گذشتہ دو تین ہفتوں سے ملک بھر میں آئینی ترامیم کا شور ہے اور ہر سیاسی ڈیرہ پر اس کا ذکر ہے اور اصل سوال یہ ہے کہ یہ آئینی ترامیم ہوں گی یا نہیں اور دوسرا اس سے بھی اہم سوال یہ ہے کہ حکومت آخر انہیں کرنے پر اتنی بضد کیوں ہے۔ کچھ لوگوں کا یہ خیال ہے کہ الیکشن کمیشن اگر سپیکر کے خط کی روشنی میں مخصوص نشستیں حکومتی اتحاد کو دے دیتا ہے تو اس کے بعد حکومت کے پاس دو تہائی اکثریت آ جائے گی اور حکومت آسانی کے ساتھ آئین میں اپنی من مانی ترامیم کر لے گی۔ اس پر کچھ سیاسی پنڈت کہتے ہیں کہ اگر اس طرح ترامیم ہوئیں تو ملک میں شور پڑ جائے گا اور سپریم کورٹ انہیں اڑا کر رکھ دے گی تو عرض ہے ایسا کچھ نہیں ہو گا۔ اول تو سپریم کورٹ کی جانب سے کسی بھی قسم کی مداخلت کو روکنے کا بندوبست انہی ترامیم میں ہو گا اور دوسرا ملک میں شور پڑنے کی جہاں تک بات ہے تو بلاول بھٹو زرداری بلا وجہ تو ملک بھر کی بار ایسوسی ایشنز سے خطاب نہیں کر رہے تو اگر اس طریقے سے بھی ترامیم ہوئیں تو کچھ نہیں ہو گا لیکن حکومت یہ طریقہ بحالت مجبوری اپنائے گی۔ اس لیے کہ الیکشن کمیشن نے ایک بار پھر مخصوص نشستوں کے حوالے سے سپریم کورٹ سے رجوع کر لیا ہے اور اس میں سپریم کورٹ سے پوچھا گیا ہے کہ 12جولائی کے فیصلے پر پہلے جو وضاحت مانگی گئی تھی وہ الیکشن ایکٹ میں ترمیم سے پہلے تھی لیکن اب الیکشن ایکٹ میں ترمیم ہو چکی ہیں تو اس کے بعد ان مخصوص نشستوں کی کیا صورت حال ہے۔ ہمارے خیال میں اس کھیل میں گیند ایک طرف سے دوسری طرف جس مہارت کے ساتھ پھینکی جا رہی ہے یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا کہ جب تک آئینی ترمیم نہیں ہو جاتی اور ظاہر ہے کہ آئینی ترمیم کے بعد معاملات میں ٹھہراؤ آ جائے گا۔
یہ اس لیے کہہ رہے ہیں کہ حکومتی اتحاد کو اگر مولانا کے ووٹ مل جاتے ہیں تو ان کے پاس دو تہائی اکثریت آ جائے گی اور ایک بات یاد رکھیں کہ حکومت کا سب سے بڑا ٹارگٹ دو ترامیم ہیں ایک آئینی عدالت اور دوسرا مدت ملازمت میں توسیع تھا اور مولانا فضل الرحمن کو سب سے زیادہ اعتراض مدت ملازمت میں توسیع پر تھا لیکن اب 25 ستمبر کو مولانا نے دوسری بار کھل کر آئینی عدالت کی حمایت کی اور یہ بھی کہا مدت میں توسیع اگر مفادات کے بجائے ضرورت کے تحت ہو تو ٹھیک ہے۔ یہ موقف برقرار رہے گا یہ آنے والے دنوں میں پتا چلے گا۔ اس کے ساتھ اے این پی کے ایمل ولی خان نے تو آئینی عدالت کی حکومت سے بڑھ کر حمایت کا اعلان کیا ہے اور بلاول بھٹو زرداری کی طرح کھل کر کہا ہے کہ یہ میثاق جمہوریت کا حصہ ہے لہٰذا یہ ترمیم ہونی چاہئے۔ اب اگر مولانا کے ووٹوں کے ساتھ آئینی ترامیم منظور ہوتی ہیں تو پھر سپریم کورٹ کے لیے انہیں منسوخ کرنا نا ممکن نہیں تو مشکل ترین امر ضرور ہو گا لیکن اگر پھر بھی ایسا ہوا تو اس فیصلے کو تسلیم نہیں کیا جائے گا بلکہ انہی ترامیم میں ججز کی تعیناتی اور ہٹانے کے حوالے سے جو اختیار حکومت کے پاس آ جائے گا تو اسے بروئے کار لایا جائے گا۔ یہ وہ امکانات ہیں کہ جو مستقبل میں ہو سکتے ہیں لیکن صورت حال میں ایک بات کو سب لوگ نظر اندار کر رہے ہیں کہ یہ تو اس صورت میں ممکن ہو گا کہ سپریم کورٹ میں ان ترامیم کے خلاف جو اپیل دائر ہو گی اس پر کوئی ایسا بینچ بنے کہ جو پارلیمنٹ کی سپریم حیثیت کو اور اس کے آئین میں ترمیم کرنے کے اختیار کو تسلیم نہ کرے کیونکہ آئین کے آرٹیکل 239 فائیو کے تحت پارلیمنٹ کی دو تہائی اکثریت سے منظور کردہ کسی بھی ترمیم کو کسی عدالت میں چاہے کچھ بھی ہو اعتراض نہیں کیا جائے گا اور اسی آرٹیکل کی شق چھ کے تحت پارلیمنٹ کو آئین میں ہر قسم کی ترمیم کا اختیار ہے لہٰذا اب افتخار چودھری یا عظمت سعید والے فیصلوں کو دلیل کے طور پر تسلیم نہیں کیا جائے اور اگر کسی نے ان ترامیم سے کوئی چھیڑ چھاڑ کرنے کی کوشش کی تو نتائج پہلے کی نسبت کافی حد تک مختلف نکلیں گے۔
اب بات کرتے ہیں کہ آخر حکومت یہ ترامیم ہر حالت میں کیوں کرنا چاہتی ہے تو بات یہ ہے کہ دکھ جھیلے بی فاختہ اور کوے انڈے کھائیں۔ حکومت اتنی بھی نادان نہیں ہے کہ اپریل 2022 سے لے کر اب تک ڈھائی سال کا عرصہ ہونے کو آ رہا ہے تو مہنگائی کر کر کے اپنی سیاست کا بیڑا غرق کر لیا ہے۔ بجلی کے بلوں میں جو اضافہ ہے اسی کا بوجھ اتنا ہے کہ اگلے کئی سال اس بوجھ کو اتارنے میں لگ جائیں گے اور اب اگر اکانومی بہتر ہو رہی ہے تو حکومت کسی دوسرے کے ہاتھ دے کر یہ لوگ گھر چلے جائیں۔ ایسا یقینا ممکن تھا کہ اگر موجودہ حکومت صوفیوں کی ہوتی لیکن یہ بھی سیاست دان ہیں۔آئی ایم ایف سے 7 ارب ڈالر کے پیکیج کی منظوری ہوئی ہے اور منظوری کے ساتھ ساتھ پاکستان کی معیشت کی تعریف بھی کی ہے اسی طرح گذشتہ دنوں بلوم برگ نے بھی معیشت میں بہتری کی تصدیق کی اور پاکستان کی بین الاقوامی ریٹنگ میں ایک درجہ بہتری بھی آئی۔ ایک ارب دس کروڑ کی قسط ملنے کے بعد قوی امکان ہے کہ پاکستان کی معیشت میں مزید بہتری آئے گی اور اہم ترین یہ کہ ڈالر کے ریٹ کم ہونے کے امکانات بھی ہیں جس سے پیٹرول کی قیمتوں میں مزید کمی کرنا حکومت کے لیے ممکن ہو جائے گا اور اسی کے تسلسل میں امید ہے کہ جو پاور پلانٹ پیٹرول پر چل رہے ہیں وہ بھی بجلی کی قیمتوں میں کمی کریں گے اور ویسے بھی آئی پی پیز سے کپیسٹی چارجز کے مسئلہ پر بات جاری ہے تو ممکن ہے کہ اس میں بھی عوام کو ریلیف مل جائے تو یہ سب کرنے کے بعد بہتر معیشت کیا ٹرے میں سجا کر تحریک انصاف کو دے کر موجودہ حکومت گھر چلی جائے ایسا کہیں نہیں ہوتا اور نہ یہاں ہو گا لیکن دیکھنا اب یہ ہے کہ آئینی ترمیم حکومتی مسودے کے مطابق ہوتی ہے یا جو مسودہ جے یو آئی اور تحریک انصاف بنائیں گے اس کے مطابق ہو گی۔
Prev Post
تبصرے بند ہیں.