یہ تاثر بھی ایک تضاد اور مخمصہ ہی ثابت ہوا کہ جناب عمران خان کرکٹ کو سب سے زیادہ سمجھتے ہیں ورنہ ان کے تین برسوں میں پورے عشرے کی محنت سے بحال کی گئی کرکٹ کو ریورس گیئر نہ لگتا۔ نیوزی لینڈ کی ٹیم کی واپسی پی سی بی کے نئے منتخب چیئرمین رمیز حسن راجا کے لئے بھی بدترین سلامی رہی۔ وہ بطورچیئرمین پہلا میچ دیکھنے کے لئے راولپنڈی پہنچے تھے کہ میچ سے چند منٹ پہلے نیوزی لینڈ کی ٹیم نے میدان میں اترنے سے انکا ر کر دیا اورا س کی وجہ سکیورٹی تھریٹ الرٹس بتائے۔ میں ایک عام پاکستانی طور پر پہلے نیوزی لینڈ پر ہی برہم ہوا، ان کے نان پروفیشنل ازم پرتین نہیں بلکہ کئی حرف بھیجے، کرکٹ جیسے مقبول کھیل کی اہمیت اور حرمت پر لیکچر دئیے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ پوری دنیا کے پاس ہمارے خلاف سازشیں کرنے کے علاوہ کوئی مصروفیت ہی نہیں۔
میں وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد کی پریس کانفرنس پر بھی یقین لے آیا کہ نیوزی لینڈ کی ٹیم کو ہیڈ آف سٹیٹ کے لیول کی فول پروف سکیورٹی دی گئی تھی۔ میں نے اس تصویر کو بھی ذوق و شوق اور جذبہ ایمانی کے ساتھ شیئر کیا جس میں ٹیم کو ہمارے پرائم منسٹر آف پاکستان جیسی دنیا کی عالی مرتبت شخصیت کی طرح لے جایا جا رہا تھا یعنی ان کے پیچھے کم و بیش پولیس کی چالیس پچاس گاڑیاں تھیں۔ مجھے اس پر بھی غصہ آیا کہ جب ہمارے بائیس گھنٹے کام کرنے والے وزیراعظم نے اپنی مصروفیات سے وقت نکال کر نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جیسنڈا آرڈن کو فون کر ہی لیا تھا تو اسے اپنی کرکٹ ٹیم کو حکم دینا چاہئے تھا کہ وہ راولپنڈی کا میچ ضرور کھیلے یا وہ کم از کم اتنی یقین دہانی تو کروا ئے کہ اگر ٹیم میچ نہیں کھیلے گی تو وہ اس کے پیچھے اپنے ملک کی نیب لگا دے گی، ان تمام کھلاڑیوں کے اثاثے چیک کروائے گی، ریفرنس بننے سے قبل ہی تمام کھلاڑی ضمانت کے حق کے بغیرگرفتار کر لیے جائیں گے اور ان کی زمین پر بیٹھے بلکہ ناکیں رگڑتے ہوئے تصویریں بھی ریلیز کی جائیں گی مگر مجھے لگتا ہے کہ وہ نیوزی لینڈ احتساب کے کسی بہترین اور شاندار ادارے سے محروم ہے اورنیوزی لینڈ ی وزیراعظم نے ثابت کیا کہ وہ اپنے ملک اورقوم پر کوئی کنٹرول نہیں رکھتی اور اس کی اہمیت اپنے دارالحکومت کے مئیر جتنی بھی نہیں ہے۔ انہوں نے فضول سا بیان دے دیا کہ وہ کرکٹ کو اہمیت دیتی ہیں مگر ان کی نظر میں ان کے کھلاڑیوں کی زندگیاں زیادہ اہم ہیں۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کے نئے بلامقابلہ مسلط کردہ منتخب چیئرمین بھی سخت غصے میں آئے اور کہا کہ وہ اس معاملے کو آئی سی سی میں اٹھائیں گے کہ نیوزی لینڈ نے کرکٹ کی اخلاقیات کی نفی کی۔ انہوں نے بھی بہت سارے دوسرے حکومتی باجوں کی طرح بجایا کہ نیوزی لینڈ کی ٹیم کو پاکستان میں کوئی سیکورٹی تھریٹ نہیں تھا مگر ملک دشمنوں اور غداروں کی ایک ٹیم وہ سیکورٹی تھریٹ سامنے لے آئی جو باقاعدہ پولیس کے اعلیٰ افسران کی طرف سے جاری کئے گئے تھے اور دوسری طرف دہشت گردتنظیم کے اس ترجمان کا بیان بھی تھا جس نے نیوزی لینڈ کی ٹیم کے دورے پر ایک دوسری تنظیم آئی ایس کے حملے کی منصوبہ بندی کی باقاعدہ اطلاع دی تھی۔ مجھے کچھ دوست بتا رہے تھے کہ اس وقت آئی سی سی پر بھی کرپٹ، سازشی اور متعصب بھارتیوں کا بہت زیادہ ہولڈ ہے اور خیال ہے کہ اگر ہمارے محب وطن چیئرمین یہ معاملہ آئی سی سی میں لے کر گئے اور وہاں یہ سارے ثبوت پیش کر دئیے گئے تو وہ گھٹیا لوگ ہماری مزید بھد اڑائیں گے۔میں اس پر مزید اس لئے نہیں لکھنا چاہتا کہ چیئرمین پی سی بی کا متکبرانہ یبان آ چکا ہے کہ وہ تنقید برداشت نہیں کریں گے، ہو سکتا ہے کہ وہ میرے کالم پر غصے میں آ کر میرے ٹی وی پر میچ دیکھنے پر بھی پابندی عائد نہ کر دیں کہ اس کے سوا وہ اور کیا کر سکتے ہیں۔ دوسری طرف میں حیران ہو رہا تھا کہ وزیر داخلہ ایک پریس کانفرنس کر رہا ہے اوراس کے پاس اپنی ہی وزارت کے نیچے کام کرنے والے محکمے کے بارے اطلاع نہیں ہے۔ میرا یہ خیال پکا ہوتا جا رہا ہے کہ موصوف محکمہ داخلہ کا بھی وہی حال کر یں گے جو وہ پاکستان ریلوے کا کر گئے ہیں۔
دلچسپ امر تو یہ رہا کہ تمام وفاقی وزرا نیوزی لینڈ کی ٹیم کی سکیورٹی کے معاملے کی مس ہینڈلنگ، کرکٹ بورڈ کی کمزور ترین کمانڈ اور حکمت عملی اور سفارتی ناکامی کو بھی ملکی وقار اور قومی سلامتی کے ساتھ یوں جوڑتے رہے جیسے آٹھویں جماعت کے بچوں کو کسی سرکاری سکول میں مطالعہ پاکستان پڑھا رہے ہوں۔ بھائی لوگ یہ ثابت کرتے رہے کہ ان کی نا اہلی اور ناکامی ہی ملکی وقار اور قومی سلامتی ہے اور دونوں پر تنقید ایک ہی بات ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ حکومتی نااہلی اور ناکامی پر تنقید ہی ملکی وقار اور قومی سلامتی کی ضامن ہے اور جب ہم اس تنقیدکے بجائے صرف خوشامد کو قومی رویہ بنا لیتے ہیں تو یہ تباہ کن ہے۔ کیا یہ امر حقیقت نہیں ہے کہ جناب عمران خان کے دور میں کرکٹ بری طرح تباہ ہوئی ہے۔ ہماری ورلڈ رینکنگ نواز شریف اور نجم سیٹھی کے دور میں شاندار تھی، ہم ٹی ٹوئینٹی کا ورلڈ کپ بھی جیتے، ہمارے کھلاڑی بھی ورلڈ رینکنگ میں نمایاں رہے وہ موجودہ دور کی میرٹ دشمن پالیسیوں کی وجہ سے ہوا ہو گئی۔ میں یقینی طور پرکرکٹ کے معاملات کی تکنیک کے بارے زیادہ نہیں جانتا مگر میں نے ٹی ٹوئینٹی ورلڈ کپ کی ٹیم کا اعلان ہونے پر جتنے بھی مضامین پڑھے وہ سب کہہ رہے تھے کہ یہ ٹیم قوم کا ورلڈ کپ جیتنے کی نہیں، ہاں، بابے کا ٹھلو جیتنے کی اہلیت ضرور رکھتی ہے اور ہم اسے قوم کا دل بھی کہہ سکتے ہیں۔
حالات یہ ہیں کہ عمران خان ڈپیارٹمنٹل کرکٹ ختم کر چکے اوراس کے نتیجے میں سینکڑوں باصلاحیت کرکٹر بے روزگا ر ہو چکے۔ میں خود ریجنل کرکٹ کا حامی ہوں مگر ہر کام کرنے کا ایک طریقہ ہوتا ہے جیسے میں احتساب کا حامی ہوں مگر جس طرح احتساب ہو رہا ہے وہ محض انتقام ہے۔ دروغ بہ گردن راوی، اتنی بری حالت ہوچکی ہے کہ ابھی انڈر نائینٹین کے ٹرائل کروائے جا رہے تھے اور کرکٹ بورڈ کو ملک بھر سے کھلاڑی ہی نہیں مل رہے تھے۔ وجہ یہ ہے کہ کرکٹ میں ٹیلنٹ ممی ڈیڈی گھرانوں سے نہیں بلکہ غریب گھروں کے جنونی لڑکوں کے ذریعے آتا ہے مگر جب ان کو فنانشل سپورٹ نہیں ملتی تو گھر کا چولہا جلانے کے لئے وہ اپنے بیٹ اور وکٹیں جلا دیتے ہیں، کوئی سبزی کی دکان کھول کے بیٹھ جاتا ہے اور کوئی سروس سٹیشن پر گاڑیاں دھونے لگتا ہے۔ میں اکثر سوال کرتا ہوں کہ عمران خان سب سے زیادہ کس شے کا بیڑہ غرق کر کے جائیں گے، جمہوریت؟ معیشت؟ اخلاقیات؟ یا کرکٹ؟ یہ جواب تو طے ہے کہ وہ سب کاہی بیڑہ غرق کریں گے مگر سب سے زیادہ والی چوائس ہر روز کی تباہی کے ساتھ بدلتی رہتی ہے۔
تبصرے بند ہیں.