یہ دن بھی وطن عزیز کے مقدر میں لکھے تھے کہ صدیوں پرانا محاورہ کالی بھیڑیں جو کہ ہر محکمہ، ہر شعبہ زندگی میں ضرور ہوا کرتی ہیں کم از کم برصغیر تو کبھی ان سے پاک نہیں رہا۔ بڑے ممالک میں بھی پائی جاتی ہیں۔ روس کے ٹوٹنے کی وجوہات بھی اس کے نظام کے اندر ان بھیڑوں کی افزائش تھی۔ جیسے مشرقی پاکستان میں یہ بہت بڑی غلط فہمی پر مبنی میتھ Myth ایک تاریخی افسانہ ہے کہ مجیب الرحمان پاپولر رہنما تھا اور انتخابات جیت گیا تھا۔ مغربی پاکستان میں انتخابات درست ہوئے تھے، مشرقی پاکستان کے انتخابات میں بھارت کا کردار تھا۔ مکتی باہنی ایک چھاپہ مار تنظیم جس کے اراکین کی تعداد ایک لاکھ سے زائد تھی، سالہا سال بھارت نے تربیت دی، ہندو اساتذہ نے ہمارے ہی نصاب میں مضامین شامل کیے اور ان کی تشریح سے مشرقی پاکستان کے طلبہ کے ذہن مغربی پاکستان کے خلاف کیے۔ 1971 سے پہلے چھٹی کلاس کی کتاب جو بعد میں بھی نصاب کا حصہ رہی، انگریزی کتاب جس میں مسٹر جمیل مغربی پاکستان میں رہتا ہے اور کریم مشرقی پاکستان میں، جمیل اور اس کا بیٹا گرمیوں کی چھٹیاں لندن میں گزارتے ہیں۔ جمیل اور کریم دوست بھی ہیں، ان کے بیٹے علی اور اسلم ہیں۔ کریم اس کا بیٹا اسلم مشرقی پاکستان میں گرمیوں کی چھٹیوں میں چائے کے کھیت میں کام کرتے ہیں۔ اب اگر اس مضمون کو ہندو استاد پڑھا رہا ہو تو اقتصادی، طبقاتی ظلم کو بڑھاوا دینا کوئی راکٹ سائنس نہ تھی۔ یوں وہ بچے بڑے ہو گئے، پھر ہمارے حکمرانوں جن میں ایوب خان اور یحییٰ شامل ہیں، نے مشرقی پاکستانیوں کو نفرت، علیحدگی کے پیغامات ہی بھیجے ہیں۔ ہمارے زعما کے بیانات جگر کاٹنے والے تھے۔ بہرحال مکتی باہنی نے انتخابات میں خوف، بر بریت، تشدد اور دھاندلی تو دور کی بات ٹھپے پہ ٹھپہ خود لگا کر مجیب کا پلڑا بھاری کر دیا جس کے پیچھے بھارت اور مکتی باہنی کا کلیدی کردار رہا۔ اگر جاننا ہے کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے تو چند سال پہلے جنرل راحیل اور نوازشریف کے تیسرے دور سے پہلے تک کراچی میں خالی سڑکوں پر انتخابات کے دن نوجوان کرکٹ کھیلا کرتے تھے جبکہ ہزاروں نہیں لاکھوں ووٹ ایم کیو ایم کو پڑ جاتے۔ ایک دہشت اور وحشت کی علامت تنظیم سیاسی جماعت کا روپ اختیار کر گئی جب اس میں سے عسکری ونگ کو فارغ کیا گیا تو پھر انتخابات آپ کے سامنے ہیں۔ یہی صورتحال حالیہ انتخابات میں کے پی کے کے انتخابات کی ہے۔ افغانستان میں پلنے بڑھنے والے عناصر جو ایک تحریک کے نام سے وابستہ ہوئے، عمران نیازی کی حکومتوں میں ان کو خوب نوازا اور پالا گیا۔ آج وہ مسئلہ بن گئے۔ عمران نیازی کے سہولت کار کسی سے چھپے نہیں۔ اپنے ذاتی مقاصد کیلئے اتنا بڑا گھاؤ لگایا گیا کہ اب ہر سمت تباہی ہی تباہی دکھائی دیتی ہے۔ آتے ہیں کالی بھیڑوں کی طرف تو کالی بھیڑیں سازش کرتی ہیں جرائم کا حصہ بنتی ہیں، بظاہر عام بھیڑوں میں چھپی ہوتی ہیں مگر کردار کی کالی ہوتی ہیں، کرتوت کالے ہوتے ہیں۔ اس لیے کہتے ہیں کہ کالی بھیڑیں اور بھڑ بالکل مختلف مخلوق ہے۔ یہ کسی کے چھیڑنے پر اس پر حملہ آور ہوں نہ ہوں مگر بے گناہ ان کا نشانہ ضرور بنتے ہیں۔ یہ دشمن نہیں بے گناہوں، راہگیروں، پورے کے پورے علاقے کو عذاب میں مبتلا کرتے ہیں۔ مگر یہ اکثر چھڑتے چھیڑنے پر ہیں۔ جو چھیڑتا ہے وہ اپنا منہ سر لپیٹ لیا کرتا ہے، اس کے ہاتھ میں آگ کا الاؤ ہوتا ہے۔ یہ بھڑ چھڑے تھے مولوی مشتاق کی لاش پر، میرا ایک لڑکپن سے جاننے والا بعد میں ہائی کورٹ میں جج رہا ہے، کہتا ہے کہ ہماری یوں دوڑیں لگیں کہ مزنگ پہنچنے پر دم لیا۔ گویا کالی بھڑیں ٹارگٹ رکھتی ہیں اور بھڑ بربادی ہر سو پھیلاتے ہیں۔
2008 میں جب کوئی جرأت نہیں کرتا تھا میرا کالم ہم شہری میگزین میں چھپا تھا جس میں بتایا گیا تھا کہ جنرل مشرف کے خلاف سازش تھی جو وکلا تحریک آزادی عدلیہ تحریک چلی اس کے پیچھے جنرل کیانی تھے، افتخار محمد مہرہ تھے اور موجودہ جج جو اپنے آپ کو بھڑ کہتے ہیں یہ ان کے ترجمان تھے۔ افتخار محمد سے نوکری کہیں نہ جانے کا وعدہ تھا وہ بالآخر میاں نوازشریف اور اعتزاز احسن کے نمائشی جلوس کے سیٹ اور ڈرامے میں پورا کر دیا گیا۔ اور ہاں عدلیہ بحال ہو گئی۔ سو کے قریب جج افتخار چودھری نے فارغ کیے جیسے دنیا قبل مسیح اور بعد از مسیح ہے، 9/11 سے پہلے اور 9/11 کے بعد ہے۔ دین اور انسانیت کے حوالے سے دنیا قبل از اسلام یعنی جہالت اور اسلام کے بعد میں تقسیم ہے۔ اسی طرح ہماری عدلیہ افتخار سے پہلے اور افتخار کے بعد اپنی روایات میں مخالف ہو گئی۔ یہی بھڑ تھے جو ایوب خان کے سامنے لیٹ گئے، یہی بھڑ تھے جو گریٹ بھٹو پر ٹوٹ پڑے، یہی بھڑ تھے جو میاں نوازشریف کے خلاف مقدمات میں جج نہیں فریق بن گئے۔ یہی بھڑ تھے جو پانچ پانچ کے ٹولے اور ہم خیال کے نام سے جانے گئے، یہی بھڑ تھے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو بھی نہ بخشا۔ پھر کیا ہوا،ایک جج فقید المثال جج نے 45 سال پہلے بھڑوں کے حملے جس نے گریٹ بھٹو کی جان لی، کو کالی بھیڑیں قرار دیا۔ ان کی اعلیٰ عدالتوں میں تصویریں آویزاں کرنے کی مخالفت کی۔ تاریخ نے ورق پلٹا اور خواجہ آصف نے ایوب خان کی لاش نکال کر باہر پھینکنے کی بات کی، جسٹس گلزار سیٹھ کے فیصلے کی بازگشت سنی۔ میں نے اس فیصلے پر لکھا تھا کہ ”وقار سیٹھ یاد آتے رہیں گے“، لہٰذا وہ یاد آئے۔ بھڑ کو چھیڑنے والے چھیڑ تو دیتے ہیں مگر نشانہ کبھی خود نہیں بنتے لہٰذا بھڑ ایوب، ضیا، یحییٰ، مشرف، پاشا، ظہیرالاسلام، فیض حمید، باجوہ کے چھیڑنے سے چھڑے تھے۔ اب کی بار اگر خود دعویدار ہیں، کالی بھیڑوں کا غصہ تھا تو اپنی تشبیہ جگنوؤں سے ہی کر لیتے جو روشنی دیتے ہیںشمع سے کر لیتے ہیں مگر ہوں تو؟۔ اگر ہیں بھڑ تو پھر یہ اپنے کردار کا اقبال کرنا ہے۔ بہت افسوس ہے کہ یہ جانے بغیر کل بھارت میں مکتی باہنی پرورش پا کر ملک دولخت کر گئی۔ آج ایک اور ہمسایہ ملک میں دہشت گرد امریکی و دیسی روایتی اسلحہ سے مسلح اور تربیت یافتہ پاکستان کے خلاف برسرپیکار ہیں۔ نفرت، جانبداری، بدتمیزی، الزام تراشی عروج پر ہے۔ عدالتی اور حکومتی ایوانوں میں مولا جٹ اور نوری نت کے مکالمے چل رہے ہیں، کسی کو خبر ہے۔ یہودی، قادیانی، بھارتی، پاکستان مخالف امریکی اور دہشت گرد تنظیمیں کیا کر رہی ہیں۔ بھڑ ہمیشہ آگ سے بھاگتے ہیں، اب آگ اس ملک کا مقدر نہیں ہونا چاہئے۔ البتہ کالی بھیڑوں سے تمام اداروں کو صاف ہونا چاہیے۔ اللہ جناب قاضی فائز عیسیٰ اور جنرل سید عاصم منیر سپہ سالار کو توفیق دے اور سلامتی عطا کرے۔
تبصرے بند ہیں.