رات گئے بلکہ آثار ِ سحر سے کچھ پہلے نہ جانے کیوں مجھے احساس ہوا کہ آج چودہ اگست ہے ۔ تخلیق ِ پاکستان کا دن ۔ ایک طویل اور انتھک جدوجہد کے نتیجہ میں حاصل ہونے والی ریاست۔ آج پاکستان کو تخلیق ہوئے 77 برس بیت گئے ۔ بیتے برسوں کی ڈائری بدترین سازشوں، آئینی خلاف ورزیوں، رشوت، کرپشن، اقربا پروری، صوبہ پرستی، تقسیم در تقسیم اور بدترین سماجی طبقات کی معاشی ناانصافیوں سے اٹی پڑی ہے۔ پاکستان میری پہلی اور آخری پناہ گاہ ہے ۔میں اسے چھوڑ بھی نہیں سکتااور یہاں آبرو مندانہ طریقے سے گزر بسر بھی نہیں کر سکتا۔ یہ صرف میرا نہیں کروڑوں پاکستانیوں کا درد ہے ۔ آبرومندانہ شہری ہونا تو دور کی بات ہے جن کا آئین میں لکھا ہے کہ وہ ’’پبلک سرونٹ‘‘ ہیں اُن کا رویہ اورجبر عوام پر بے رحم خود مختار مورثی حکمرانوں سے بھی بدتر ہے ۔ارشد ندیم نے ہمیں دنیا میں ایک نئے چہرے کے ساتھ پھر متعارف کروایا ہے جس کیلئے میں اُس کا شکر گزار ہوں ۔ ہمیں اس فتح کی بہت ضرورت تھی کہ جسے فیڈریشن سمبل کے طور پر منایا جا سکے ورنہ عمران نیازی نے جو تقسیم کرنے کی سازش کی تھی الامان الامان۔۔۔ میں نے بہت سال بعد پھر قائد اعظم کی 11 کا اگست 1947ء کی مجلسِ دستور ساز سے پہلی تقریر نکالی اور بار بار پڑھتا رہا۔ اس ریاست نے قائد کے افکار کے مطابق تو کیا بننا تھا ہم نے اُس سے متضاد بلکہ متصاد م ریاست بنا دی۔ قائد کی تقریر سے میں نے ایک پیراگراف آپ کی یادداشتوں کی نذر کرنے کیلئے نکالا ہے جسے پڑھ کر یہ احساس ہوتا ہے کہ جیسے قائد نے یہ تقریر 11 اگست 2024 ء کی رات کو کی ہو۔ ’’پہلی اور سب سے اہم چیز جس پر میں زور دینا چاہوں گا وہ یہ ہے … یاد رکھیں کہ آپ اب ایک خودمختار قانون ساز ادارہ ہیں اور آپ کو تمام اختیارات حاصل ہیں۔ لہٰذا، یہ آپ پر سب سے بڑی ذمہ داری ڈالتا ہے کہ آپ کو اپنے فیصلے کیسے لینے چاہئیں۔ پہلا مشاہدہ جو میں کرنا چاہوں گا وہ یہ ہے۔ آپ بلاشبہ میری اس بات سے اتفاق کریں گے کہ حکومت کا اولین فرض امن و امان کو برقرار رکھنا ہے، تاکہ اس کی رعایا کی جان، مال اور مذہبی عقائد کا ریاست کی طرف سے مکمل تحفظ ہو۔ دوسری چیز جو مجھے محسوس ہوتی ہے وہ یہ ہے۔ ایک سب سے بڑی لعنت جس سے ہندوستان دوچار ہے ۔ میں یہ نہیں کہتا کہ دوسرے ممالک اس سے آزاد ہیں، لیکن، میرے خیال میں ہماری حالت اس سے کہیں زیادہ خراب ہے۔ رشوت اور بدعنوانی ہے۔ (سنو، سنو۔) یہ واقعی ایک زہر ہے۔ ہمیں اسے آہنی ہاتھ سے نیچے رکھنا چاہیے اور مجھے امید ہے کہ آپ اس اسمبلی کے لیے جلد از جلد مناسب اقدامات کریں گے۔بلیک مارکیٹنگ ایک اور لعنت ہے۔ ٹھیک ہے، میں جانتا ہوں کہ چور بازاری کرنے والوں کو اکثر پکڑا جاتا ہے اور سزا دی جاتی ہے۔ ہمارے عدالتی تصورات کے مطابق سزائیں دی جاتی ہیں، اور بعض اوقات صرف جرمانے عائد کیے جاتے ہیں۔ اب آپ کو اس عفریت سے نمٹنا ہے جو آج معاشرے کے خلاف ایک بہت بڑا جرم ہے، ہمارے اس پریشان کن حالات میں، جب ہمیں مسلسل خوراک یا زندگی کی ضروری اشیاء کی قلت کا سامنا ہے۔ ایک شہری جو بلیک مارکیٹنگ کرتا ہے، میرے خیال میں، سب سے بڑے اور سنگین جرائم سے بڑا جرم۔ یہ چور بازاری کرنے والے واقعی باشعور، ذہین اور عام طور پر ذمہ دار لوگ ہیں، اور جب وہ بلیک مارکیٹنگ میں ملوث ہوتے ہیں تو میرے خیال میں ان کو سخت سزا ملنی چاہیے، کیونکہ یہ اشیائے خورونوش اور اشیائے ضروریہ کے کنٹرول اور ریگولیشن کے پورے نظام کو تباہ کر دیتے ہیں اور تھوک، بھوک، خواہش اور یہاں تک کہ موت کا سبب بنتا ہے۔اگلی چیز جو مجھے مارتی ہے وہ یہ ہے۔ یہاں ایک بار پھر ایک میراث ہے جو ہم تک پہنچا ہے۔ اچھی اور بری بہت سی دوسری چیزوں کے ساتھ ساتھ یہ بڑی برائی بھی آگئی ہے یعنی اقربا پروری اور نوکری کی برائی۔ اس برائی کو بے دریغ کچلنا چاہیے۔ میں یہ بات بالکل واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ میں کسی بھی قسم کی نوکری، اقربا پروری یا براہ راست یا بالواسطہ کسی اثر و رسوخ کو برداشت نہیں کروں گا۔ جہاں کہیں بھی مجھے معلوم ہوا کہ اس طرح کا رواج رائج ہے، یا کہیں بھی جاری ہے، کم یا زیادہ، میں یقینی طور پر اس کا مقابلہ نہیں کروں گا۔‘‘ہم آج 77سال بعد بھی اُن تمام جرائم میں ملوث ہیں بلکہ اب تو سائنٹیفک انداز میں ملوث ہیں جن کو قائد اعظم محمد علی جناح نے لعنت قرار دیا تھا۔
لیفٹیننٹ جنرل و سابق آئی ایس آئی چیف فیض حمید کی گرفتاری کی خبر کے بعد پی ٹی آئی کے پرانے دوستوں کے فون آنا شروع ہو ئے تو میں نے انہیں صاف بتا دیا کہ ’’حقیقت میں عمران نیازی آج گرفتار ہوا ہے۔‘‘ میرے یہ الفاظ لکھ لیں کہ چند دنوں بعد پی ٹی آئی فیض حمید کے خلاف کمپین لاونج کر کے عمران نیازی کو اُس سے الگ کرنے کی کوشش کرے گی لیکن میر ا خیال ہے انہیں ایسا کرنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آئے گی ۔ فیض حمید کے خلاف سب سے توانا الفاظ عمران نیازی کے ہی ہوں گے کیونکہ وہ دنیا میں کسی کا بھی دوست نہیں ہے اورفیض حمید کو بھی معلوم ہو جائے گا کہ جس عمران نیازی کیلئے اُس نے شہیدوں کے یونیفارم میں اور یونیفارم اترنے کے بعد بھی کوئی جائز ناجائز کرنے کیلئے نہیں سوچا وہ اُسے اب اس کا صلہ کیا دیتا ہے۔ جو اپنی قوم سے وفادار نہیں، اپنے حلف سے وفادار نہیں، جس نے یونیفارم میں سیاست کی اور سیاست میں یونیفارم پہنے رکھا اُس کا انجام دنیا کے سامنے ہو گا ۔ ہم تاریخ کے اُس موڑ پر آ چکے ہیں جہاں یا تو ہم نے ’’بندے کے پتر بننا ہے یا پھر مکمل برباد ہونا ہے۔‘‘ فیض حمید اور اُس کے معاونوں، مدد گاروں، سہولت کاروں اور خیر خواہوں کو انجام تک پہنچائے بغیر اب آگے نہیں بڑھا جا سکتا۔ عمران نیازی کی کوئی سزا بھی جسٹیفائی نہیں ہو گی جب تک اُس کی سہولت کاروں کو کٹہروں میں نہیں لایا جائے گا۔ اس میں عدلیہ کے وہ جج بھی آئیںگے جن کے فیصلے سن کر اُن کے بچے کمرہ عدالت میں تالیاں پیٹتے رہے ہیں۔ یہاں انہیں بھی گھسیٹ کر لانا ہو گا جو ملزم کو ’’گڈ ٹوسی یو‘‘ کہتے رہے ہیں۔ مجھے افواج پاکستان
سے مکمل امید ہے کہ وہ صفائی کے اس عمل میں کسی کو رعایتی نمبر نہیں دے گی کہ افواج ِپاکستان کے وقار کی بحالی کیلئے یہ سب سے زیادہ ضروری ہے ۔پاکستانی قوم نے ہمیشہ اپنی افواج کا ساتھ دیا ہے اب افواج کی ذمہ داری ہے کہ وہ پاکستانی قوم کی خواہشوں اورامنگوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ادارے کے اندر رہتے ہوئے جنہوں نے بغاوت کی ناکام کوشش کی ٗ جس ایمپائر کی انگلی کھڑی ہونے کی بازگشت سنائی دیتی رہی ٗ اُن سب کو پاکستانی عوام کے سامنے لانا ہو گا کہ یہ آخری موقع ہے کہ ہم اپنی تاریخ اور سیاست کو درست کرسکتے ہیں ورنہ اگر یہ سانپ یہاں سے نکل گئے تو پھر پاکستان کا بطور پرویز مشرف ’’ اللہ ہی حافظ ہے ۔ پاکستان کے سیاستدانوں نے اگر اس معاملہ میں سیاست سیاست کھیلنے کی کوشش کی تو وہ کوئی بھی ہو بے توقیر ہو جائیں گے ۔ گھاس میں چھپے سانپ اگر باہر نکل آئے ہیں تو اب ان کا سر کچل دینا چاہیے ورنہ ہم سحر تو دور کی بات شاید آثارِ سحر کو ہی ترستے رہیں گے۔
Next Post
تبصرے بند ہیں.