بنگلہ دیشی عوام کے نام پاکستانی عوام کا خط

87

ڈیئر بنگلہ دیش آپ سے بچھڑے پانچ دہائیوں سے زیادہ عرصہ بیت گیا۔ ہمارے اور آپ کے بچوں کے آگے بچے ہو گئے۔ دوسری تیسری نسل آ جانے کے بعد اور اتنی عمر بیت جانے کے بعد بھی ہم آپ کو نہیں بھولے۔ ہر وقت ہر دم آپ کو اپنے دل کے قریب محسوس کرتے آئے ہیں۔ ہر لمحہ آپ سے ملنے کی بے قراری سی بے قراری رہی ہے۔ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ ہماری منافقتوں اور غلطیوں کی بنا پر آپ ہم سے دکھی ہوئے لیکن اس جدائی میں ایک اور بات بھی سچ تھی جسے اب آپ کے ہاں بھی مانا جا رہا ہے کہ ہماری قربتوں اور راحتوں کے درمیان انڈیا نے بدبودار گندگی پھیلائی۔ اس کی مثال ایسے بھی دی جا سکتی ہے کہ ایک گھر کے ساتھ اگر ہمسایہ فطری طور پر بدذات ہو تو وہ اس گھر کے افراد کو آپس میں لڑانے کے لیے اُن میں مختلف بدگمانیاں پیدا کر دیتا ہے۔ اب آپ نے بھی اپنا حقیقی دشمن پہچان لیا ہے جو دراصل ہمارا مشترکہ دشمن تھا اور ہے۔ اس بات کو لکھنے میں کوئی جھجک نہیں کہ ہمارے اُس وقت کے حکمران آپ سے کی جانے والی زیادتیوں کے حوالے سے قابل معافی نہیں ہیں۔ تاہم اب آپ نے ہمارے لیے جس کھلے دل کا اظہار کیا ہے وہ حقیقی معنوں میں دونوں ملکوں کی عوام کی آپسی کی پسندیدگی کے جذبات ہیں۔ آپ نے جس طرح اپنے ملک سے غیرملکی پٹھو حکمران کو بھگایا ہے اس کی مثال ہمارے ہاں نہیں ملتی۔ ہم اُس وقت کے اپنے منافق حکمرانوں کو بھی تاریخ کا مجرم قرار نہیں دے سکے۔ آپ کے ملک کی بدبخت حسینہ واجد نے جس طرح جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے رہنماؤں کو چن چن کر شہید کیا اس سے صاف پتا چلتا تھا کہ وہ پانچ دہائیاں گزرنے کے بعد اب بھی نہتی جماعت اسلامی بنگلہ دیش سے کس حد تک خائف ہے۔ آپ نے اُس حسینہ کا اصل بدصورت چہرہ بے نقاب کردیا مگر ہم اپنے ملک میں اُس وقت کے حکمرانوں کے ساتھ اب تک ایسا نہ کرسکے۔ بیشک ہمارے وہ منافق حکمران مرچکے ہیں لیکن تاریخ تو زندہ ہے اور ہم تاریخ کی عدالت سے انہیں مجرم قرار دلوا سکتے ہیں۔ دیکھا جائے تو آپ کی جانب سے ہمارے لیے گرمجوشی واضح ہے۔ یہ آپ کی اعلیٰ ظرفی اور بڑائی کا ثبوت ہے۔ جس خوبصورت صبح کا آغاز آپ نے کیا ہے اُس کے جواب میں ہم پر لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں کہ ہمارے موجودہ حکمران آپ سے کتنی تیزی کے ساتھ گلے ملتے ہیں۔ بیشک جو نئی حقیقتوں کو قبول کرلیتے ہیں وہ دانش مند ہوتے ہیں۔ ہماری عوام آپ کے ملک کی خودمختاری اور سلامتی کو کھلے دل سے مانتی ہے۔ ہم بطور عوام چاہتے ہیں کہ پاکستان اور بنگلہ دیش ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑکر علاقائی اور بین الاقوامی معاملات میں ایک دوسرے کے ساتھ چلیں۔ ایک اور ایک گیارہ ہوتے ہیں۔ اگر پاکستان اور بنگلہ دیش ایک ساتھ کھڑے ہو جائیں تو انڈیا جو دراصل خطے کی ایک لومڑی ہے اور امریکی انجکشن لگوا لگوا کر بری طرح پھول کرکپا ہوگئی ہے کو اس کی اوقات میں لاسکتے ہیں۔ آپ یقین کیجئے کہ ہماری عوام آپ سے محبت کرنے میں بہت مخلص ہے اور لگتا ہے کہ شاید اب ہمارے حکمرانوں کو بھی کچھ عقل آئی ہے۔ آپ نے جس طرح اپنے اور ہمارے مشترکہ دشمن کو پہچانا ہے وہ آپ نے کمال کیا ہے اور آئندہ بھی اس سلسلے میں بہت محتاط رہنا ہوگا۔ خاص بات یہ کہ ہمیں اپنی نئی نسل کو زیادہ سے زیادہ بتانا ہے کہ ہمارا مشترکہ دشمن خطرناک ہتھیاروں کے ساتھ منافقانہ چالوں اور میٹھی زہریلی زبان کا بہت استعمال کرتا ہے۔ ہمیں اپنی نئی نسلوں کو بتانا ہے کہ اُن کا مشترکہ دشمن کون ہے اور اُس کے ساتھ کس طرح نمٹنا ہے۔ آپ نے اس کی شاندار ابتدا چند دن پہلے 11 ستمبر کو کر دی جب نیشنل پریس کلب ڈھاکہ میں قائداعظمؒ محمد علی جناح کی برسی منعقد کی گئی اور اِس حوالے سے اردو زبان میں نظمیں پڑھ کر اور مقررین نے اپنے خیالات کا اظہار کر کے قائداعظمؒ محمد علی جناح کو بھرپور خراج عقیدت پیش کیا۔ مزید یہ کہ بنگلہ دیش کا سرکاری ریڈیو اردو سروس کی جلد بحالی کا پلان بھی بنا رہا ہے۔ یہ بہت ہی اچھی شروعات ہیں۔ خدا ہمارے مستقبل کے اچھے تعلقات کو دشمنوں کی بُری نظروں سے محفوظ رکھے۔ ڈیئر بنگلہ دیش لکھنے کو بہت دل کرتا ہے، کیوں نہ کرے؟ 53برس بعد جو ملے ہیں اس لیے جدائی کے ایک ایک لمحے کو آپ کے سامنے بیان کرنا چاہتے ہیں لیکن صفحات اجازت نہیں دیتے۔ بس ایک بات ہم ضرور لکھیں گے کہ 53برس پہلے جس روز آپ ہم سے بچھڑے تھے اُس دن ہمارے گھروں میں چولہے نہیں جلے تھے، کھانے نہیں کھائے گئے تھے، ہرکوئی دھاڑیں مار مار کر رویا تھا، ایسی صفِ ماتم تھی کہ کلیجہ منہ کو آتا تھا اور اب جب اقوام متحدہ کے اجلاس میں آپ کی حکومت کے سربراہ محترم پروفیسر محمد یونس صاحب سے ہمارے وزیراعظم شہباز شریف کی ملاقات ہوئی اور ہم نے اِن دونوں کو ایک ساتھ دیکھا تو پھر آنسو نکل آئے لیکن اِس مرتبہ یہ آنسو بے انتہا خوشی کے تھے اور ہم سب کے دل سے ایک ہی آواز نکلی ”ڈیئر بنگلہ دیش ہم آپ کے ہیں اور آپ ہمارے ہیں“۔

تبصرے بند ہیں.