ایک قومی اخبار میں پہلی بار اپنا چھپا ہوا کالم دیکھ کر کتنی دیر تو ہمیں یقین ہی نہیں آیا کہ چھپنے والا کالم واقعی ہمارا ہے حالانکہ یہ کالم صرف ہمارے نام سے ہی نہیں چھپا تھا بلکہ سچ مچ لکھا ہوا بھی ’’بقلم خود‘‘ ہمارا تھا۔ ایسا نہیں کہ کالم نگاری کے میدان خارزار میں ہم نووارد ہوں ہم نے بھی اپنی عمر کا ایک بڑا حصہ اسی دشت کی … ’’سیا ہی‘‘ میں گزارا ہے۔ ایک طویل عرصے سے ہم حکیم قہر الٰہی خزاں کی ادارت میں نکلنے والے حقیر الاشاعت پندرہ روزہ اخبار ’’انٹرنیشنل گھاس پھونس‘‘ میں ’’بلاناغہ‘‘ کے عنوان سے شوبز، سپورٹس، مستقبل کا حال اور جانوروں کی بیماریوں کے حوالے سے متواتر کالم لکھ رہے ہیں جس کی گواہی حکیم صاحب کے گاہکوں یعنی مریضوں کے ساتھ اُن ’’جانوروں‘‘ سے بھی لی جا سکتی ہے جن کا ذکرِ خیر ہم کھلم کھلا اور اشاروں کنائیوں میں اکثر اپنے کالموں میں کرتے رہتے ہیں۔ بڑی حد تک حکیم صاحب کے مریض اب ہمارے ’’مریض‘‘ بھی ہیں وہ یوں کہ حکیم صاحب اپنے اس اخبار کو پڑیوں کے لیے بھی استعمال کرتے ہیںجبکہ حکیم صاحب کے مخالف بیشتر معاصرین و ناقدین جنہیں حکیم صاحب حاسدین کا نام دیتے ہیں کا خیال ہے کہ حکیم صاحب کا یہ اخبار صرف پڑیوں کے لیے ہی استعمال ہو سکتا ہے۔ خیر یہ حکیم صاحب اور اُن کے ’’شریکوں‘‘ کا آپس کا معاملہ ہے ہمیں خوشی ہے کہ ایک بڑے قومی روزنامے میں نہ چھپنے کے حوالے سے ہمارے ’’شریک‘‘ اکثر ہمیں جو طعنے معنے دیتے تھے مذکورہ بالا سچ مچ کے قومی اخبار نے ہمارا کالم چھاپ کر ہمارے اُن سب شریکوں کے منہ بھی بند کر دئیے ہیں۔ یقینا اس قومی روزنامے میں ہمارے پہلے کالم کی اشاعت کے بعد اب ان ناہنجاروں کو ایک کالم نگار کی حیثیت سے قومی سطح پر ہمارے مقام اور مرتبے پر انگلی اُٹھانے کی جرأت نہیں ہو گی۔ بلکہ اس قومی روزنامے میں اپنے کالم کی مستقل اشاعت کے بعد عزیزوں، رشتے داروں، گلی محلے اور تھانے کچہری میں ٹور ٹپے اور ٹہکے کے علاوہ اب ہم بھی عوام کے دکھوں اور مصیبتوں کو بنیاد بنا کر اپنی لکھی گئی تحریروں پر لوگوں سے داد وصول کریں گے اور اپنی آسائشوں کا سامان کریں گے۔ اپنے کالموں میں حکومتوں کو سیدھی راہ دکھائیں گے اور گھر بیٹھے آرام کی بلکہ کئی ایک بڑے کالم نگاروں اور دانشوروںکی طرح تو مفت یعنی حرام کی کھائیں گے۔ گھر میں آرام سے بیٹھ کے بلکہ لیٹ کے ٹی وی دیکھیں گے اعزازی اخبار پڑھیں گے اور پھر اے سی والے ٹھنڈے ٹھار کمرے میں خوب پیٹ بھر کر کھانے اور پینے کے بعد مختلف ٹی وی چینلز پر بھوک اور افلاس کے ساتھ قوم کو درپیش دیگر مسائل اور اُن کے حل پر فٹے منہ جیسی شکل بنا کر سچ مچ کے کسی دانشور کی طرح اظہارِخیال فرمائیں گے۔ اس کے لیے تو ہم نے ابھی سے’’فل ڈریس‘‘ ریہرسل بھی شروع کر دی ہے اور فوری طور پر اپنے چہرے پر مصنوعی متانت اورسنجیدگی طاری کر کے اپنے حلقہ احباب سے ایک فاصلہ اختیار کرنا شروع کر دیا ہے۔ مگر اس سلسلے میں ابھی تک ہمیں تسلی بخش کامیابی نہیں مل رہی اس کی وجہ یہ ہے کہ لڑکپن سے ہی اپنا مزاج ذرا ’’شوخا‘‘ سا ہے۔ طبیعت میں وہ جو ایک قدرتی شوخی اور ملنساری ہے اُس کا رنگ اس قدر گاڑھا ہے کہ عمر کے اس حصے میں اپنے مزاج کے خلاف اس قسم کا کوئی نیا اور مصنوعی رنگ چڑھتا دکھائی نہیں دے رہا۔ سرِدست ہے تو یہ مشکل اور پریشانی والی بات لیکن امید ہے مستقبل میں اس کا بھی کوئی حل نکل آئے گا آخر ہمیں بڑا آدمی بھی تو بننا ہے۔ پہلے کالم کی اشاعت کے بعد فوری طور پر ہمارے کرنے کے جو کام ہیں ابھی ہماری زیادہ توجہ اُن کی طرف ہے۔ اس سلسلے میں ہم نے جو سب سے پہلا کام کیا ہے وہ موبائل فون پر واٹس ایپ کے ذریعے اپنے تمام دوستوں، رشتہ داروں اور محلے داروں کو کالم کی اشاعت بارے اطلاع دینا ہے۔ اس کے ساتھ ’’حاجن کا ضروری اعلان‘‘ کی طرز پر اپنے کالم کی فوٹو کاپیاں کرا کے بذریعہ بچہ پارٹی اپنے علاقے کے تھانے کے ساتھ دیگر ضروری اشخاص اور سرکاری و غیر سرکاری اداروں کے سربراہان کو ارسال کی ہیں تا کہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آویں۔ دوسرے نمبر پر ہم نے اپنا وزٹنگ کارڈ بھی چھپنے کے لیے دے دیا ہے جس پر بڑے حرفوں میں ہمارے نام کے ساتھ ہماری سترہ سال پُرانی تصویر بھی چھپے گی۔ ہمارے خیال میں قارئین کو یہ بتانے میں بھی کوئی ہرج نہیں ہے کہ آج کل ہم آسمانی پنگوڑے پر بھی بڑے زور شور سے ’’جھونٹے‘‘ لینے کی پریکٹس کر رہے ہیں۔ دراصل بچپنے کے بجائے پچپنے کی اس عمر میں ہمارا آسمانی پنگھوڑے پر جھونٹے لینا بھی اسی فُل ڈریس ریہرسل کا حصہ ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ مستقبل میں جب ہمیں بطور ایک بڑے کالم نگار کے وزیرِاعظم یا صدر کی طرف سے اپنے ساتھ ہیلی کاپٹر پر کسی علاقے کے دورے کی دعوت ملے تو کہیں ہم اس دعوت کو محض اس لیے رد نہ کر دیں کہ ابھی تک ہم نے ہیلی کاپٹر کو صرف دور سے ہی دیکھا ہے۔ ہم نہیں چاہتے کہ ہیلی کاپٹر کے اچانک جھونٹے ہمیں ’’اوپرے‘‘ لگیں، گویا ہم نہیں چاہتے کہ ایسے کسی ’’خاص‘‘ موقع پر شرمندگی ہمارا مقدر بنے۔ اس کے علاوہ کاغذوں کے رم، پنسلوں کی ڈبی، نئے جوتے اور نئے کپڑوں کی خریداری سے لے کر فی زمانہ ایک بڑا آدمی، دانشور یا کالم نگار بننے کے لیے جو جو ضروری ہے، ہم وہ سب کچھ کر رہے ہیں مگر ان سب کاموں سے زیادہ ضروری کام جو ہمیں سب سے پہلے کرنا چاہیے تھا، وہ یہ ہے کہ تاحال ہم نے نظریاتی حوالے سے خود سے کسی قسم کی ’’کٹمنٹ‘‘ نہیں کی ہے۔ اس سلسلے میں ابھی تک ہم نے دل کے ساتھ اپنے دماغ کے خانے کو بھی خالی رکھا ہوا ہے آسان لفظوں میں یہ ہے کہ بطور کالم نگار تا حال ہمارا کوئی نظریہ یا اصول نہیں ہے۔ ہماری کوئی اصولی یا نظریاتی وابستگی اگر تھی بھی تو ایک قومی اخبار کا کالم نگار بننے کے بعد ہم نے اُسے اپنے دل و دماغ سے باہر نکال دیا ہے۔ آج سے ہم ایک نئے سفر کی ابتدا اس اعلان کے ساتھ کر رہے ہیںکہ بطور کالم نگار ہماری تمام تر خدمات برائے فروخت ہیں۔ اس سلسلے میں ہم نے جو اصول وضع کیا ہے وہ یہ ہے کہ ’’پہلے آیئے پہلے پایئے‘‘ کی بنیاد پر جو پارٹی ہمیں اچھی پیشکش دے گی مکمل رازداری کی شرط کے ساتھ ہماری ’’قلمی خدمات‘‘ اُس کے لیے دستیاب ہوں گی۔ معاہدہ عارضی و مستقل ہر دو صورت میں ہو سکتا ہے اور اعلیٰ اور تگڑی پیشکش کی صورت میں ملکی و غیر ملکی، سیاسی و غیر سیاسی پارٹیوں کے ساتھ ہر قسم کی کھابہ گیر اور ناچنے گانے والی پارٹیاں بھی رابطہ کر سکتی ہیں۔
تبصرے بند ہیں.