پچھلے کالم میں ،میری طرف سے کینیڈا کی بیو روکریسی کا ایک مختصر سا جائزہ پیش کیا گیا تھا ، جس پر سرکاری افسروں،اہلکاروں ،سیاستدانوں اور عوام کی طرف سے بہت زیادہ رد عمل سامنے آیا ،ہر کوئی یہ پوچھ رہا ہے کہ ہمارا بیوروکریٹک سسٹم ناکام کیوں ہے؟ پاکستان اور کینیڈا کا تقابل تو نہیں بنتا کہ وہ ایک ترقی یافتہ ملک اور ہم ابھی ترقی پذیر کہلاتے ہیں پھر بھی یہ تو کہا جا سکتا ہے کہ کینیڈا ترقی یافتہ اس لیے ہے کہ اس کی قیادت ایمان دار ہے اور بیوروکریسی شان دار کام کر رہی ہے اور پاکستان ابھی تک غربت اور پس ماندگی سے اس لیے نبردآزما ہے کہ یہاں بیوروکریسی کی راہ میں بہت سی رکاوٹیں دیواریں دشواریاں اور کٹھنائیاں ہیں، ہماری ملکی قیادت بھی اتنی ایمان دار نہیں جتنا اسے ہونا چاہیے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ نظامِ مملکت دونوں ملکوں میں بیوروکریسی ہی چلا رہی ہے لیکن پھر کیا وجہ ہے کہ وہاں کا نظام ڈلیور کر رہا ہے یہاں کا ڈلیور نہیں کر پا رہا؟ اس سوال کا جواب بھی تلاش کرنے کے لئے پہلے یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ نظامِ مملکت کس کے ہاتھ میں ہوتا ہے؟ ظاہر ہے انسانوں کے ہاتھ میں اس لیے کہ نظام اداروں سے تشکیل پاتے ہیں اور ادارے انسان چلاتے ہیں۔ دونوں نظاموں (کینیڈا اور پاکستان) میں انسانوں پر (دوسرے لفظوں میں نظام پر) چیک اور بیلنس کیا ہیں؟ انسانوں کے ذریعے ہی قوانین پر عمل درآمد ہوتا ہے، اب اگر ایک ملک میں نظام اپنی پوری گنجائش اور صلاحیت سے کام کر رہا ہے اور دوسرے میں نہیں کر رہا تو اس کا کیا مطلب ہے؟ دوسرے لفظوں میں کس چیز سے ایک نظام کام کرتا ہے اور دوسرا نہیں کرتا؟ اس کا جواب ہے’’انسان‘‘ جو سسٹم کو بناتے یا توڑتے ہیں، ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ سوچ سمجھ اور شعور رکھنے والا انسان کہلاتا ہے اور بیوروکریسی بھی اسی معاشرے سے وجود پاتی ہے۔پاکستانی بیوروکریسی کیوں اچھا کام نہیں کر رہی کیا وہ اپنا کردار ادا نہیں کر سکتی یا اسے ادا نہیں کرنے دیا جا رہا؟ کیا اس پر سیاسی پریشر ہے؟ کیا یہ دھڑے بندیوں کا شکار ہے؟
میرے خیال میں یہ سارے ہی معاملات پاکستان میں بیوروکریسی کی کارکردگی پر اثر انداز ہوتے ہیں خصوصاً بیوروکریسی کے کام میں رکاوٹ اور مداخلت، اس کی مثال میں یوں دوں گا کہ کینیڈا میں اگر کوئی پولیس افسر ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر وزیر اعظم کے بیٹے حتیٰ کہ خود وزیر اعظم کو بھی روک لیتا ہے اور وارننگ دیتا یا جرمانہ کرتا ہے تو اسے کہیں سے کوئی سفارشی فون نہیںآئے گا کیونکہ ان کی نظر میں قانون سب سے معتبر ہے، لیکن یہی کام اگر یہاں پاکستان میں ہو یعنی کوئی پولیس افسر کسی اعلیٰ حکومتی عہدے دار کو ٹریفک سگنل کی خلاف ورزی پر روک لے تو پانچ منٹ سے پہلے پہلے اس کے کام میں کہیں نہ کہیں سے مداخلت ہو گی اور سفارشی فون آ جائے گا جو اس پولیس آفیسر کو ماننا پڑے گا۔
ایک دور تھا جب ہماری بیوروکریسی دنیا میں ماڈل تسلیم کی جاتی تھی،ترقی پذیر ممالک سرکاری افسروں کو تربیت کیلئے پاکستان بھجوایا کرتے تھے، قیام پاکستان کے بعد کی بیوروکریسی ، نظم و ضبط،مہارت،تجربے،دیانت،کام کی لگن،قواعد ضوابط کی پابندی کے حوالے سے مثالی تھی،افسر کسی قسم کی مداخلت اور دبائو برداشت کرتے تھے نہ کسی افسر کو اصول و ضوابط سے ہٹ کر کام پر مجبور کیا جا سکتا تھا،یہ وہ زمانہ تھا جب قانون کی عملداری اور افسروں کی سمجھداری مشہور تھی۔ قواعد کا احترام عام تھا،سرکاری ملازم حکومتی نہیں ریاست کے ملازم ہوتے تھے،کسی حکمران کو غیر قانونی حکم دینے کی جرات نہ تھی،یہی وجہ ہے کہ آزادی کے فوری بعد بڑے بڑے جاگیردار،سرمایہ کار اور سیاستدان اپنے بچوں کو سرکاری افسر بنانے کو ترجیح دیتے تھے،مگر سیاسی مداخلت،حکومتی دبائو کے باعث یہ مثالی فورس انحطاط کا شکار ہوتی گئی۔ریاست کے مفادات پر حکومتی مفادات غالباًگئے،زبانی اور قواعد کے منافی احکامات کی تعمیل ہونے لگی،اصول و قانون ثانوی حیثیت اختیار کر گئے، افسروں کی قابلیت ،پسند نا پسند پر پرکھی جانے لگی،تبادلے اور ترقی کو حربہ کے طور پر استعمال کیا جانے لگا۔
افسروں کی اصول پسندی اور قانون و قاعدے کی وجہ سے وقت کے حکمران اپنے مطلب کے افسروں کی تلاش میں سرگرداں رہتے،ہر حکمران اپنے ہر قسم کے احکامات پر بلا چون و چرا عمل کرنے والے افسروں کے گروپ بناتے اور زبانی احکامات سے امور سلطنت چلاتے رہے،نتیجے میں بیوروکریسی میں سیاسی جماعتوں کے وفادار گروپ وجود میںآ گئے،نئے حکمران اقتدار سنبھالنے کے فوری بعد اپنے وفادار پسندیدہ افسروں کو تلاش کر کے ذمہ داریاں سونپ کر خود حکمرانی انجوائے کرتے،بیوروکریسی کی اکثریت اب ریاست یا حکومت کے نہیں اپنے پسندیدہ سیاستدانوں اور ان کی سیاسی جماعتوں کے ملازم اور وفادار بن چکے ہیں،نتیجے میں دنیا کی بہترین بیوروکریسی حکمرانوں کے ہاتھ میں کھلونا بن گئی،اعلی عہدوں پر تعیناتی کیلئے یہی طریقہ رواج پا چکا ہے،حکمران اہم عہدوں پر اپنے پسندیدہ اور وفادار افسر متعین کر کے اقتدار کو مضبوط کرتے ہیں۔
ماضی قریب میں افسر کی اہلیت اس کی تعلیم ،تجربہ ،قابلیت،دیانت ،اصول پسندی،کام سے لگن،قاعدہ قانون کے احترام،محنت کو تصور کیا جاتا تھا، بہترین اپ رائٹ افسروں کی نہ صرف ساتھی افسر بلکہ حکومتی ذمہ داران بھی قدر کیا کرتے تھے،حکمران اقتدار کے استحکام،طوالت،عوامی مسائل کے حل،منشور پر عملدرآمد کیلئے ایسے افسروں کو چراغ لیکر ڈھونڈتے اور اہم عہدوں پر تعینات کرتے تھے،مگر اب دیکھا جاتا ہے کسی بھی افسر سے کس قسم کے اور کیسے فوائد حاصل کئے جا سکتے ہیں،حکومت کو کیسے مفادات مل سکتے ہیں،حکومت کے استحکام طوالت میں کتنے معاون ہو سکتے ہیں،جن میں یہ اوصاف ہوتے ہیں ان کی اہم ترین عہدوں پر تعیناتی عمل میںآجاتی ہے،اہلیت قابلیت اب کوئی معنی نہیں رکھتی۔
بات اب اس سے بھی آگے نکل گئی ہے ،قبل ازیں فوائد سیاسی اور انتظامی اہمیت رکھتے تھے مگر بتدریج مالی مفادات نے بھی ان کی جگہ پا لی ہے ،اب سیاسی اور انتظامی فوائد ثانوی ہو گئے اور مالی مفادات اہمیت اختیار کر گئے کچھ افسروں کو تو کچھ حکمران مالی مشیر کا درجہ دے دیتے ہیں،ان کے اصل فرائض منصبی پس پردہ چلے جاتے ہیں اور وہ حکمرانوں کو بتاتے ہیں کس منصوبہ سے وہ کیسے مفادات حاصل کر سکتے ہیں،اب تو افسروں کی تعیناتی میں واقفیت، تعلق واسطہ بھی کچھ حیثیت نہیں رکھتا،نظر صرف مفاد پر ہوتی ہے،یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ فلاں افسرمستقبل میں کوئی نقصان تو نہیں پہنچا سکتا اگر اس ضمن میں رتی بھر بھی اندیشہ ہو تو ایسے افسر کو راندہ درگاہ کر دیا جاتا ہے،یہ وہ عوامل اور عناصر ہیں جن کی وجہ سے بیورکریسی انحطاط اور زوال کا شکار ہے،بد قسمتی سے انحطاط کا یہ سفر اختتام پذیر ہوتا دکھائی نہیں دے رہا جس کی وجہ سے بیوروکریسی کی کارکردگی بھی متاثر ہو رہی ہے اور ان کی اہمیت میں بھی کمی واقع ہو رہی ہے اورآج ریاست کے ملازم حکومت کے بھی ملازم نہیں رہے سیاسی جماعتوں کی بی ٹیم بن چکے ہیں۔
Prev Post
تبصرے بند ہیں.