یہ معمول کی صورتحال نہیں ہے، مخصوص نشستوں کے کیس میں چیف جسٹس سپریم کورٹ کے ساتھ بہت سارے کہہ رہے ہیں کہ آئین از سر نو تحریر کر دیا گیا ہے۔ میں اتفاق کرتا ہوں کہ یہ مخصوص نشستیں مسلم لیگ نون، پیپلزپارٹی اور جے یو آئی (ف) وغیرہ کی نہیں تھیں مگر میں اس سے بھی اتفاق نہیں کر سکتا کہ آپ نے پنچائیت طرز کی عدالت لگاتے ہوئے ایک جٹکا فیصلہ کر دیا۔ ملک آئین اور قانون کے مطابق چلا کرتے ہیں اور میرے پاس کوئی ایسی آئینی نظیر موجود نہیں جس میں درخواست کرنے والے کی درخواستیں مسترد کر دی گئی ہوں اور ریلیف اسے فراہم کر دیا گیا ہو جو درخواست گزار بھی نہ ہو۔ میرے سامنے ماضی کے بہت سارے ایسے فیصلے آ گئے جیسے نصرت بھٹو کیس میں پرویز مشرف کی آمریت کو جائزیت عطا کرنے کا سوال تھا اور اس وقت کی سپریم کورٹ نے آگے بڑھتے ہوئے آئین میں ترمیم کرنے کا اختیار بھی دے دیا تھا اور یہ بھی کہ نواز شریف کو پانامہ کے مقدمے میں بلایا گیا تھا اور اقامہ کے مقدمے میں نااہل کر دیا گیا تھا اور بہت پہلے یوں ہوا تھا کہ سابق وزیراعظم کو صرف مشورے کے دفعہ لگاتے ہوئے سزائے موت دے دی گئی تھی۔ خواجہ آصف کھل کے ان آئینی دفعات کو بیان کر رہے ہیں جنہیں ری رائیٹ کر دیا گیا ہے۔
میری چھٹی حس کہہ رہی ہے کہ یہ معاملہ سلجھنے کی بجائے الجھ گیا ہے۔ سپریم کورٹ کے آٹھ جج جن ارکان کو آزاد قرار دے رہے ہیں الیکشن کمیشن انہیں آزاد تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہے مگر معاملہ آگے کا ہی نہیں پیچھے کا بھی بہت زیادہ ڈسکس ہو رہا ہے۔ پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین کو عدالتوں سے ریلیف پر ریلیف ملتا جا رہا ہے جو غیر معمولی ہے اور ہماری اپنی سیاسی و عدالتی تاریخ سے جڑا ہوا ہے۔ اس سے پہلے عدالتوں سے نواز شریف اسی طرح ٹارگٹ بنے تھے اور ان کے بارے سیاسی حلقوں میں یہ مضبوط رائے ہے کہ انہیں ننانوے میں ایٹمی دھماکے کرنے اور موٹرویز بنانے کے جرموں کی سزا دی گئی تھی اور اس کے بعد سی پیک کے آغاز کی۔ سچ تو یہ ہے کہ جن صاحب کو اس وقت ریلیف پر ریلیف دیا جا رہا ہے انہوں نے سی پیک روکنے کے لئے دھرنے دئیے تھے۔ چین کے صدر کا دورہ ملتوی کروا دیا تھا۔ جب وہ خود وزیراعظم بنے تھے تو سی پیک پر کام روک دیا گیا تھا۔ ماہرین کہتے ہیں کہ اگرسی پیک پر کام اسی رفتار سے چلتا رہتا اگلے مالی برس میں ہمارے پاس دس سے بارہ ملین ڈالر کی کمائی صرف سی پیک کی راہداری سے ہوتی۔ یہ آئی ایم ایف کے اس پیکج سے بھی کہیں زیادہ رقم ہوتی جو اب ہمیں تین برس میں آئی ایم ایف سے نئے معاہدے کے بعد ملنے جا رہی ہے۔ میں پہلے خبردار کر چکا کہ شہباز شریف نے پرانے کام کو نئے جوش و جذبے کے ساتھ آگے بڑھانا شروع کر دیا ہے، اس شہباز سپیڈ کے ساتھ جو پہلے پنجاب سپیڈ کہلاتی تھی اور اب اس کا نام پاکستان سپیڈ ہے۔ شہباز شریف نے چین کا دورہ کیا اور معطل شدہ سی پیک کے فیز ون کو ہی بحال نہیں کیا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ فیز ٹو پر بھی آمادگی حاصل کر لی۔ اس سے پہلے وہ ایرانی صدر کو پاکستان کے ایک غیر معمولی دورے میں ویلکم کہہ چکے۔ پاکستان ایک مرتبہ پھر ایران کے ساتھ باہمی تجارت بڑھانے اور گیس پائپ لائن پر دلچسپی ظاہر کر چکا (اور اس پر امریکی دھمکی بھی آ چکی)۔ روس کے دورے میں وزیراعظم شہباز شریف نے یقینی طور پر تجارت اور سرمایہ کاری کے نئے ایونیوز تلاش کئے جو امریکا کو پسند نہیں آئے اور نہ ہی شنگھائی کانفرنس کی یہ بات کہ خطے کے ممالک اپنی اپنی کرنسی میں تجارت کریں۔ وزیراعظم شہباز شریف کا مسئلہ فلسطین پر واضح اور دوٹوک مؤقف بھی بہت ساروں کے پیٹ میں درد پیدا کرتا ہے۔ بھلا امریکا کیسے برداشت کرسکتا ہے کہ ڈالر کو کمزور کیا جائے،اس کی گرفت سے نکلا جائے یا اس کے مشرق وسطیٰ میں بدمعاش کے خلاف بات کی جائے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ایوان نمائندگان کے وہ تمام ارکان جو غزہ میں دنیا کی معلوم تاریخ میں سب سے زیادہ تعداد میں اور سب سے زیادہ بربریت کے ساتھ شہید کئے جانے والے بچوں کی نعشوں پر اکٹھے نہیں ہوئے وہ پاکستان کے انتخابات کی شفافیت پر اٹھائے گئے سوالات پر اکٹھے ہو گئے۔ مجھے اس پر کوئی حیرت نہیں کہ یہ عالمی صیہونی ایجنڈا ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ جنہوں نے خریدنا ہو وہ کسی ملک کے چیف جسٹس اور آرمی چیف کو ہی خریدیں۔
جہاں مخصوص نشستوں کے کیس پرکہا جا رہا ہے کہ نیا آئین لکھا گیا وہاں ناجائز نکاح کیس میں بھی کہا جا رہا ہے کہ نئی شریعت لکھ دی گئی۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ بانی پی ٹی آئی نے عدت میں نکاح کیا اورپھر اس کی تجدید کی یعنی انہوں نے تسلیم کیا کہ انہوں نے شریعت کے واضح احکامات کی خلاف ورزی کی اور بعد میں اس کی تصیح کی۔ میں بانی پی ٹی آئی کے وکلا کی جرح کے نتیجے میں لطیف کے بیانات کی طرف نہیں جانا چاہتا کیونکہ وہ ایک نئے سنگین جرم کی طرف لے جاتے ہیں مگر اب تک کی صورتحال پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس فیصلے کے بعد عدت میں نکاح کوئی شرعی اور قانونی جرم نہیں رہا بلکہ ماتحت عدالت کے ایک جج نے نئی شریعت لکھ دی ہے۔ عدت میں نکاح کو جائز قرار دے دیا گیاہے۔ معاملہ قانونی بھی ہے کہ مسلم فیملی آرڈی ننس کی شق سات کے مطابق یہ ضروری تھا کہ نئے نکاح کی رجسٹریشن سے پہلے یونین کونسل میں طلاق کی رجسٹریشن کروائی جاتی مگر وہ نہیں کروائی گئی جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ جب طلاق کی رجسٹریشن نہیں ہوئی تو پھر نکاح کی رجسٹریشن بھی نہیں ہوئی۔ایک بڑے سیاسی رہنما کی طرف سے قانون سے یہ کھلواڑ عجیب وغریب ہے اور اسے عدالتوں کی طرف سے تحفظ اس سے بھی زیادہ عجیب۔
یہ کہا جا رہا ہے کہ عدت میں نکاح کیس گھٹیا اور شرمناک تھا اورمیں اس سے پوری طرح اتفاق کرتے ہوئے کہتا ہوں کہ اس کیس میں بیان کئے گئے واقعات ہی اصل میں گھٹیا اور شرمناک تھے۔ یہ حرکتیں نہیں کی جانی چاہئے تھیں۔ یہ کہاگیا کہ شریعت اس پر عورت کی گواہی بارے کیا کہتی ہے مگر یہ سوال کرنے والے یہ نہیں بتاتے کہ شریعت ان حرکتوں اور ان پر سزاؤں کے بارے میں کیا کہتی ہے۔ یہ سب کچھ اتنا آسان اور اتنا سادہ نہیں ہے جتنا بیان کیا جا رہا ہے مگر اس مرتبہ مسلم لیگ نون نے مزاحمت کا فیصلہ کیا ہے جو وطن عزیز کی تعمیر و ترقی کے لئے از حد ضروری ہے۔ میرا خیال ہے کہ شہباز شریف یہاں بھی کمال دکھا سکتے ہیں، جی ہاں، شہباز شریف وہی سیاسی جادوگر ہے جس نے اپنے باپ جیسے محترم بھائی کو کوٹ لکھپت جیل سے نکال کے لندن پہنچایا تھا اور ایوان وزیراعظم میں موجود عمران خان کو اس اڈیالہ جیل کا قیدی بنا دیا جہاں مریم نواز کو رکھا گیا تھا۔ کیا سمجھے؟
تبصرے بند ہیں.