نیپلز یونی ورسٹی میں ایک گفتگو

49

مجھے خوشی ہے کہ میں ماضی کی سلطنت روم کے ایک اہم شہرنیپلزمیں ہوں۔ دنیاکے موجودہ منظرنامے اور یورپی تہذیب و ادب کے مطالعے میں سلطنت روم اور موجودہ اٹلی کی اہمیت کو نظراندازنہیں کیاجاسکتا۔یہ امرشایدبہت سے حلقوں کے لیے  انکشاف انگیزہو کہ اٹلی میں اردوکی تدریس کاسلسلہ اب تیسری صدی میں داخل ہوچکاہے ۔یوں تو زبانوں کی تدریس کا تعلق تعلیم و تحقیق کی دنیاسے ہوتاہے لیکن اس کے پس پردہ تجارتی مقاصداوردوسرے عمرانی پہلوبھی کارفرماہوتے ہیں۔اٹلی میںاردوکی تدریس کاآغاز ابتدائی طورسے مذہبی مقاصدسے ہوالیکن بعدازاں اس میں دوسرے مقاصد بھی شامل ہوتے چلے گئے یہاں تک کہ اٹلی میں تدریس ِاُردوکا دائرہ وسعت پاکرتین شہروں اورتین یونی ورسٹیوں تک پھیل گیا۔ نیپلز یونی ورسٹی اس سلسلے میں قدیم ترین ادارے کی حیثیت رکھتی ہے، جہاں آج مجھے ادارئہ علوم شرقیہ دیکھنے کی سعادت حاصل ہورہی ہے ۔اس کے علاوہ ٹیورن یونی ورسٹی اور روم یونی ورسٹی میں بھی اردوکی تدریس کاچراغ روشن رہاہے ۔دورحاضر میںجب کہ اردوکے تدریسی اور تحقیقی دوائر میں غیرمعمولی وسعت پیداہوچکی ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ اردوکے بین الاقوامی روابط کو فروغ دیاجائے اورپاکستانی طالب علموں، محققین اور اسکالرزکو ترقی یافتہ دنیامیں تدریس و تحقیق اردو کے امکانات سے آگاہ کروایاجائے تاکہ مستقبل کے محققین مقامی تنگنائے سے نکل کر عالمی آفاق کو چھونے میں کامیاب ہوسکیں۔آج میرے یہاں آنے اور آپ حضرات کی خدمت میں حاضری دینے سے میرے پیش نظر جو مقاصد ہیں ان میں میری یہ خواہش کارفرماہے کہ میں اٹلی کی جامعات میں تدریس اردوکی تاریخ دریافت کرسکوںاور واپس جاکراٹلی میں اردوکی تدریس سے وابستہ اساتذہ کے بارے میں اردودنیاکو آگاہ کرسکوں۔اٹلی سے شائع ہونے والی اردو مطبوعات سے تعارف بھی میرے ارادوں میں شامل ہے نیزاٹلی میں اردواور اطالوی زبان کے باہمی رشتوں کے حوالے سے کیے جانے والے کاموں کا جائزہ بھی لیناچاہتاہوں تاکہ اردوکے ذریعے پاکستان اور اٹلی کے روابط میں استحکام کی راہیں تلاش کی جاسکیں۔
اردوادب سے واقفیت رکھنے والے جانتے ہیں کہ اردوکے ادیبوں نے اپنے سفرناموں کے
ذریعے اٹلی اور اردو کے باہمی تعلق کے دوائر میں وسعت پیداکی ہے لیکن یہ سلسلہ بہت محدودرہاہے ۔میرے پیش نظر جہاںاٹلی کی یونی ورسٹیوں میں تدریس اردوکے ماضی کی تفصیل اور مستقبل کے امکانات تلاش کرناہے وہاں ان پہلووں کی دریافت بھی ہے  اردوسفرناموں کے صفحات ہنوزجنھیں منکشف نہیں کرسکے ہیں۔نیپلز یونی ورسٹی میں اب سے پہلے جو اساتذہ تدریس اردوکی خدمت انجام دے چکے ہیں میں ان سب کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے اس سلسلے میں بیش از پیش پیش رفت کا خواہاں ہوں۔
آج مجھے یہ جان کر حیرت ہوئی کہ یہاں ماضی میں تدریس اردوکی خدمت انجام دینے والے اساتذہ کی خدمات سے عمومی بے خبری پائی جاتی ہے۔جب کہ میں لاہورمیں رہتے ہوئے اس یونی ورسٹی اور اس کے وابستگان کی اردوخدمات کا مداح ہوں ۔میں جب بھی قائم چاندپوری کا دیوان یا اس کا تذکرہ مخزن نکات دیکھتاہوں جب کبھی مجھے قلندربخش جرات کا دیوان دیکھنے کی ضرورت پیش آتی ہے یامغل دورزوال اور اردوادب کا انتساب اپنی جانب متوجہ کرتاہے تومیری لوح خیال پر نیپلزیونی ورسٹی ہی کا نقش ابھرتاہے ۔جہاں رہ کر پروفیسربائوسانی جیسے محقق نے اردو کا چراغ روشن رکھاہے اورمیں سمجھتاہوں کہ یہ بھی پروفیسر بائوسانی ہی کا کریڈٹ ہے کہ وہ ڈاکٹر اقتداحسن جیسے محقق کو یہاں لائے جنھوںنے محسن لکھنوی ،قائم چاندپوری اور جرات جیسے کلاسیکی اساتذہ کی جانب توجہ مبذول کی اور یہاں رہ کر اس حوالے سے وہ کام انجام دیاجو لاہور یا دہلی میں نہیں ہوسکاتھا۔ کلاسیکی ادب کے ساتھ تعلق کے باعث میری نگاہوں میں ان کاموں کی   بہت اہمیت ہے۔ میں جب اٹھارویں صدی کے شاعر میرسوزپر کام کررہاتھاتو ان کے ایک اہم معاصرکے طورپر باربارقائم کا’’مخزن نکات‘‘ دیکھاکرتاتھااسی تذکرے کے ایک جملے ’’لختی از موسیقی آگاہ‘‘سے یہ معلوم ہوتاہے کہ میرسوزکو موسیقی سے بھی شغف تھا۔سوزکے درست سال وفات سے آگہی کے لیے جرات کا کہاہوا قطعہ تاریخ بھی اہم ہے جس کے مطابق سوزکی وفات کی خبرنے دل کو شمع کی طرح جلاڈالا،لطف ِریختہ گوئی جاتارہا، ادابندی ختم ہوگئی اور سخن میں لطف باقی نہ رہا۔
کہی جرات نے روکے یہ تاریخ
داغ اب سوز کا لگا دل کو
(۱۲۱۳ھ)
یہی نہیں سوانح سوزکے سلسلے میں جرات کے کلام سے ایک اور نہایت اہم اطلاع سوزکے جواں مرگ بیٹے سیدمحمد میر مہدی داغ کی تاریخ وفات کی بھی ملتی ہے جس کا انتقال سوزکے حین حیات ۱۲۰۴ھ میں ہوا اور جرات نے اس کی وفات کو پر باغ جہاں کو بدترازدشت قراردیتے ہوئے کہا     ؎
جرات اس کی ہے یہ تاریخ وفات
سیدمہدی کا ہے ہے داغ ہے
کلیات جرات کی تین خوب صورت جلدیں، کلیات قائم اور مخزن نکات کی تدوین کی طرح ڈاکٹر اقتداحسن صاحب کا کارنامہ ہیں ۔ڈاکٹر اقتداحسن ۱۹۵۹ء سے ۱۹۷۹ء تک نیپلزیونی ورسٹی کے اورینٹل انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ رہے ۔ان کا بنیادی تعلق تو کراچی یونی ورسٹی سے تھا جس سے وہ ۱۹۷۵ء میں ریسرچ اسکالر کی حیثیت سے وابستہ ہوئے ۔دوسال بعدوہ  اٹلی چلے آئے ۔یہاں سے پروفیسر ڈبلیوسی سمتھ کی دعوت پر ریسرچ ایسوسی ایٹ اور لینگوایج ایکسپرٹ کے طورپر میک گل گئے۔ ۔ایک سال وہاں رہنے کے بعداورینٹل اسٹڈیزکے پروفیسرکی حیثیت سے واپس نیپلزآگئے جہاں ۱۹۷۹ء تک مقیم رہے ۔اس طویل قیام کے دوران میں انھوں نے اردووہندی زبان وادب ،السنہ وادبیات ِپاکستان،ادبیات فارسیِ پاک و ہند، پروفیسرانچارچ شعبہ تاریخ ہند، ڈائریکٹر اردو ادبیات و تاریخ پاک وہندکی مختلف حیثیتوں سے یہاں خدمات انجام دیں ۔ان کی نگرانی میں چالیس کے قریب پی ایچ ڈی اسکالرزنے اپنے تحقیقی منصوبوں کی تکمیل کی ۔ انھیں روم یونی ورسٹی نے پہلی بار ۱۹۶۵ء تک کے تحقیقی کام پر اور دوسری بار ۱۹۶۶ء سے ۱۹۷۳ء تک کے تحقیقی کام پر ۱۹۶۷ء اور ۱۹۷۳ء میںدوباراسٹیٹ ڈاکٹریٹ یعنی ڈاکٹر آف لٹریچر(Lit. D) کی ڈگری دی ۔وہ اردو، عربی، فارسی، ہندی، انگریزی اطالوی، ہسپانوی، فرانسیسی زبانوں سے واقف تھے اورانھیں۱۹۶۴ء میں رائل ایشیاٹک سوسائٹی لندن نے اپنافیلو منتخب کیا۔آپ کے ادارے کے ایک اہم خدمت گارکے طورپر آج ڈاکٹر صاحب کو یادکرکے میں مسرت محسوس کررہاہوں اور آپ کی لائبریری میں ان کی کتابوں کو نہ دیکھ کر مجھے تاسف کاجواحساس ہواہے میں واپس جاکر ان شاء اللہ اس کاتدارک بھی کروں گا۔
لاہور واپس آکر راقم نے حسب ارادہ ڈاکٹر اقتداحسن صاحب کی کتب کا ایک سیٹ نیپلز یونی ورسٹی کی لائبریری کو بھجوایاجس کی وصولی پریونی ورسٹی کے وائس چانسلر نے راقم کو شکریے کا پیغام بھیجا۔

تبصرے بند ہیں.