اطاعت کی حقیقت!!

115

اطاعت میں برکت ہے۔ معصیت— عافیت اور برکت چھین لیتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اطاعت جسم کرتا ہے یا دل؟ اگر یہ دل ہے تو کون سا دل ہے؟؟ سوال یہ ہے کہ اطاعت عقل کے ذمے ہے یا پھر یہ قلب ہے ، جس کا وظیفہ اطاعت ہے۔ کیا عقل اطاعت کی راہ میں رکاوٹ ہے؟؟
دراصل قلبِ سلیم عقلِ سلیم کی ضمانت ہے، اور عقلِ سلیم کے لیے اطاعت کوئی رکاوٹ نہیں بنتی۔ عقلِ سلیم وہ ہے جسے راہِ تسلیم میں کوئی دقت پیش نہ آئے۔ سوال یہ ہوا کہ عقل کو عقلِ سلیم کیسے بنایا جائے؟ بات سادہ ہے— لیکن مشکل یہ ہے کہ بات جتنی سادہ ہو اسے ماننا اتنا ہی دشوار ہوتا ہے،اور پھر اس پر عمل کرنا اس سے کہیں دشوارتر ہوتا ہے— جب عقل اپنی کم مائگی تسلیم کر لیتی ہے تو سلیم ہو جاتی ہے— تب یہ اپنے سے بہتر کسی انسان کو تسلیم کر لیتی ہے، خود کو عقلِ کل نہیں مانتی ، زعمِ آگہی اس سے کافور ہو جاتا ہے۔ جب عقل اپنی انا کا خول توڑ کر باہر آتی ہے تو اپنے وجود اور وجودی مفادات سے باہر جھانکنے کی اہلیت حاصل کر لیتی ہے، وگرنہ یہ اپنے ہی ذاتی اور گروہی مفادات کی نگہبانی اور وکالت میں مصروف رہتی ہے— اپنی انا کے مرکزی نقطے کے گرد طواف کرتی ہے اور خود کو پاک باز اور اطاعت گزار تصور کرتی ہے۔ جب عقل خود کو کسی دوسرے انسان کے قلب کی متابعت میں لے آتی ہے تو اس کا سجدہِ تسلیم قبول ہو جاتا ہے۔ جب تک دل کسی اور دل سے متعلق نہ ہو جائے، خود کو دریافت نہیں کر پاتا، اپنی خواہشِ نفس کو دل کا نام دیتا ہے۔ حدیثِ دل اور حدیثِ نفس میں تمیز تب میسر آتی ہے جب انسان کا دل دلبر کی چوکھٹ پر سرنگوں ہوجائے۔
اطاعت کسی قانون کو تسلیم کرنے کا نام نہیں، بلکہ قانون بنانے والے کو ماننے کا نام ہے۔ فطرت اور فطرت کے قوانین مان لینے کو تسلیم نہیں کہتے، بلکہ فاطر کی ذات کو ماننے کا نام تسلیم ہے۔ اطاعت تسلیم کے بعد شروع ہوتی ہے۔ تحقیق کرنے والا تسلیم کرنے سے گریزاں ہو سکتا ہے۔ تحقیق فطرت کی مطلوب ہے اور تسلیم فاطر کی! اگر قوانین کی پاسداری ہی اطاعت کہلائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ اور رسولؐ کی باغی اقوام قوانینِ فطرت کی اطاعت میں منہمک ہیں۔ سائنس فطرت کی تحقیق کا کلیہ ہے—اقوامِ مغرب کے ہاں سائنس کے قوانین کو جس سبک رفتاری سے استعمال کیا جا رہا ہے اور ان کے ذریعے مادے پر تصرف جس قدر سرعت سے جاری و ساری ہے وہ تاریخِ انسانی میں فقید المثال ہے، لیکن بحیثیتِ مجموعی ان اقوام میں اجتماعی طور اللہ اور اس کے رسولؐ کے مقرر کردہ اخلاقی حدود و قیود کو سرعام پامال کرنا کوئی عیب نہیں سمجھا جاتا۔ معاملاتِ کارِ ریاست بہ این جا رسید کہ وہاں کی پارلیمنٹ میں ہم جنسی پرستی، شراب نوشی، زناکاری، سود اور جوئے کی لعنت کو باقاعدہ قانونی تحفظ حاصل ہے۔ پارلمینٹ میں پاس ہونے والے قوانین کسی قوم کے مجموعی رجحان کو ظاہر کرتے ہیں۔ بجا کہ ہر قوم میں سلیم الفطرت لوگ بھی موجود ہوتے ہیں، عین ممکن وہاں سلیم العقل لوگ ان قوانین اور رجحانات سے متفق نہ ہوں لیکن خاموشی نیم رضا مندی تصور ہوتی ہے۔
القصہ! کسی مجموعہ قوانین کو مان لینا اطاعتِ خداوندی میں اس طرح نہیں آتا جس طرح عمومی طور پر تصور کر لیا جاتا ہے۔ انسان فطرت سے بلندتر تخلیق کیا گیا ہے، اس لیے یہ اپنے بعض اعمال کے فطری محاسبے سے بچ نکلتا ہے۔ انسان کو سزا دینے کے لیے قوانینِ فطرت کافی نہیں، اس لیے فاطر کی ذآت نے اسے یوم حساب ذاتی حیثیت سے طلب کر رکھا ہے۔ مراد یہ کہ انسان صرف فطرت کا ایک بائی پروڈکٹ نہیں بلکہ اس کے فکر وعمل کی کچھ حدیں فطرت سے ماورا بھی ہیں، اس لیے یہ فطری قوانینمیں مقرر شدہ فطری محاسبے سے بسا اوقات بچ بھی جاتا ہے، اگر یہ فطرت کے عین تابع ہوتا تو فطرت ہی اس کا محاسبہ کرنے کے لیے کافی تھی لیکن اسے فاطر کے حضور پیش ہونا پڑے گا۔ انسان قانون کے دائرے میں رہ کر بھی ایک دوسرے کے حق میں ظآلم ہو سکتا ہے اور قانون کے تمام اصولوں کے پاسداری کرنے اور کروانے کے باوجود اپنے زیردست کمزور لوگوں کے لیے آسانی کے راستے تلاش اور تراش سکتا ہے۔ انسان کے بنائے ہوئے قوانین انسان کے حق میں کیا کیا ظلم بپا کرسکتے ہیں، اس کا اندازہ ماضی قریب میں برپا ہونے والی جنگوں کی ہلاکت انگیزیوں سے لگایا جا سکتا ہے جنہیں جائز قرار دینے کے لیے اکثر ملکوں میں قوانین بنائے گئے۔ قانون کا بلڈوزر طاقتوروں کے محلات کا رخ نہیں کرتا لیکن کمزوروں کے محلے مسمار کر دیتا ہے۔
قانون ، نظام اور سزاؤں سے دبک کر "اچھے شہری” بنے رہنا اطاعت شعاری کے زمرے میں نہیں آتا۔ اطاعت قالب نہیں بلکہ قلب کے جھک جانے کا نام ہے۔ قانون قالب پر اثر انداز ہوتا ہے، محبت کی تاثیر قلب میں کارفرما ہوتی ہے۔ محبت تعلق بالذات ہے— محبت ذات سے ذات کا ایک ذاتی تعلق ہے!! انسان اسی تعلق کے لیے پیدا کیا گیا ہے ، وگرنہ— "اطاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کروبیاں” فرشتوں کے ہاں اطاعت ہے، لیکن خالی اطاعت، محبت کے سوز سے محروم اطاعت!! شجرو حجر، چرند پرند— پْرہیبت اجرام فلکی ہوں یا پھر نوزائیدہ حیات کے تجربے میں کلبلاتا خردبینی جرثومہ— سب کے سب قوانین فطرت کے تابع ہیں، یہی ان کی اطاعت ہے کہ وہ اپنے کلیہ حیات و تخلیق سے باہر نہیں نکل سکتے— جبکہ انسان کو دعوتِ عام ہے کہ وہ سلطان کی ہمراہی میں آئے اور اقطار السمٰوات والارض کی حدود سے باہر نکل جائے، وہ چاہیتو فنا سے نکل کر عازمِ بفا ہو جائے— بس کسی اذن کی ضرورت ہے— سلطان مبین کا اذن درکار ہے!! انسان بقا کا شاہد ہے، یہ باقی ذات سے تعلق رکھتا ہے— بس زعمِ عقل میں اپنی روحانی یادداشت کھو بیٹھا ہے— غفلت کی بکل مار کر سر نیوڑائے بیٹھا ہے— خود کو خالی جسم سمجھ رہا ہے—جسمانی تقاضوں کی تکمیل کو مقصدِ حیات تسلیم کر چکا ہے۔ یہ تسلیم ایک شکست ہے۔ مادے اور جسم کی خود کار گاڑی اسے جہاں لیے پھرتی ہے، وہاں تک نظر دوڑانے کو سیاحت سمجھ بیٹھا ہے— حالانکہ اس کی سیاحی میں ملکِ عدم بھی شامل ہے۔ فضائے ورائے کن بھی اس کی پرواز کے لیے کھول دی گئی ہے۔
"ولقد کرمنا بنی آدم” کا مخاطب اپنی تکریم بھول چکا ہے۔ خالقِ کائنات نے اتنی بسیط وعمیق کائنات بنائی — اور اس میں مرکزی نقطہ انسان ہی کو ٹھہرایا— انسان ہی کو وہ دانائی اور بینائی عطا کی جو اس کائنات کی بامعنی تعبیر کر سکتی ہے۔ اسے اپنی تکریم کلیم کرنے کے لیے درجہ بنی آدم اور پھر درجہ انسان تک پہنچنا ہے۔ جب تک یہ کسی "بندے کا پتر” نہیں بنتا، بنی آدم کہلانے کے لائق نہیں ٹھہرتا۔ آدمیت سے انسانیت تک کا نصآب دینے کیلیے ایک لاکھ چوبیس ہزار ابنیاء تشریف لائے، فضلنا بعضھم علی بعض کے کلیے کے تحت افضل و و اکرم خاتم النبیین رسولِ کریم ہیں۔ حقیقی علم کے لیے اسے شہرِعلم تک جانا ہو گا— بوسیلہ درِ علم—!! مدینۃ العلم ہی میں انسانِ کامل، الانسان مقیم ہیں۔ الانسان سے قلبی تعلق اسے اطاعت بااللہ کے حقیقی تقاضے بتاتا ہے۔ خود ساختہ تفہیم دین اسے بدعلمی کی طرف لے کر جا سکتی ہے۔ لازم نہیں کہ جو اطاعت میں ہو، وہ تعلق بااللہ میں بھی ہو۔محبت کے بغیر اطاعت نامکمل ہے۔ انسان سے اس انسان کا خالق— اطاعت سے پہلے محبت طلب کرتا ہے— اس شرط کے ساتھ اس کے محبوبؐ کی اتباع کی جائے۔ اتباع اطاعت اور محبت کا امتزاج ہے۔ یہ دل ہے جو تابع ہوتا ہے۔۔۔۔۔ محبت کے بغیر اتباع ممکن نہیں۔ مرشدی حضرت واصف علی واصف کا قول ہے "طریقت— شریعت بالمحبت ہے” یعنی اطاعت میں محبت شامل کر دو تو یہی طریقت ہے— یہی طریق صراطِ مستقیم ہے— انعام یافتہ لوگوں کا راستہ ہے!!

تبصرے بند ہیں.