی بنیاد فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے میں رکھ دی گئی ہے، اس فیصلے میں جسٹس فائز عیسیٰ اور جسٹس مشیر عالم پر مشتمل دو رکنی بنچ نے سیاسی سرگرمیوں میں ملوث فوجی اہلکاروں کے خلاف حکومتی کارروائی کے احکامات دئیے گئے تھے جن پر آج تک عمل نہیں ہوا، اس حوالے سے حکومت اور وزارت دفاع کی نظرثانی درخواستیں ابھی زیر التوا ہیں، جنرل باجوہ، جنرل فیض، ثاقب نثار، آصف کھوسہ، اور موجودہ نو رکنی بنچ کے چند اراکین اس ممکنہ احتسابی ریلے کے آگے بند باندھنے کی تیاری میں ہیں، ان کے دماغ میں بچنے کا واحد راستہ عمران خان کو جلد الیکشن کی تاریخ دینا ہے، کپتان کی طرح انکا بھی عقیدہ ہے کہ دو تہائی اکثریت جلد الیکشن میں ہی مل سکتی ہے جسکے بعد جسٹس فائز عیسیٰ کو آئینی طور پر بے اختیار کر کے خود کو ”آئینی آڈٹ“ سے بچایا جا سکتا ہے۔ نیب ترامیم کیس میں موجودہ قومی اسمبلی کی تشکیل اور اکثریت پر سوال اٹھانے والے معزز چیف جسٹس کو اپنی نامکمل سپریم کورٹ پر بھی توجہ دینی چاہئے، اسمبلی میں نیب ترامیم کی اکثریت سے منظوری کو اسمبلی اراکین کے ذاتی مفاد سے منسوب ہونے کا امکان ظاہر کرنے والے قاضیِ اعظم کو سپریم کورٹ میں تعیناتیوں اور پھر اس نو رکنی بنچ کی تشکیل میں بھی ذاتی مفاد کے تاثر کو دور کرنا چاہئے، اگر سیاستدان اسمبلی میں اکثریت اکثریت نہیں کھیل سکتے تو پھر چیف جسٹس کو بھی کسی بنچ کی تشکیل میں اکثریت اکثریت کھیلنے کا کوئی حق نہیں۔ بنچ بنانے کا اختیار چیف جسٹس کا ضرور ہے مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ لوگ ججوں کے نام پڑھ کر خود ہی فیصلہ سنا دیں۔
مطیع اللہ جان
تبصرے بند ہیں.