پھول اور کانٹے!

127

1967 کا موسم سرما بہت سخت تھا اور جانے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ موسم بہار آنے سے پہلے اچانک بارش شروع ہو جاتی تھی اور یہ بارش غزہ شہر کے الشاطی پناہ گزین کیمپ کے سادہ گھروں کو ڈبو دیتی تھی۔ ہمارا خاندان 1948 میں فلوجہ قصبے سے ہجرت کر کے اس پناہ گزین کیمپ میں آ بسا تھا۔ بارش کا پانی ہمارے گھر کے چھوٹے صحن سے ہوتا ہوا ہمارے گھر کے اندر تک آ جاتا تھا۔ ہر سال موسم برسات میں ہم بہن بھائیوں کے دلوں میں سیلاب کا خوف بیٹھ جاتا تھا۔ میرے والد ہمیں اٹھا لیتے تھے اور والدہ بستروں کو اٹھا لیتی تھی تاکہ انہیں بھیگنے سے بچایا جا سکے۔ چونکہ میں سب سے چھوٹا تھا لہٰذا میں اپنی والدہ کے گلے میں لپٹ جاتا تھا۔ کئی بار رات کو میں اپنی والدہ کے ہاتھوں کے لمس سے جاگ جاتا تھا جو مجھے ایک سائیڈ پر کر کے میرے قریب اپنے بستر پر ایلومینیم کا برتن یا بڑا مٹی کا پیالہ رکھ دیتی تھی تاکہ چھت کے شگاف سے ٹپکنے والا پانی اس میں گرتا رہے۔ ایک برتن یہاں، ایک مٹی کا پیالہ وہاں اور ایک اور برتن کسی اور جگہ۔ میں ہر بار سونے کی کوشش کرتا، کبھی کامیاب ہو جاتا اور کبھی پانی کے قطروں کی آواز سے جاگ جاتا جو باقاعدگی سے برتن میں گر رہے ہوتے تھے۔ جب برتن بھرنے کے قریب ہوتا تو میری والدہ اٹھ کر نیا برتن رکھ دیتی تھی اور بھرے ہوئے برتن کو کمرے سے باہر لے جا کر انڈیل دیتی تھی۔ میں پانچ سال کا تھا کہ ایک دن سردی کی صبح میرا سات سالہ بھائی محمد میرا ہاتھ پکڑ کر کیمپ کی گلیوں میں
چلنے لگا، ہم کیمپ کے کنارے کی طرف جا رہے تھے جہاں مصری فوج کا ایک کیمپ تھا۔ مصر کے فوجی اس کیمپ میں ہمیں بہت پسند کرتے تھے، ان میں سے ایک نے ہم سے جان پہچان کر لی تھی اور ہمارے نام بھی جان لیے تھے۔ جب ہم نظر آتے تو وہ ہمیں آواز دیتا محمد! احمد! ادھر آؤ! ہم اس کے پاس جاتے اور انتظار کرتے کہ وہ ہمیں کیا دے گا۔ وہ اپنی فوجی پتلون کی جیب سے ہر ایک کو پتے کی مٹھائی کا ٹکڑا نکال کر دیتا اور ہم کیمپ کی گلیوں کی طرف واپس چل پڑتے۔
پانچ سال کی عمر میں ایک دن میں اپنے خاندان میں بے چینی اور پریشانی کی حالت دیکھ رہا تھا، سب گھر والے اس رات بہت زیادہ پریشان تھے، میں اس وقت صورتحال کو سمجھنے کے قابل نہیں تھا لیکن مجھے اندازہ ہو رہا تھا کہ معاملہ عام نہیں ہے۔ میرے والد نے پڑوسیوں سے ایک کدال ادھار لی اور گھر کے سامنے والے صحن میں ایک بڑا اور لمبا گڑھا کھودنے لگے۔ میرا بھائی محمود جو اس وقت دس سال کا تھا کچھ حد تک ان کی مدد کر رہا تھا۔ جب گڑھا تیار ہو گیا تو میرے والد نے اس پر لکڑی کے ٹکڑے رکھ دئیے، پھر اسے لوہے کی چادروں سے ڈھانپنے لگے، میں نے محسوس کیا کہ میرے والد مشکل میں ہیں کیونکہ وہ کچھ تلاش کرتے ہوئے ادھر ادھر دیکھ رہے تھے۔ میں نے دیکھا کہ انہوں نے باورچی خانے کا دروازہ اتار کر اس گڑھے کے اوپر رکھ دیا۔ پھر میں نے دیکھا کہ میری ماں اور بھائی محمود اس گڑھے میں ایک کھلے ہوئے سوراخ سے نیچے جا رہے ہیں، تب مجھے سمجھ آیا کہ کام مکمل ہو چکا ہے۔ میں نے ہمت کر کے اس سوراخ کے قریب جا کر اس گڑھے میں جھانکا تو مجھے زمین کے نیچے ایک تاریک کمرہ نظر آیا، میں کچھ نہیں سمجھ پایا لیکن یہ واضح تھا کہ ہم کسی مشکل اور غیر معمولی چیز کا انتظار کر رہے ہیں جو شاید ان طوفانی بارش والی راتوں سے کہیں زیادہ سخت ہے۔ یہ میرے اور محمد کے لیے ایک بڑی تبدیلی تھی اور میں اسے سمجھنے کے قابل نہیں تھا۔ میرا ہم عمر چچا زاد بھائی ابراہیم جو ہمارے پڑوسی گھر میں رہتا تھا اس معاملے سے واقف تھا، میں اپنے چچا کے گھر چلا گیا تاکہ ابراہیم کے ساتھ وقت گزار سکوں، میں نے دروازے کو دھکیلا اور کمرے میں داخل ہو گیا، چچا سامنے بیٹھے تھے جن کے چہرے کے خدو خال میں کبھی نہیں بھول پاؤں گا اور ان کے ہاتھ میں ایک بندوق تھی جسے وہ مرمت کر رہے تھے۔ میں نے دل میں سوچا کہ شاید میں بھی اس بندوق کے ساتھ کچھ کر سکوں، بندوق نے میری توجہ کھینچ لی اور میری نظریں تمام وقت اس پر مرکوز رہی۔ چچانے مجھے بلایا اور اپنے پاس بٹھایا، پھر بندوق میرے ہاتھ میں دے دی اور اس کے بارے میں باتیں کرنے لگے جنہیں میں سمجھ نہیں پا رہا تھا، پھر انہوں نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور مجھے کمرے سے باہر نکال دیا۔ اگلے دن میری ماں نے گھر سے کچھ بستر لیے اور اس گڑھے میں بچھا دئیے، پھر کچھ پانی کے دو یا تین گھڑے اور کچھ کھانا لے کر ہمیں اس گڑھے میں بٹھا دیا۔ چچا کی بیوی اور ان کے بچے حسن اور ابراہیم بھی ہمارے ساتھ شامل ہو گئے، میں اس تنگ جگہ سے بے حد پریشان تھا جہاں ہمیں بلاوجہ بٹھا دیا گیا تھا۔ جب بھی میں باہر نکلنے کی کوشش کرتا میری ماں مجھے کھینچ کر واپس بٹھا دیتی اور وہ ہمیں کبھی کبھی تھوڑی سی روٹی اور چند زیتون دے دیتی تھی۔
جب ہم بچے چیخنے لگتے تو میری ماں اور چچی ہمیں روکنے کی کوشش کرتی اور کہتی ’’بچو! دنیا میں جنگ ہو رہی ہے، کیا تم جنگ کا مطلب نہیں جانتے؟‘‘ اس وقت میں جنگ کا مطلب نہیں جانتا تھا، لیکن مجھے اندازہ ہوا کہ یہ کچھ خوفناک، غیر
معمولی اور گھٹن بھری چیز ہے۔ ہم بار بار باہر نکلنے کی کوشش کرتے اور ہمیں بار بار روکا جاتا۔ ایک دن محمود نے کہا ’’ ماں! کیا میں چراغ لے آؤں تا کہ ہم اسے جلائیں؟‘‘ ماں نے جواب دیا ’’ہاں محمود لے آؤ‘‘ محمود گڑھے سے نکلنے کے لیے لپکا تو میری ماں نے اسے پکڑ کر روکا اور کہا ’’باہر مت جاؤ محمود۔‘‘ ماں نے اسے بٹھایا اور خود باہر نکل گئی، واپس آئی تو اس کے ہاتھ میں کیروسین کا لیمپ تھا، اسے جلایا تو جگہ روشن ہو گئی، ایک خاموشی اور اطمینان سا پھیل گیا۔ ہماری پڑوسن معلمہ عائشہ ہمیشہ اپنے ریڈیو کے ساتھ رہتی اور خندق کے قریب رہنے کی کوشش کرتی تا کہ ریڈیو کی لہریں پکڑ سکیں اور تازہ ترین خبریں سن سکیں، جب بھی وہ کوئی نئی خبر سنتی تو میری ماں اور چچی کو بتاتی جس سے ماحول میں افسردگی اور غم بڑھ جاتا۔ اس کا اثر ہماری ماؤں کی تیاری اور ہماری خواہشات کو سننے اور پورا کرنے کی صلاحیت پر بھی پڑتا جب وہ ہمیں خاموش رہنے کا کہتی تو ہمیں زیادہ بوجھ محسوس ہوتا۔ ہماری سب سے بڑی خواہش یہی تھی کہ ہم اس علاقے میں واپس جائیں جہاں ہم کبھی رہتے تھے، یہ بھی کہ ہمارے چچا اور والد جو عوامی مزاحمت میں شامل تھے ہمارے پاس سلامت واپس آئیں۔ ہر نئی خبر کے ساتھ جو معلمہ عائشہ سنتی افسردگی اور تناؤ بڑھ جاتا اور لوگ دعاؤں میں مشغول ہو جاتے۔ میری ماں گاہے بگاہے خندق سے باہر نکلتی اور چند منٹوں بعد گھر سے کچھ کھانے یا اوڑھنے کے لیے لے آتی یا پھر میری چچی کو دادا کے بارے میں تسلی دیتی جو ضد میں اپنی کمرے میں رہنے پر مصر تھے اور ہمارے ساتھ خندق میں نہیں آنا چاہتے تھے۔ شروع میں ان کی امید تھی کہ ہم جلد ہی فلوجہ اپنے گھر اور کھیتوں میں واپس جائیں گے اور ہمیں کوئی خطرہ نہیں ہو گا کیونکہ خطرہ یہودیوں کے لیے ہو گا جنہیں عرب افواج روند ڈالیں گی لیکن جب انہیں جنگ کی نئی حقیقت کا علم ہوا کہ یہ ہمارے حق میں نہیں ہے تو انہوں نے نیچے نہیں آنا چاہا کیونکہ زندگی اور موت ان کے لیے برابر ہو چکی تھی۔ ایک دن معلمہ عائشہ نے خبریں سنیں اور سنتے ہی رونے اور چیخنے لگی، اس کے پاؤں اسے سنبھال نہیں سکے اور وہ گر گئی، وہ بڑبڑانے لگی کہ یہودیوں نے ملک پر قبضہ کر لیا ہے۔ ایک لمحے کے لیے خاموشی چھا گئی اور اس خاموشی کو میری چھوٹی بہن مریم کی درد بھری چیخ نے توڑ دیا، وہ بھی اپنی ماں کے رونے سے متاثر ہو کر رونے لگی۔ ایک دن بعد معلمہ عائشہ نے باہر جا کر صورتحال کو دیکھ کر بتایا کہ جنگ ختم ہو گئی ہے باہر آ جاؤ۔ امی اور چچی پہلے باہر آئیں اور پھر ہمیں بھی باہر آنے کو کہا۔ کئی دنوں بعد ہم نے پہلی بار قدرتی ہوا میں سانس لیا لیکن یہ ہوا بارود اور تباہ شدہ گھروں کے گرد و غبار سے بھری ہوئی تھی۔ مجھے اپنے ارد گرد دیکھنے کا موقع ملا، اس سے پہلے کہ امی مجھے گھر کھینچ کر لے جاتی میں نے دیکھا کہ ہمارے ارد گرد ہر سمت تباہی کے آثار تھے، بمباری نے کئی پڑوسیوں کے گھروں کو نقصان پہنچایا تھا، ہمارا گھر محفوظ تھا کوئی نقصان نہیں پہنچا، ہم گھر کے اندر گئے تو دادا نے ہمیں بانہوں میں لے لیا، ایک ایک کر کے بوسہ دیتے ہوئے اللہ کا شکر ادا کرتے کہ ہم محفوظ ہیں اور ہمارے والد کی جلد واپسی کی دعا کرتے۔ اس رات چچی اور ان کے دو بیٹے ہمارے ساتھ سوئے، میرے والد اور چچا اس رات واپس نہیں آئے، ایسا لگتا تھا کہ ان کی واپسی میں مزید وقت لگے گا۔ صبح کے وقت کیمپ کی گلیوں میں حرکت شروع ہو گئی، ہر ایک اپنے بچوں رشتہ داروں اور پڑوسیوں کی خیریت معلوم کرنے نکلا اور اللہ کا شکر ادا کر رہا تھا کہ وہ محفوظ ہیں۔
’’پھول اور کانٹے‘‘ یحییٰ سنوار کی آپ بیتی ہے اور یہ سطور اسی آپ بیتی سے لی گئی ہیں۔ پناہ گزین کیمپ میں جنم لینے والی زندگی اکسٹھ سال کے نشیب و فراز کے بعد آخر میدان جنگ میں ہی کام آ گئی۔ کالم کی گنجائش ختم ہونے کے باعث مزید لکھنا ممکن نہیں آپ یحییٰ سنوار کے بچپن اور حالیہ شہادت کے روشنی میں عزم و ہمت اور جرأت و شجاعت کی کہانی مکمل کر سکتے ہیں۔

تبصرے بند ہیں.