میں نے آئین بنتے دیکھا !!

95

محترم الطاف حسن قریشی صاحب پاکستانی صحافت کا ایک نہایت معتبر نام ہیں۔ گزشتہ سات دہائیوں سے آپ صحافت کے افق پر پوری آب و تاب سے جگمگا رہے ہیں۔ ہر زمانے میں آپ حق سچ کا پرچار کرتے رہے۔ اپنے دبنگ انداز صحافت کی وجہ سے آپ کو قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کرنا پڑیں۔ اپنی صحافتی زندگی میں آپ نے سیاسی، سماجی اور معاشی موضوعات پر سینکڑوں ، ہزاروں مضامین ، اداریے اور رپورٹیں لکھیں۔ الطاف قریشی صاحب کو بیسیوں معروف شخصیات کے انٹرویوز کر نے کا موقع ملا۔ آپ کے بہت سے انٹرویو تاریخی اہمیت کے حامل ہیں۔برسوں پہلے قریشی صاحب نے اپنے بڑے بھائی محترم اعجاز قریشی صاحب کے زیر سایہ ریڈرز ڈائجسٹ کی طرز پراردو ڈائجسٹ کا آغاز کیا تھا۔ اردو ڈائجسٹ نے پاکستان میں مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کئے۔ آج بھی اردو ڈائجسٹ نہایت کامیابی سے شائع ہورہا ہے۔ الطاف قریشی صاحب کی عمر کم و بیش 93 برس ہے۔ اس پیرانہ سالی کے باوجود قومی ایشوز پر ان کی فکر انگیز تحریریں ہماری نگاہ سے گزرتی رہتی ہیں۔آپ ہمہ وقت لکھنے پڑھنے اور تحقیق میں مصروف رہتے ہیں۔ وقتا ًفوقتاً آپ کی کوئی نہ کوئی نئی تصنیف منظر عام پر آ تی ہے۔ ماضی قریب میں ان کی دو کتابیں’’جنگ ستمبرکی یادیں’’اور‘‘ مشرقی پاکستان، ایک ٹوٹا ہوا تارا ‘‘ منظر عام پر آئیں۔ یہ دونوں کتابیں تاریخی اہمیت کی حامل ہیں۔ ا ن کے ناموں سے ہی ان کے موضوعات اور کتابوں کے مواد کا اندازہ کیا جا سکتا ہے ۔
اب الطاف قریشی صاحب نے ’’میں نے آئین بنتے دیکھا ‘‘کے عنوان سے ایک نئی کتاب شائع کی ہے۔ اس کتاب کے شریک مصنف پروفیسر ڈاکٹر امان اللہ صاحب ہیں۔ ڈاکٹر صاحب پنجاب یونیورسٹی لاء کالج کے پرنسل ہیں۔ وہ ایک اچھے استاد تو ہیں ہی۔ لیکن ان کی ایک بڑی خوبی ان کے جمہوری اور آئینی افکار ہیں۔ یہ وہ خوبی ہے جوہمیں آج کے اساتذہ میں بھی کم کم ہی دکھائی دیتی ہے۔ اس کتاب کا عنوان پڑھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے یہ کتاب پاکستان میں آئین سازی کے مختلف مراحل کی کہانی بیان کرتی ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ یہ دراصل قیام پاکستان کی کہانی ہے۔ الطاف قریشی صاحب اس کتاب کے آغاز میں اپنی ذاتی کہانی بیان کرتے ہیں کہ کس طرح ان کے سیاسی اور جمہوری افکار کی نشو نما ہوئی۔ کن شخصیات کے زیر سایہ ان کے افکار نے استحکام حاصل کیا۔
یہ کتاب مغلیہ سلطنت کے زوال کی کہانی بیان کرتی ہے جو 1857 ء میں بہادر شاہ ظفر کی حکومت کے خاتمے پر منتج ہوا ۔ کتا ب میں سر سید احمد خان کی تعلیمی، ادبی اور آئینی جدوجہد کا تذکرہ ملتا ہے۔ اس کے علاوہ ترتیب وار تقسیم بنگال، مسلم لیگ کے قیام، برطانوی سامراج کے مظالم، ہندووں کی سازشوں، علامہ قبال کے تصور پاکستان، قائداعظم کی جدوجہد اور تحریک پاکستا ن کی کہانی کا بیان موجودہے۔ قیام پاکستان کے تناظر میں یہ ایک نہایت عمدہ کتاب ہے۔ اسے نہایت سادہ اور عام فہم انداز میں لکھا گیا ہے۔ آج کل یہ رواج چل نکلا ہے کہ نوجوان منہ اٹھا کر یہ سنی سنائی بات کہہ دیتے ہیں کہ پاکستان بنانے کا فائدہ ہی کیا تھا؟ اگرچہ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ بہت سے نام نہاد دانشور برسوں سے یہ پروپیگنڈا کر رہے ہیں۔ اب یہی بات وہ نواجونوں کے ذہنوں میں ڈال رہے ہیں۔ اس تناظر میں لازم ہے کہ نوجوان نسل اس کتاب کو پڑھے اور یہ بات سمجھے کہ کن حالات اور مشکلات کے بعد یہ ملک ہم نے حاصل کیا تھا۔
اس کتاب کے حوالے سے پنجاب یونیورسٹی کے ایگزیکٹو کلب میں ایک تقریب کا بھی اہتمام ہوا۔ محترم الطاف قریشی صاحب اور کتاب کے پبلشر برادرم علامہ عاصم صاحب کی دعوت پر مجھے کتاب کی اس تعارفی تقریب میں شرکت کا موقع ملا۔ تقریب میں الطاف قریشی صاحب اور مجیب الرحمن شامی صاحب نے قیام پاکستان، جمہوریت اور آئین کے ضمن میں نہایت عمدہ اور پرمغز گفتگو کی۔ تقریب میں محترم عطا الحق قاسمی، حفیظ اللہ نیازی، ڈاکٹر حسین پراچہ، سجاد میر صاحب، آپا سلمی اعوان، ڈاکٹر مجاہد کامران، ڈاکٹر خالد محمود ، سمیت دیگر نامور شخصیات بھی موجود تھیں۔’’میں نے آئین بنتے دیکھا‘‘کی یہ جلد اول ہے۔ امید ہے کہ اس کتاب کی جلد دوم بھی جلد سامنے آئے گی اور کتاب کے ٹائٹل کا مکمل احاطہ کرتے ہوئے، قیام پاکستان کے بعد کی کہانی اور آئین سازی کی روداد بیان کرئے گی۔
اس کتاب کو پڑھتے ہوئے مجھے بار بار یہ خیال آتا رہا کہ کاش الطاف قریشی صاحب جلد دوم میں یہ احوال تفصیلاً بیان کریں کہ کس طرح قیام پاکستان کے بعد ہم سیاسی اور انتظامی مسائل میں الجھ کر آئین سازی سے آٹھ نو برس تک غافل رہے۔ دوسری طرف بھارت نے اپنی توجہ آئین بنانے پر مرکوز رکھی او ر دو سال کے عرصہ میں اپنا آئین بنا لیا۔ 23 مارچ 1956ء کو تشکیل پانے والے پاکستان کے پہلے آئین کو فقط دو سال بعد یعنی 1958 ء میں جنرل ایوب خان نے منسوخ کیا اور مارشل لاء نافذ کرکے ملک کے سیاسی نظام میں فوجی مداخلت کی باقاعدہ بنیاد رکھ دی۔سقوط ڈھاکہ کے بعد نہایت محنت کے بعد 1973 کا آئین بنایا گیا تھا۔ لیکن چند سال کے بعد جنرل ضیا الحق نے اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹا ، 1973ء کے آئین کو معطل کیا اور مارشل لاء نافذ کر کے ملک کے سیاہ و سفید کے مالک بن بیٹھے۔ 1999 ء میں جنرل پرویز مشرف نے اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت گرائی، آئین کو معطل کیا اور ایمرجنسی نافذ کر دی۔
کاش جلد دوم میں الطاف قریشی صاحب یہ کہانی بھی بیان فرمائیں کہ ہماری عدلیہ نے آئین توڑنے والوں کا کس کس طرح ساتھ نبھایا۔ کس طرح 1954ء میں جسٹس منیر نے مولوی تمیز الدین کیس کے فیصلے میں نظریہ ضرورت کی بنیاد رکھی۔ کس طرح سپریم کورٹ نے 1958ء میں جنرل ایوب خان کے مارشل لاء لگانے اور آئین منسوخ کرنے کے عمل کو قانونی تحفظ فراہم کیا۔ 1977ء میں ذولفقار علی بھٹو کا تختہ الٹنے اور مارشل لاء نافذ کرنے کے اقدام پر ہماری اعلیٰ عدلیہ نے جنرل ضیاالحق کو قانونی چھتری فراہم کی۔ اس کے بعد 2000ء میں بھی سپریم کورٹ نے جنرل پرویز مشرف کے نواز شریف حکومت کا تختہ الٹنے اور مارشل لاء لگانے کو جائز قرار دیا تھا ۔ اس کے علاوہ نہایت فراخ دلی سے جنرل مشرف کو آئین میں ترامیم کی اجازت بھی دے ڈالی۔کاش یہ قصہ بھی بیان ہو کہ کس طرح اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان دور آمریت میں پی۔ سی۔ او کے تحت حلف اٹھاتے اور اعلیٰ عہدے قبول کرتے رہے۔ امید ہے کہ اس کتاب کی جلد دوم میں الطاف قریشی صاحب تاریخ اور سیاست کے ہم جیسے طالب علموں کے لئے یہ کہانی تفصیلاً بیان فرمائیں گے۔

 

تبصرے بند ہیں.