آگاہی اور آگہی

92

زندگی کیا ہے؟ یہ معدوم سے وجود اور وجود سے معدوم ہونے تک کرب و خوشی کے بے شمار لمحات، امیدوں اور مایوسیوں کے تسلسل، محبتوں اور نفرتوں کی داستان، خوش گمانیوں اور بدگمانیوں کے طویل سلسلے سے بھرپور محدود و متعین وقت کا نام ہے۔ ایک ایسی مسافت جس کی منزل (موت) تو متعین، لیکن راہیں جدا جدا ہیں۔
زندگی ایک طویل انتظار اور ہر گزرتے پل ایک نئے امتحان کا نام ہے۔ ایک چیلنج ہے جسے ہر کسی کو قبول کرنا پڑتا ہے۔ ایک شمع ہے جسے پگھلتے پگھلتے آخر کار ختم ہونا ہے۔ ایک بلبلہ ہے جو ابھرتا ہے اور ختم ہو جاتا ہے۔ ایک چراغ ہے جو کسی بھی وقت بجھ سکتا ہے۔ ایک ایسی عمارت ہے جو کبھی نہ کبھی مسمار ہو کر ہی رہتی ہے۔ ایک ایسی خواہش کا نام ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتی ہے۔ ایک ایسا فریب ہے جس کی حقیقت موت کے سوا کچھ نہیں ہے۔ چکبست برج نرائن نے کیا خوب کہا ہے:
زندگی کیا ہے عناصر میں ظہور ترتیب
موت کیا ہے انہیں اجزا کا پریشاں ہونا
بہت کچھ حاصل کر کے اور بہت کچھ کھو کر انسان نہ چاہتے ہوئے بھی ہر قدم اپنی منزل کی طرف اٹھاتا چلا جاتا ہے۔ کبھی زندگی کا یہ سفر اتنا خوبصورت محسوس ہوتا ہے کہ انسان چاہتا ہے زندگی کے یہ خوبصورت لمحات ہمیشہ کیلئے یہیں تھم جائیں، مگر انسان ان خوبصورت لمحوں کو ہر قدم پیچھے چھوڑتے ہوئے بھی زندگی کے سفر پر گامزن رہتا ہے اور کبھی یہ سفر اتنا کٹھن ہو جاتا ہے کہ انسان اسے جلدی سے طے کر کے اپنی منزل کو پانے کی خواہش کرتا ہے۔ان تمام باتوں کے باوجود زندگی بہت عجیب و غریب کرشمے دکھاتی ہے۔یہ بادشاہ کو قیدی بنا سکتی ہے اور قیدی کو بادشاہ بنا سکتی ہے۔یہ وقت کو ظالم اور انسان کو
مظلوم بنانے میں ایک لمحہ لیتی ہے۔یہ بڑے بڑے بادشاہوں، حکمرانوں، شہ سواروں، جرنیلوں، سیاستدانوں اور وقت کے فرعونوں کو ایک لمحے میں موت کی سرحد کے پار پھینک دیتی ہے۔ یہ ایک پلڑے میں ایک تولے کو دوسرے پلڑے میں موجود ہزاروں ٹن سے بھارا کردیتی ہے۔آپ تاریخ کے اوراق پلٹ کر دیکھ لیجیے کتنے کتنے لوگ تاریخ کا حصہ بن گئے ہیں جو یہ سمجھتے تھے کہ اگر وہ نہ رہے تو شاید انکی مملکت کا نظام نہیں چل سکے گا؟اگر وہ ہاتھ کھینچ لیں گے تو انتظام و انصرام کا تختہ الٹ جائے گا؟ مگر یہ سب انکی خام خیالی تھی؟ انکا وہم تھا؟ کائنات یوں کی توں ہے اور اسکا اقتدار اعلیٰ اللہ کی ذات ہے۔
وہ ذات صرف انسانوں کو اقتدار دے کر آزماتا ہے کہ یہ مخلوق کا خیال کتنا رکھتے ہیں؟یہ ذمہ دار کتنے ہیں؟یہ محبِ وطن کتنے ہیں؟یہ امانت دار اور دیانت دار کتنے ہیں؟یہ اقربا پرور کتنے ہیں اور سب سے بڑی بات یہ قرآن اور سنت نبوی ﷺپر کس قدر عمل کرتے اور کراتے ہیں؟ تاریخ گواہ ہے کہ مغل بادشاہ، شاہ جہاں کے پاس ایک ترک غلام تھا، وہ بادشاہ کو پانی پلانے پر تعینات تھا، سارا دن پیالہ اور صراحی اٹھا کر تخت کے پاس کھڑا رہتا تھا، بادشاہ اس کی طرف دیکھتا تھا تو وہ فوراً پیالہ بھر کرپیش کر دیتا تھا، وہ برسوں سے یہ ڈیوٹی سرانجام دے رہا تھا اور بڑی حد تک بادشاہ کا رمز شناس ہو چکا تھا لیکن ایک دن اس سے غلطی ہو گئی۔بادشاہ کو پیالہ پیش کیا، بادشاہ گھونٹ بھرنے لگا تو شاہی پیالے کا ایک کنارہ جھڑا ہوا تھا اور ٹوٹے ہوئے پیالے میں پانی پینا ہندوستان کے بادشاہ کی توہین تھی، بادشاہ نے پیالہ نیچے دے مارا اور غلام کو بیس کوڑے لگانے کی سزا سنا دی۔بادشاہ کا حکم آخری حکم تھا، غلام کو کوڑے بھی لگ گئے اور وہ ڈیوٹی سے فارغ بھی ہو گیا، وقت بدلا، اورنگزیب عالمگیر نے اپنے والد کو قید میں ڈال دیا اور وہ تمام غلام اور ملازمین بوڑھے بادشاہ پر تعینات کر دیئے جنہیں کبھی شاہ جہاں نے سزائیں دی تھیں، وہ پانی پلانے والا غلام بھی ان ملازموں میں شامل تھا، بادشاہ کو قید میں پیاس محسوس ہوئی،پانی مانگا، غلام آیا اور پیالہ بادشاہ کے ہاتھ میں پکڑا دیا، بادشاہ نے پیالے کو غور سے دیکھا، وہ شکستہ تھا اور کسی نے اس کی کرچیاں، اس کی ٹھیکریاں جوڑ کر اسے قابل استعمال بنایا تھا، بادشاہ نے حسرت سے پیالہ دیکھا اور پھر غلام کی طرف دیکھ کر پوچھا میرے ساتھ یہ سلوک کیوں؟ غلام نے مسکرا کر عرض کیا حضور یہ وقت کا سلوک ہے۔یہ وہی پیالہ ہے جس کا ایک کونا بھرنے پر آپ نے اس میں پانی پینے سے انکار کر دیا تھا اور اسے زمین پر مار کر توڑ دیا تھا، میں نے اس ٹوٹے ہوئے پیالے کی کرچیاں اٹھا لی تھیں، میں نے انھیں جوڑا اور اس گھڑی کا انتظار کرنے لگا جب آپ کو وقت اس پیالے میں پینے پر مجبور کرے گا اور بادشاہ سلامت وہ وقت آ گیا شاہ جہاں کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ یہ آنسو اگر نہ بھی آتے تو بھی بادشاہ نے باقی زندگی پانی اسی ٹوٹے ہوئے پیالے میں پینا تھا کیوں؟ کیوں کہ یہ دنیا ایک وادی ہے اور اس وادی میں ہر شخص کو اپنی انا، اپنے تکبر اور اپنی حماقتوں کی بازگشت بہرحال سننا پڑتی ہے۔بہرحال جو حال ملک عزیز کا ان حکمرانوں اور سیاستدانوں نے کر دیا ہے۔اس کی سزا انہیں ملنی ہے اور انہیں روزِ قیامت حساب دینا ہوگا مگر وقت گزر چکا ہو گا اور انہیں ٹوٹا ہوا پیالہ بھی میسر نہ ہوگا اور یہ لوگ گھاٹے کا سودا کر رہے ہیں اور خود کو کھلا دھوکہ دے رہے ہیں۔

تبصرے بند ہیں.