پاکستان کا اصل مسئلہ معیشت ہے سیاست دان تو ملک کی تباہی کیلئے ایک دوسرے سے بازی لیجانے میں مصروف ہیں اس صورتحال میں عوام چکی میںپس رہے ہیں آپس میںدست و گریباںسیاست دانوں ، اداروں میںاچھائی کی کوئی فوری امید نہیںعسکری قیادت کے تعاون سے موجودہ حکومت کوششوں میں مصروف ہے ملک میں افراتفری پھیلانے والے عناصرکو کس طرح قابو کیاجاسکتا ہے وہ ہماری عسکری قیادت بخوبی جانتی ہے اور جو لوگ بھی اس ادارے سے منفی سرگرمیوںمیں ملوث پائے جاتے ہیں انہیںسزا دینے میںہماری آج کی عسکری قیادت تاخیر نہیں کرتی 9 مئی کے کردار جو اس ادارے سے وابستہ رہے ہیںانہیں اپنے مقام پرپہنچانے میں کوئی تاخیری حربہ نہیں ، مگرجو سیاست دان یا انکے پیروکار ملک کے امن و امان کے خلاف کام کرتے ہیں ’’نام نہاد انسانی حقوق‘‘کا نام لیکر معزز عدلیہ ان کے آگے کھڑی ہے وہاںبھی قانون نہیںبلکہ اپنی اپنی سوچ نے عوام کو بلڈ پریشر اور شوگر کا مریض بنا دیا ہے عوام میں ملکی حالات کے حوالے سے مایوسی چھائی ہے ، چونکہ ملک کی اشرافیہ اس گورکھ دھندے میں اربوںروپے کما رہی ہے انہیں ملک کی تباہ معیشت اور امن وامان سے کوئی دلچسپی نہیں، حکومت بھی ان پر ہاتھ ڈالنے سے شائد خائف رہتی ہے۔ مہنگائی کے اس ہوشربا دور میںبجلی کے نرخوںنے مزید تیل اور آگ کا کام کیا ہے ، کھانے کو روٹی نہیں ہزاروں اور لاکھوںکے بجلی کے بل کیسے ادا کریں اسکی ذمہ دار بھی اشرافیہ ہے جو مہنگی بجلی فراہم کرکے اربوںروپے کما رہی ہے ۔ اس اشرافیہ کا ایک بڑا حصہ یا تو اسمبلی میںرہتا ہے یا اپنی دولت کی وجہ سے بڑی ’’پہنچ ‘‘کا مالک ہے۔ ایسے میںپاکستان کا نوجوان جو ایک غریب خاندان کا چشم و چراغ ہے ارشد ندیم ملک میں خوشی کی خبر لایا ۔۔ ارشد ندیم جیسے نوجوان پاکستان کے فرزند اصل میں پاکستان کے سفارت کار کہلانے کے صحیح حقدار ہیں جن پر حکومت اورنہ ہی وزارت خارجہ کی کوئی دمڑی خرچ ہوتی ہے ۔وہ مملکت خداداد پاکستان کا بغیر تنخواہ کا محب وطن ہے اس نے پاکستان کے خزانے سے کوئی مراعات لیں نہ تنخواہ مگر پاکستان کا نام سورج اور چاند کی طرح چمکا دیا، سفارت کار تو تا عمر مراعات وصول کرتے ہیں میری خواہش اور ہر محب وطن کی یہ خواہش ہے کہ ملک کا نام روشن کرنے والوں کی پذیرائی ہو ۔ نیزملک کو معیشت ، تجارت کو فروغ دینے کیلئے پاکستان مشنز میں موجود شعبہ تجارت کو مضبوط کیا جائے، جدہ کی ہی مثال لے لیں جہاں کمرشل ڈپارٹمنٹ صرف ایک قونصلر محترمہ سعادیہ خان ،اور ایک رابطہ افسر فواد چوہدری بہ حیثیت business devlopment Officeکام کررہے ہیں فواد مقامی پر طور ملازم رکھے گئے ہیں اور کئی سال سے پاکستانی تجار اور سعودی تجار سے قریبی روابط ہیںہر نئے قونصل کمرشل کیلئے بہترین معاون کا کردار ادا کرتے ہیں مگر یہاں سوال یہ ہے کہ قونصلیٹ کا اہم ترین شعبہ جس کے ذمہ سعودی عرب سے پاکستان کی تجارت درآمد، برآمد کیلئے تجار سے رابطے اور پاکستان اجناس کیلئے یہاں بہترین تجار کوتلاش اور انہیں پاکستان سے تجارت کی طرف راغب کرنا وہاںصرف دو افرادکام کررہے ہیں پہلے شائد چار یا پانچ لوگ ہوا کرتے تھے جبکہ اب صرف دو کا سٹاف کام کررہا ہے اس صورتحال میں اب حکومت کی سنجیدگی کے لئے کونسا لفظ استعمال کیا جائے ؟؟؟ کچھ لکھا جائے قونصلیٹ میں بیٹھے دوسرے شعبوںکے ’’محب وطن‘‘ افسران ناک بھوں چڑھاتے ہیں۔ماہانہ رپورٹ پاکستان میں موجود وزیر تجارت کو بھیج جاتی ہے انکا اسٹاف اس رپورٹ کو فائل میں خوبصورتی سے رکھ کر الماری میں رکھ دیاجاتا ہے۔ پہلے بھی یہاں کمرشل قونصلر نے کئی معقول تجاویز دی تھیں جس سے تجارت کو فروغ ہو موجودہ قونصلر نے بھی تجاویز دی ہونگی مگر پاکستان میں وزراء کوایک دوسرے کا گریبان چھوڑنے اور پکڑنے سے فرصت نہیں ملتی پاکستان کے بہترین مستقبل کا کون سوچے ؟؟؟ پاکستان میں کئی ادارے ہیں چیمبرز ، ٹیکسٹائل صنعت کی تنظیمیں وہ کیوں نہیں اپنی اجناس کی فروغ کیلئے سعودی عرب میں اپنا نمائندہ رکھتے ؟؟ انکے نمائندے سعودی عرب کے تجار سے قریبی روابط رکھنے کیلئے قونصلیٹ یا سفارت خانہ کے ٹریڈ افسران کی مدد کریں جو مقامی حکومتی معاملات میں انکی بھر پور مدد کرسکتے ہیں ہمارے تعلقات سعودی عرب سے اتنے اچھے ہیںکہ یہا ں ہمیں اپنی اشیاء سعودی عرب میںدرآمد کرنے میںکبھی کوئی مشکل پیش نہیں آسکتی اور ہماری تجارت اس دوست ملک کے ساتھ جو اسوقت سعودی درآمد کی ایک فیصد ہے اس میں قدرے اضافہ ہوسکتا ہے ، پاکستانی چاول، کھیلوں کا سامان،تازہ فروٹ،سبزیاں، گوشت، فرنیچر،اور بے شمار اشیاء ایسی ہیںجو پاکستان سے برآمد ہوسکتی ہیں مگر حکومت کی جانب سے کوئی ہل جل نہیں کہ بیرون ملک اپنے کمرشل سیکشن کو طاقت دی جائے انکے جائز مسائل پر توجہ دی جائے تاکہ تجارت کو فروغ دیاجاسکے ، کمرشل سیکشن کی سفارشات پر توجہ نہ دیکر ارباب اقتدار نہ صرف ملک کی معیشت کو نقصان پہنچاتے ہیں بلکہ اگر کوئی ٹریڈ آفیسرز، قونصل دنیا کے کسی بھی ملک کے سفارت خانے ، قونصل خانوںمیں خدمات انجام دے رہا ہو اسکی حوصلہ شکنی ہوتی ہے وہ ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر بہ حالت مجبوری تنخواہ اور مراعات کا انتظارکرتاہے تین سال مکمل ہونے پر کسی اور ملک سدھار جاتاہے اور یہ نوکر شاہی کی عادت بن جاتی ہے ، ارباب اقتداردر اصل زرمبادلہ کمانے والی بیرونی تجارتی شعبہ جات میں ہی آنکھیں بند نہیں کرتا بلکہ یہ بدنام زمانہ سرخ فیتہ کا شکار بیرون ملک پاکستانی بھی ہیں جو ملک کی معیشت کا بڑا حصہ زرمبادلہ کی شکل میں ملک بھیجتا ہے اس کے عوض بیرون ملک پاکستانی بھی کسی قسم کی مراعات سے محروم ہیں شائد ہم صرف اس بات پر خوش ہیں کہ سعودی عرب میںموجود پاکستانی یہاںسے زرمبادلہ پاکستان بھیجنے میں پہلے نمبر پر ہیں یہ اور بات ہے کہ ہر حکومت انہیں پاکستانی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کہتے ہیں۔ سعودی عرب پاکستان کے لیے ایک اہم تجارتی مقام ہے۔ مگر کیا یہ ہمارے لئے قابل فکر بات نہیں کہ جس ملک میں اپنی تجارت بہت زیادہ کرسکتے ہیںوہاںسعودی عرب کے تجارتی حجم میںپاکستان کا حصہ ایک فیصد ہے جسکی وجہ ہمارے مارکیٹنگ سسٹم کی کمزوری ہے ہم سال میںایک دفعہ پاکستان سے آم کی پیٹیاں منگا کر تجار اور اہم لوگوںتک پہنچادیتے ہیں وہ لوگ جنہیںسفارت کار تقسیم کرتے ہیںاللہ جانے وہ واقعی پاکستان کیلئے کارآمد لوگوں تک بھی پہنچتی بھی ہیںیانہیں؟؟ ہمارے پاس اتنی رقم بھی نہیں کہ ہم آم کے موسم میں یہاں آم کی اعلیٰ مختلف اقسام کی نمائش کر سکیں،جدہ میں گزشتہ تیس سال میںمیںنے صرف دو مرتبہ قونصلیٹ کے زیر اہتمام وہ نمائش دیکھی ہیںوزیر اعظم میاں شہباز شریف ایک بہترین منتظم تصور کئے جاتے ہیں اسکے ثبوت بھی موجود ہیں مگر وہ کونسے اعلیٰ مشیران ہیں جو انہیں بیرون ملک تجارت ، بیرون ملک سے زرمبادلہ بھجنے والی ریڑھ کی ہڈیوں سے دور رکھتے ہیں خدارا ان سے نجات پائیں۔
تبصرے بند ہیں.