دریائے نیل کے ہمسائے

137

مصر کے ساتھ سوڈان کی 20 سال سے زائد عرصہ جاری رہنے والی مخاصمت بالآخر ختم ہو گئی ہے۔ اس عرصہ کے دوران قاہرہ اور خرطوم کے مابین گہرے فاصلے اور اختلافات دوطرفہ روابط پر غالب رہے، یہاں تک کہ دونوں دارالحکومت ایک دوسرے کے خلاف محور بنے رہے۔ اس حوالے سے سوڈان کی سوورجنٹی کونسل کے چیئرمین جنرل عبدالفتح البرہان کا دورہ قاہرہ ایک مثبت پیش رفت ہے کہ اس سے ضروری علاقائی مساوات بحال کرنے میں مدد ملے گی۔ سابق صدر سوڈان عمر البشیر قطر ایران اور لیبیا کی ملیشیاؤں کے اتحادی تھے حالانکہ ایک سمجھوتا کے تحت وہ یمن کی جنگ میں شریک ہوئے، جس سے خرطوم اور عمر البشیر کو ایک اضافی علاقائی کردار ملا۔ جہاں تک مصر کا تعلق ہے، عمر بشیر کے دور میں دونوں ملکوں کے روابط بدترین سطح پر پہنچے، جو کہ آزادی کے بعد سے خراب چلے آ رہے تھے۔ بشیر اور مسلم قوم پرست اخوان المسلمون تحریک نے انتہاپسند تنظیموں کے دارالحکومت خرطوم کو دمشق کا حریف بنا دیا۔ مصر میں دہشت گرد حملوں کی جب بھی لہر شروع ہوئی، قاہرہ نے سوڈان کا کردار ہمیشہ مشکوک قرار دیا۔
عوامی خواہش پر عمر بشیر کی برطرفی نے علاقائی مساوات کو تبدیل کر دیا ہے۔ جنرل البرہان کے دورہ قاہرہ سے عمر بشیر کی پالیسی میں تبدیلی کے کئی واضح اشارے ملے ہیں جن میں قطر کے وزیر خارجہ کے استقبال سے انکار کر کے ان
کے بجائے بحرین کے وزیر خارجہ کا استقبال کرنا اور البرہان کا بیان کہ سوڈان اپنے ہمسایوں سے متعلق مزید مخاصمانہ پالیسیاں نہیں اپنائے گا۔ مزید براں، سوڈان کی حکمران کونسل نے اب تک جو اقدامات اٹھائے، ان سے لگتا ہے کہ عمر بشیر کے سیاسی بوجھ سے نجات اور مخاصمانہ ماحول کا خاتمہ چاہتی ہے۔ ان اقدامات میں عالمی اور قومی مصالحت شامل ہیں، جس کی مثال یاسر عرمان ہے جنہیں صدارتی امیدوار بننے پر سنگین الزامات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
سوڈان کے داخلی معاملات کو سدھارنے میں وقت لگ سکتا ہے، اس کی وجہ سابق حکومت کے پیدا کردہ مسائل اور گوناگوں سیاسی قوتیں ہیں۔ خارجہ معاملات کا تعین سوڈان کی موجودہ قیادت مختلف پیغامات کے ذریعے کر چکی ہے، جن میں قاہرہ کے دورے کے علاوہ جنرل البرہان کا علاقائی ممالک خصوصاً مصر کے ساتھ اختلافات ختم کرنے کے بیانات شامل ہیں، جن میں سرحدی حد بندی کے علاوہ پانی، سکیورٹی اور سیاسی اختلافات شامل ہیں۔ جنرل برہان کے نائب جنرل ہمدان دگالو نے جدہ میں گفتگو کے دوران سوڈان کی نئی پالیسی اور یمن کے فوجی اتحاد کی رکنیت برقرار رکھنے پر زور دیا۔
مصر، سعودی عرب اور سوڈان بحیرہ احمر کی سلامتی کے نظام کے اہم فریق ہیں۔ سکیورٹی کے اس نظام کو فعال بنانے کی متعدد بار کوششیں کی چکیں، مگر اس پر عمل درآمد میں بڑی رکاوٹ ناقابل بھروسہ عمر بشیر حکومت تھی، جو کہ ترکی کو سواکن بندرگاہ دینے کا معاہدہ کر چکی تھی، جسے ترکی نے فوجی اڈے کے طور پر استعمال کرنا تھا۔ بحیرہ احمر میں ترکی کی فوجی موجودگی کا کوئی جواز نہیں بنتا ہے۔ عمر بشیر کی برطرفی سے لگتا ہے کہ ترکی کے لیے سواکن بندرگاہ کو فوجی اڈے کے طور پر استعمال کرنا ممکن نہیں رہے گا۔ عمر بشیر کی برطرفی کے بعد حکمران کونسل نے جن ابتدائی اقدامات کا اعلان کیا، ان میں بندرگاہوں کے انتظامات کا جائزہ بھی شامل ہے جو کہ بشیر حکومت نے علاقائی ممالک کو دے رکھی ہیں۔ بعض رپورٹس کے مطابق یہ بندرگاہیں مشکوک سرگرمیوں کے لیے استعمال ہو رہی ہیں۔
سوڈان کی مفادات کا فریم ورک سابق حکومت نے طے کیا تھا، جن کی بنیاد انتہاپسند اخوان المسلمون کی پالیسیاں تھیں۔ سوڈان کا کوئی حلقہ ملک کو انتشار کی کسی نئی لہر کا شکار دیکھنا نہیں چاہتا۔ سوڈان کے لئے ان کا حتمی ہدف داخلی ترقی پر توجہ مرکوز کرنا اور ہمسایہ ملکوں کے ساتھ اچھے روابط سے مستفید ہونا ہے؛ سوڈان عبوری فوجی کونسل گزشتہ ماہ سے یہی کچھ کر رہی ہے؛ اس سلسلے میں حکمران کونسل کو سعودی عرب، متحدہ عرب امارات کی حمایت حاصل ہے، جو تیل کی قیمتوں اور سوڈانی کرنسی پاؤنڈ کی قدر کے استحکام کیلئے مکمل تعاون کر رہے ہیں۔ سوڈان کا بہترین مفاد بحیرہ احمر کا جنگ اور مخاصمت سے پاک علاقہ ہونے میں ہے، جن میں پُرامن صومالیہ اور یمن دونوں شامل ہیں۔
(خلیج ٹائمز۔26-09-2021)

تبصرے بند ہیں.