کرپشن کا خاتمہ،ناگزیر کیوں؟

121

کرپشن کو بجا طور پر تمام برائیوں کی جڑ قراردیا جاتا ہے۔معیشت کی تباہی اور معاشرتی بگاڑ کی اصل وجہ کرپشن ہے،مہنگائی بے روز گاری ، بدامنی ا ور مایوسی کرپشن ہی کی پیداوار ہیں۔ جس معاشرے میں قومی مفادات پر ذاتی مفادات غالب آجائیںاس میں ترقی و خوشحالی نہیں غربت افلاس اور بدحالی مستقل ڈیرے ڈال لیتی ہے ۔ اس وقت ہمارا ملک بھی اسی تباہی سے دوچار ہے ۔ جس نے جس قدر زیادہ کرپشن کرکے مال و دولت اکٹھا کیا، وہ معاشرے میں اسی قدر بلند مرتبہ ہوگیا،حکومتوں کی کارکردگی میں شفافیت اور کرپشن کا جائزہ لینے والی عالمی تنظیم ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ ہے کہ جنوبی ایشیا کا خطہ سب سے زیادہ بد عنوانی کا شکار ہے، حکومتوں کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ کرپشن اور بد عنوانی روکنے والے اداروں کو مضبوط کریں اور ان اداروں کی کارکردگی میں سیاسی مداخلت کو سختی سے روکا جائے مگر ہمارے ہاں الٹی گنگا بہتی ہے ۔ہر حکو مت پہلا وار ہی اداروں پر کرتی ہے ۔
پانامہ لیکس پر سپریم کورٹ میں دائر کی گئی ہماری درخواست چار سال سے عملدرآمد کی منتظر تھی کہ پنڈورا پیپرز سکینڈل بھی منظرعام پر آگیا۔ جماعت اسلامی نے ایک دفعہ پھر اس یقین کے ساتھ عدالت عظمیٰ کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے کہ اب کی بار پاکستانی قوم انصاف سے محروم نہیں رہے گی۔ وزیراعظم کی طرف سے پنڈورا پیپرز کی انکوائری کیلئے بنائے گئے سیل پر ہمارے سمیت کسی کو بھی اعتماد نہیں۔ پنڈورا پیپرز کو منظر عام پر آئے ہوئے دو ماہ سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے، جن لوگوں کے نام سکینڈل میں آئے وہ یاتو پی ٹی آئی ، ن لیگ اور پی پی سے تعلق رکھتے ہیں یا سابق جنرلز، ججز ، بیوروکریٹس اوربزنس مین ہیں۔ قانون سے بالاتر یہ طاقتور اشرافیہ ملک پر اربوں ڈالرکے قرضہ اور غریب پاکستانیوں کے مصائب اور مشکلات کی اصل ذمہ دار ہے۔ حد تو یہ ہے کہ عوام بھوکوں مررہے ہیں ،جبکہ پاکستان کی اشرافیہ پنڈورا پیپرز کی لسٹ میں پانچویں نمبر پر ہے جو دنیا بھر کے ان امراء پر مشتمل ہے جنہوں نے لندن میں سب سے زیادہ قیمتی جائیدادیں خریدیں۔پانامہ میں 436اور پنڈورا میں 700سے زائد پاکستانیوں کے نام ہیں، دولت اور طاقت کی حرص نے اس ظالم اشرافیہ کوبائولاکردیا ہے۔ حکمران جماعت اور دونوں نام نہاد بڑی اپوزیشن پارٹیوں کو قوم کے مسائل سے کوئی سروکار نہیں۔ لوگ مہنگائی اور بیروزگاری کی وجہ سے خودکشیاں کررہے ہیں، سات کروڑ پاکستانی خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور اورڈھائی کروڑ بچے سکولوں سے باہرہیں جبکہ غریب کو ہسپتال سے پیرا سٹا مول اورڈسپرین کی گولی تک نہیں ملتی۔ مگر مجال ہے جو حکمرانوں کے کان پر جوں بھی رینگ رہی ہو۔حکمران جونکوں کی طرح غریب قوم کا خون چوس رہے ہیں۔
ہم نے پنڈورا پیپرز اور پانامہ لیکس میں شامل تمام افراد کے خلاف آزادانہ انکوائری کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے۔ اپنی آئینی درخواست میں عدالت عظمیٰ سے استدعا کی ہے کہ دونوں سکینڈلز میں جتنے بھی پاکستانیوں کے نام آئے ہیں ان کے خلاف غیر جانبدارانہ تحقیقات کے لیے مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی جائے اور حکمران اشرافیہ جس نے غریب پاکستانی قوم کے اربوں کھربوںلوٹ کر آف شور کمپنیوں کے ذریعے بیرون ملک جائیدادیں بنائیں ان کو کٹہرے میں کھڑا کیا جائے۔ ہم نے پانامہ لیکس کے منظر عام پرآنے کے بعد سب سے پہلے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھااور اس کے بعدمارچ 2016سے کرپشن فری پاکستان تحریک شروع کی ۔کرپشن کے خلاف پورے ملک میں ٹرین مارچ کیا ۔ ہماری کرپشن فری پاکستان تحریک کا ہدف ادارے یا حکومت نہیں بلکہ کرپٹ افراد ہیں جو کہیں بھی ہوں۔
کرپشن کاناسور ہماری قومی زندگی کے مالیاتی، اخلاقی اور انتخابی شعبوں پر اپنے پنجے گاڑ چکاہے۔ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ میں کہا گیاہے کہ پاکستان میں روزانہ سات ارب روپے کی کرپشن ہوتی ہے جبکہ نیب کے ایک چیئرمین نے کچھ عرصہ قبل اعتراف کیا تھاکہ ملک میں روزانہ 12سے 13ارب روپے کی کرپشن ہورہی ہے ۔وقت کے ساتھ ساتھ مالیاتی کرپشن کا دائرہ اور حجم مسلسل بڑھ رہاہے ۔ ناجائز منافع خوروں نے کھادوں سے لے کر ادویات تک میں ملاوٹ اور ملاوٹ بھی ایسی گراوٹ کے ساتھ کی ہے کہ پاکستانی دنیا میں سر اٹھانے کے قابل نہیں رہے ۔ پہلے ہم دودھ میں پانی ملاتے تھے اور اب پانی سے دودھ بنانے کے گھٹیا ترین موجد بن گئے ہیں ۔ انتخابی کرپشن کا حال یہ ہے کہ آئین کی دفعہ 62-63 کی سیاہی الیکشن کمیشن کا منہ چڑا رہی ہے جبکہ ہر نیا الیکشن کرپشن کے نئے کنگز کومتعارف کراتا ہے ۔
یہ قوم ناموس رسالت ؐ پر لڑنے مرنے کو تیار ہو جاتی ہے لیکن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس تعلیم کو خود پامال کر رہی ہے ’’ جو خون اور گوشت حرام رزق پر پرورش پائے گا وہ جنت میں نہ جائے گا ‘‘ (الحدیث )
امر واقع یہ ہے کہ حکومت ہی خرابیوں کی اصل جڑ ہوتی ہے ۔ اگر حکومتی اہلکار حج اور عمرے پر پیسے بنائیں گے تو بازار میں پکوڑے بیچنے والے سے خیر کی امید نہیں رکھی جاسکتی۔ یہاں تو زکوۃ و عشر فنڈ سے بھی اربوں روپے خرد برد کرلئے جاتے ہیں مگر کوئی پوچھنے والا نہیں ۔ حکومتیں کس کس طرح لوٹ مار کرتی ہیں قوم کے لیے تو ناقابل تصور ہے، لیکن اس کا بار بار مظاہرہ ہورہاہے۔ ماضی کی حکومت کے ایک وزیر نے ٹاک شو میں بڑی ڈھٹائی کے ساتھ کہا تھا کہ ’’ کرپشن پر ہماری پارٹی کا بھی حق ہے ‘‘۔ پیلی ٹیکسیاں ، روزگار سکیم، پڑھا لکھا پنجاب ، تیل ، گیس اور معدنی ذخائر جیسے منصوبوں میں سو سو ارب روپے ڈکار لیے جاتے ہیں۔ ہمار ا حال یہ ہو چکاہے کہ گندم یا گنا زیادہ یا کم ہو جاتے ہیں تو اس بحران کا بندوبست کرنے کے لیے ٹریڈنگ کارپوریشن پاکستان (TCP) کے ساتھ ساز باز کر کے کبھی 200 ارب اور کبھی 75 ارب کا ٹیکہ لگادیا جاتاہے ۔
پاکستا ن کے قومی اثاثے پی ٹی سی ایل اور بنکوں کو اس طرح فروخت کیا گیاکہ کمہار بھی اپنے گدھے کو نہیں بیچتا ۔ ان اداروں پر پہلے غیر ترقیاتی اخراجات کا بوجھ ڈالا جاتاہے پھر اس کی بیلنس شیٹ میں اثاثوں کی قیمت کم کی جاتی ہے ۔حکمرانوں کا کردار اس حد تک گر چکا کہ ہم پیسے لینے کی خاطر دہشتگردی کی جنگ کو بھی اپنے سر لے لیتے ہیں اور پھر جو چندپیسے ملتے ہیں اس کا بھی کوئی حساب ہمارے پاس نہیں ہے ۔
ایوب خان سے لے کر میاں نوازشریف اور پھر عمران خان تک اقتدار میں آنے کے لیے اعلان کرتے ہیں کہ سب کا سر عام احتساب ہوگا۔ اقتدار میں آنے کے بعد انسداد کرپشن کے لیے نت نئے ادارے بنائے جاتے ہیں ۔ پولیس کے بعد اینٹی کرپشن ، ایف آئی اے ، پروڈا (PRODA) ۔ پوڈو (PODO) ، ایبڈو (EBDO) ، پبلک اکائونٹس کمیٹی ، احتساب کمیشن اور نیب جیسے درجن بھر ادارے جن پر سرمایہ توقوم کا خرچ ہوتاہے لیکن یہ ادارے زیادہ تر سیاسی حریفوںکو ڈرانے ،دھمکانے اور دبانے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں ۔ آج بھی منظور نظر لوگوں کے کیس کھولنے پر حکومت تلملا اٹھتی ہے ۔ نیب کے پاس 150 میگا کرپشن کیس فائلوں میں بند پڑے ہیں ،ان فائلوں کو دیمک چاٹ رہی ہے مگر نیب کے پاس کھربوں روپے کی کرپشن کے یہ کیس دیکھنے کا وقت نہیں ۔
جنگ اور دہشتگردی کسی بھی ملک کے انفراسٹرکچر کو تباہ کردیتی ہے جبکہ کرپشن تو انفراسٹرکچر اور سماجی ترقی کو شروع ہی نہیں ہونے دیتی ۔ قومی خزانہ لوٹنے کے باعث تعلیم ، صحت ، قوانین اور دیگر میدانوں میں ہماری سماجی ترقی شروع ہی نہیں ہوسکی، بلکہ نوبت تو یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ پاکستان 145 کھرب روپے کا مقروض ہے ۔ قومی اثاثوں کی حفاظت کیلئے کرپشن کو قانونی طور پر دہشتگردی اور غداری قرار دینا ضروری ہوگیا ہے ۔وزیر خزانہ قومی اسمبلی میں تسلیم کر چکے ہیں کہ یہ ملک اب قرضے کے بغیر نہیں چل سکتا ،قرضہ لینا اس لئے ضروری ہوگیا ہے کہ سابقہ قرضوں کی قسط ادا ہو سکے ۔آڈیٹر جنرل نے 4.2 ٹریلین روپے کے حسابات پر اعتراضات لگائے ہیں جو کئی سال سے غیر حل شدہ (Unsettelled) ہیں۔جماعت اسلامی اس پوری صورتحال کو بدلنے کے لیے متواتر جدوجہد کررہی ہے۔
اس تحریک کے دوران ہم کرپشن کے خلاف گلوبل آپریشن بھی شروع کریں گے ۔ لوٹی ہوئی دولت کا بڑا حصہ ترقی یافتہ ممالک میں موجود ہے ۔ بالخصوص سوئٹزرلینڈ ، برطانیہ اور امریکہ میں پاکستانیوں کی دولت کے چرچے ہیں ۔ ہم نے ہمیشہ حکومتوںاور اعلیٰ عدلیہ کا دراوازہ کھٹکھٹایا اورمطالبہ کرتے رہے کہ وہ اس لوٹی ہوئی دولت کو واپس لانے کے لیے ٹھوس اقدامات شرو ع کریں ۔لوٹی ہوئی دولت کا سراغ لگانے اور ملک میں واپس لانے کے لیے جماعت اسلامی ممتاز معاشی ماہرین، قانون دان ، یونیورسٹی اساتذہ ، صحافی ، نیک نام ریٹائرڈ سفارتکار ، سول و ملٹری شخصیات پر مشتمل ایک قومی جرگہ تشکیل دے رہی ہے۔
جماعت اسلامی نے ہمیشہ کرپشن کے خاتمہ کی بات کی ہے، اگر آج عوام چوکوں چوراہوں میں کرپٹ عناصر کے خلاف کارروائی کی بات کرتے ہیں تو یہ جماعت اسلامی کی دہائیوں پر مشتمل کرپشن فری پاکستان مہم کی محنت کا نتیجہ ہے۔ سابق امیرجماعت اسلامی مرحوم قاضی حسین احمدؒ نے 1996میں کرپشن کے خلاف24جون اور پھر 27اکتوبر کو اسلام آباد میں عظیم الشان دھرنے دیئے۔جن کے نتیجہ میں ناصرف بے نظیر حکومت کو جانا پڑا بلکہ بعد ازاں نواز شریف حکومت بھی کرپشن کے الزامات کے نتیجہ میں برطرف کی گئی۔ جماعت اسلامی بلاتفریق، بے لاگ احتساب چاہتی ہے۔ ہم چاہتے ہیں سپریم کورٹ اس کے لیے کردار ادا کرے اور قوم کو انصاف دلائے۔ موجودہ حکومت نے نیب کو بے پر کر دیا ہے۔ پی ٹی آئی نے آرڈینینسز کے ذریعے اداروں کو کمزور کردیا اور انہیں طاقتور اشرافیہ کے خلاف ایکشن لینے سے روک دیا۔ ملک میں حقیقی احتساب کا کوئی ادارہ موجود نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مافیاز نے حکومت کو گرفت میں لیا ہوا ہے۔ انکوائری رپورٹس موجود ہیںکہ شوگر سکینڈل، آٹا بحران، پٹرول شارٹیج کرائسز میں سیکڑوں ارب مافیاز کی جیبوں میں چلا گیا مگر کسی کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ موجودہ حکمران پارلیمنٹ، عدالت،میڈیا سمیت تمام اداروں پر کنٹرول چاہتے ہیں۔ نااہلی اور بیڈ گورننس انتہاکو پہنچ چکی ہے، معیشت کا بیڑا غرق اور ملک قرضوں کی دلدل میں دھنس چکا ہے۔ جماعت اسلامی قوم کا مقدمہ لڑ رہی ہے اور ان شاء اللہ یہ جدوجہد لٹیروں سے لوٹی دولت نکلوا کر اسے قومی خزانے میں جمع کرانے اور پاکستان کو عظیم فلاحی اسلامی ریاست بنانے تک جاری رہے گی۔
جماعت اسلامی کے 200سے زائد افراد مختلف ادوار میں سینیٹ اور قومی و صوبائی اسمبلیوںکے ممبر رہے۔ ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کی سٹی گورنمنٹ تین مرتبہ جماعت اسلامی کے پاس رہی ۔عبدالستار افغانی اور نعمت اللہ خان میئر و سٹی ناظم رہے۔ کتنے ہی ٹائونز و یونین کونسلرز میں جماعت اسلامی کے افراد ناظم و نائب ناظم رہے۔ میرے سمیت کم و بیش 30افراد وزراء بھی رہے لیکن الحمدللہ کہ جماعت اسلامی کے کسی فرد پر آج تک کرپشن کا جھوٹا الزام بھی نہیں لگایا جاسکا۔ جماعت اسلامی کے بدترین مخالف جنرل مشرف نے نعمت اللہ خان مرحوم کا ہاتھ پکڑ کر بلند کیا اور کہا کہ اگر نعمت اللہ خان جیسے 10بندے مجھے مل جائیں تو میں پاکستان کو سوئٹزر لینڈ بنا سکتا ہوں۔

تبصرے بند ہیں.