عید بعد تصادم کی تیاریاں، اگست تباہ کن

92

21 جون بھی گزر گیا، ککھ نہ ہلیا، لوگ باہر نہ نکلے، عید بعد تصادم کی تیاریاں دھری رہ گئیں، اڈیالہ جیل میں قید خان کو تشویش ہونے لگی کہ وقت ہاتھ سے نکل رہا ہے عوام سڑکوں پر نہیں نکل رہے، نویں دسویں کال بھی ناکام ہوگئی، یہ بھی کوئی نکلنا ہوا کہ اسلام آباد کے علاقہ کراچی کمپنی یا لاہور کے لبرٹی چوک میں درجن دو درجن یوتھیے اچانک کسی کونے کھدرے سے برآمد ہوئے۔ دوچار نعرے لگائے پولیس پکڑنے لگی تو دوڑ لگا دی، پکڑے گئے تو دوسرے دن عدالت سے ضمانت کرا لی، مزہ نہ سواد، بے مقصد تحریک فضول جدوجہد، کبھی خان کی رہائی کے لیے ہلا گلا کبھی آئین کے تحفظ کے نام پر شور شرابہ، بجٹ اجلاس میں خواجہ آصف نے یاد دلایا کہ سب سے پہلے ”دادا جان“ نے آئین توڑا تھا۔ اتنی پرانی تاریخ کسے یاد رہتی ہے۔ انہیں تو یہ بھی یاد نہیں ہوگا کہ انہوں نے کون سا الیکشن شیر کے نشان پر لڑا اور کون سا سائیکل کے نشان پر، دادا جان نے 66 سال قبل جو راہ دکھائی پوتے نے وہی اپنالی آج تک اس پر گامزن ہیں۔ قومی اسمبلی کے اجلاس میں بجٹ پر بحث کے بجائے اپنی محرومیوں کا اظہار، ایم کیو ایم کے فاروق ستار اور مصطفی کمال نے بجٹ پر سیر حاصل خطاب کیا۔ تاہم جو تجاویز دیں وہ تینوں لیڈروں کے لیے ناقابل عمل، بجٹ 28, 29 جون تک منظور ہونا ہے۔ پیپلزپارٹی عین اس موقع پر تنازعات لے کر بیٹھ گئی۔ پنجاب اسمبلی میں آٹھ دس سیٹوں کے عوض 35 فیصد نمائندگی، جنوبی پنجاب میں سپیس (Space) دینے کا مطالبہ لیکن کابینہ میں شمولیت سے گریزاں، اجلاس میں بلاول کھچے کھچے دکھائی دئیے۔ وزیر اعظم نے کمیٹی بنادی، مذاکرات میں ڈیڈ لاک مگر بجٹ منظور ہوگا ورنہ پی پی سمیت تمام سٹیک ہولڈرز گھر جائیں گے۔ تینوں گارنٹر صدر زرداری، نواز شریف اور اسٹیبلشمنٹ حکومت کیسے گرنے دیں گے۔ خان بزعم خود سیاسی چالوں اور یوٹرن پر مطمئن لیکن پینترے بدلنے سے مایوسی کی نشاندہی قوت فیصلہ سے محرومی کا اظہار، تمام آپشن ختم سارے راستے بند، بجٹ کے بعد جس تحریک کی آس لگائے بیٹھے تھے وہ بھی ٹوٹ گئی۔ ”نا امیدی اس کی دیکھنا چاہیے“ خام خیالی، کال پر کال، تاریخ پر تاریخ، اور پھر طویل خاموشی، محمود خان اچکزئی بڑے جوش سے آگے بڑھے، ٹھنڈے ہو کر پیچھے ہٹ گئے۔ مولانا فضل الرحمان سے ”جپھی“ کی آرزو، حضرت مولانا بھی طرح دے گئے۔ اسٹیبلشمنٹ کا کورا جواب، حکومت نے دھتکار دیا۔ ”کوئی تنہائی سی تنہائی ہے“ سیاسی سوجھ بوجھ سے عاری کپتان 10 سہولت کاروں کو اپنا قرار دے بیٹھے کہ ان پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔ آپ کے اعتراف سے ان پر خوامخواہ دباؤ بڑھ گیا۔ بانی پی ٹی آئی کی محبت کا لیبل لگ گیا۔ مذاکرات سے انکار کے بعد پارٹی کے اعتدال پسند ارکان میں مایوسی پھیلی خان کا غصہ ساتویں آسمان پر پہنچ گیا جو ملنے گیا اسے ڈانٹ پڑی، خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور وفاق کو اوٹ پٹانگ دھمکیاں دینے اور 12 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ پر آمادگی کے اظہار کے بعد خان سے ملنے گئے تو ڈانٹ ڈپٹ کا سامنا کرنا پڑا اپنے صوبہ میں بھی تحریک نہ چلا سکے، وزیر اعلیٰ کی تبدیلی کے پی کے اسمبلی تحلیل کرنے کی سرگوشیاں، اعتدال پسند لیڈر، اسلام آباد میں پر اسرار ملاقاتیں کرتے پھر رہے ہیں۔ اوپر تلے چار ملاقاتیں، قائمہ کمیٹیوں کی سربراہی کے علاوہ بھی متعدد معاملات پر غور، سی پیک کے مشاورتی اجلاس میں رؤف حسن اور علی ظفر سمیت تمام سیاسی جماعتوں کی شرکت، چینی وزیر اور وفود شامل، چین کو پیغام دے دیا گیا کہ سب کچھ ہمارے کنٹرول میں ہے۔ تمام جماعتوں کی طرف سے سی پیک کی حمایت، آل اوکے، بالفاظ دیگر مائنس عمران پر اتفاق رائے، اس کے علاوہ ایک اعلیٰ سطح کے اجلاس میں کپتان کو اندر رکھنے کے لیے قانون سازی پر غور، وفاقی وزیر احسن اقبال نے کہا کہ عوام کا فیصلہ ہے کہ ملک کو ترقی دینی ہے تو کپتان کو پانچ سال جیل میں رکھا جائے۔

عید سے پہلے کا سیاسی منظر نامہ، وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور بجلی کے مسئلے پر گرجے برسے، بٹن میرے پاس ہے، اسلام آباد لاہور کراچی سمیت ملک بھر کی بجلی بند کردوں گا، ایم پی اے فضل الٰہی نے گرڈ سٹیشن پر ہلا بول دیا۔ بجلی بحال کی اور چارپائی ڈال کر بیٹھ گئے۔ وفاق کی جانب سے بجلی چوروں کو تحفظ دینے پر ڈانٹ پڑی، بجلی تنصیبات پر رینجرز، ایف سی اور فوج کی تعیناتی اور گورنر راج کی خبروں پر وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی کے گلے جا لگے اور 12 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ پر رضا مند ہوگئے کیا قسمت پائی ہے جیل کے اندر باہر سے ڈانٹ ڈپٹ، پی ٹی آئی کے ویلاگرز بھی مخالف، شہزاد اکبر نے تو ٹاؤٹ قرار دے دیا، پختونوا کے سابق وزیر اعلیٰ عنایت اللہ گنڈا پور کے صاحبزادے انعام الحق گنڈا پور نے اپنے بھائی اسرار الحق گنڈا پور سمیت 6 افراد کے قتل اور 13 زخمی کرنے کا الزام لگا دیا۔ علی امین اور عمر امین گنڈا پور ملزم نامزد، گرڈ سٹیشن پر حملہ کرنے سے 27 لاکھ کی بجلی چوری ہوئی، چار ماہ میں ایک ارب کے خورد برد کا الزام، بڑھکیں دھمکیاں فضول، چار ماہ میں دھیلے کا کام نہیں ہوا۔

خلائی مخلوق ایکٹو ہو رہی ہے۔ خان کا کھیل بگڑ رہا ہے۔ کیسے پتا چلا؟ اپنے شیخ رشید کو کہیں سے اشارہ ملا ہے ”چلہ کاٹنے کے بعد گزشتہ دنوں ٹی وی پر نظر آئے، چلے کے آثار چہرے پر نمایاں“ اعلیٰ نسلی شیخ رشید نہیں تھے۔ اشارہ کہاں سے ملا ویسے بھی اس عمر میں کون اشارے بازی کرے گا، اشاروں کنایوں کی عمر گزر گئی۔ کسی نے کہا کیا شیخ صاحب کو پھر سے نوکری مل گئی ہے؟ کسی نے ان سے نہیں پوچھا تاہم انہوں نے 22 انٹرویو دے ڈالے۔ خان سے عملًا علیحدگی اختیار کرلی۔ 30 اگست کے بعد نہا دھو کر میدان میں آنے کا عندیہ دیا۔ صدر ٹرمپ کی کامیابی کی صورت میں حالات کی تبدیلی کا موہوم سا اشارہ دیا۔ خان بھی نومبر سے امیدیں لگائے بیٹھے ہیں۔ جب امریکی چاچو برسر اقتدار آکر ایک فون کال پر انہیں رہائی دلا کر پھر سے وزیر اعظم بنادیں گے۔ لیکن نہیں جانتے کہ جون جولائی فیصلوں کے مہینے ہیں۔ جبکہ اگست تباہ کن ہو گا۔ سارے محاذ گرم ہیں۔ لڑائی کا نیا مرحلہ شروع ہوگیا۔ دو تین اہم فیصلے آنے والے ہیں پی ٹی آئی نے اپنے راستے خود بند کر لیے۔ خبریں گشت کر رہی ہیں کہ حکومت نے پی ٹی آئی پر پابندی کا فیصلہ کرلیا ہے۔ لیکن فی الحال اداروں کا تناؤ اپنی آخری حدوں کو چھو رہا ہے۔ شہر اقتدار میں ہلچل، حالات کشیدہ، ہائی الرٹ، اداروں میں تبدیلی کی خبریں آپریشن کلین اپ کی تیاریاں، سہولت کاروں کے پر کاٹنے کی سرگوشیاں، اعتدال پسندوں کی جگہ ہارڈ لائنر لانے کا پروگرام، اڈیالہ جیل میں خان کے فرمانبردار افسر کا تبادلہ، قوم یوتھ کا برا وقت شروع، لاف زنیاں، وکلا کے دعوے، رنگ بازوں کے نعرے اپنی جگہ لیکن خان کی آئندہ عیدیں شب براتیں جیل میں گزریں گی۔ ریفرنسز، مقدمات تیار ہیں، کسی بھی دن کسی بھی وقت کسی بھی لمحے کچھ بھی ہوسکتا ہے۔

تبصرے بند ہیں.