پی ٹی آئی کے دور میں ہائبرڈ طرز حکومت کے تجربے کے باعث جن عناصر نے اقتدار کے مختلف شعبوں میں مزید اور نچلی سطح تک کنٹرول حاصل کر لیا ہے اب ان کو آسانی سے واپس نہیں بھجوایا جا سکتا۔ عمران خان کو وزیر اعظم اور بزدار کو وزیر اعلیٰ پنجاب بنانے سے یہ منطقی نتیجہ برآمد ہونا ہی ہونا تھا۔ اسی تسلسل میں اب وزیر اعظم شہباز شریف کی قیادت میں وفاقی حکومت مختلف امور میں ایک حد تک مینجمنٹ کی کوشش تو کررہی ہے لیکن کسی قسم کا پختہ تاثر چھوڑنے میں ناکام ہے۔ وزیر اعلیٰ مریم نواز کی سربراہی میں پنجاب حکومت کے بارے میں فوٹو سیشن سے زیادہ کا تاثر نہیں بن پایا۔ سندھ میں وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کی صورت میں ایک بار پھر حکومت سنبھالنے اور ایوان صدر واپس لینے والی پیپلز پارٹی کو صوبے میں ڈاکو راج اور سٹریٹ کرائمز کے سونامی کے سبب سخت تنقید کا سامنا ہے۔ بلوچستان میں پہلے سے طے شدہ پلان کے مطابق وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی کے آجانے کے بعد بھی وزارتوں کی تقسیم کے جھگڑے نے بھونڈا تماشا کھڑا کررکھا ہے۔ کے پی کے میں وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور جو تمام تر سیاست عسکری حلقوں کے نزدیک رہ کر کرتے رہے، کی ذہنی سطح کا عالم یہ ہے کہ ایک نجی ٹی وی کے شو میں دعویٰ کیا تھا کہ ن لیگ کی حکومت نے کلبھوشن کو چھوڑ دیا اور وہ بھارت بھی جا چکا ہے۔ گنڈا پور اپنے پہلے سے برے حالات کا شکار صوبے میں کیا گل کھلائیں گے یہ جاننا مشکل نہیں۔صرف حکومتیں ہی کیوں بلکہ یہ لگ رہا ہے کہ سارا نظام ہی لاوارث ہو چکا۔ اس ماحول میں سابق وزیر اعظم نواز شریف نے خاموشی توڑتے ہوئے چند سینئر صحافیوں کو مدعو کیا اور کچھ گلے، شکوے، کچھ تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اشارہ دیا کہ وہ متحرک سیاسی کردار ادا کرنے کی تیاری کررہے ہیں۔ بعض ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ ن لیگ کی صدارت خود سنبھالنے والے ہیں۔ دیکھنا تو یہ ہے کہ اچانک ایسا کیا ہوگیا کہ ازخود سائیڈ لائن پر لگے نواز شریف کو سامنے آنا پڑگیا۔ بظاہر یہی وجہ نظر آتی ہے پراجیکٹ پی ٹی آئی کو نئی شکلیں دے کر نئے انداز میں برقرار رکھنے کے منصوبے پر عمل درآمد ہوتا دیکھ کر وہ لب کشائی پر مجبور ہو گئے۔ خصوصاً کور کمانڈر پشاور کا وزیر اعلیٰ کے پی کے اور ان کی کابینہ کے اعزاز میں افطار ڈنر سیاسی مخالفین پر بہت بھاری پڑا ہے۔ نواز شریف اب کیا کریں گے اور کیا نہیں کریں گے یہ تو اگلے چند روز میں واضح ہو جائے گا لیکن اصل امتحان تو یہ ہوگا کہ اگر انہوں نے سیاسی ہلچل پیدا کرنے والا کوئی قدم اٹھایا تو اس کا اثر کتنا ہوگا۔ یہ کسی اور کا نہیں ن لیگ کا اپنا قصور ہے کہ اس نے خود کو محدود کیا اور یہ سلسلہ نیا نہیں۔ 2013 میں نواز شریف کے تیسری بار وزیر اعظم بننے کے بعد پارٹی پالیٹکس کے حوالے سے بیزاری کا مظاہرہ کیا گیا۔ مخلص دوستوں نے حالات بھانپتے ہوئے جاکر مشورے دئیے کہ اقتصادی ترقی کے لیے سی پیک سمیت ترقیاتی کاموں میں رکاوٹیں ڈالی جارہی ہیں۔سول حکومتوں اور سیاسی جماعتوں کی مقبولیت کم کرنے کے لیے ایک پالیسی کے تحت مختلف ہتھکنڈے شروع کردئیے گئے ہیں آپ کو الرٹ ہوجانا چاہیے اور جوابی حکمت عملی تیار کرنی چاہیے۔ ن لیگ کی قیادت نے حکومت میں رہتے ہوئے اس پر کوئی توجہ دی نہ اپوزیشن میں آکر۔ نواز شریف لندن جاکر مزید لاتعلق ہو گئے۔ اب ہمیں بتایا جارہا ہے کہ انہیں الیکشن 2024 سے پہلے پاکستان واپس آنے سے پہلے ہی بتا دیا گیا تھا کہ اگلے وزیر اعظم وہ نہیں ہوں گے۔ ڈیپ ا سٹیٹ جس کے بھی خلاف ہوجائے اسکے نام پر سرخ دائرہ لگا دیا جاتا ہے۔ خواہ نواز شریف ہوں یا ڈاکٹر عبدالقدیر۔ ڈیپ اسٹیٹ تو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے بھی خلاف ہے لیکن دیکھیں انہوں نے کس طرح سے حالات کا مقابلہ کرکے مخالفین کے منصوبے چوپٹ کردئیے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو ایک ہی وقت میں فوج، عمران حکومت اور خود عدلیہ کے اندر سے شدید دباؤ کا سامنا تھا۔ اس کے باوجود وہ نہ صرف میدان میں ڈٹے رہے بلکہ ہر اہم موقع پر اپنے وجود کا احساس دلاتے رہے۔نتیجہ یہ نکلا کہ نہ صرف عدلیہ کے اندر موجود آزاد جج ساتھ کھڑے ہوگئے بلکہ بار کونسلوں کی متفقہ حمایت بھی مل گئی۔ سیاسی جماعتوں سمیت دیگر سٹیک ہولڈر بھی ہم آواز ہوگئے۔ چیف جسٹس کا منصب سنبھالنے کے بعد انہوں نے بعض تاریخی فیصلے کیے۔ تصور کریں جب جنرل مشرف کی سزائے موت بحال کی گئی تو ان کے ادارے پر کیا بیتی ہوگی؟ 2019 میں مشرف کو خصوصی عدالت سے سزائے موت سنائی گئی تھی تو اس وقت ڈی جی آئی ایس پی آر میڈیا پر آکر برس پڑے تھے اور کہا تھا کہ عدالت کے اس فیصلے پر فوج میں غم وغصہ پایا جاتا ہے۔ یقیناً آج بھی یہی موقف ہے لیکن براہ راست اظہار کرنے کی بجائے مخصوص یوٹیوبروں اور میڈیا پرسنز سے چیف جسٹس کے خلاف جھوٹی پروپیگنڈا مہم چلا کر ردعمل دیا جارہا ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی ذات ایسے تمام لوگوں کے لیے ماڈل کی حیثیت رکھتی ہے جو مقتدر حلقوں سے اس قدر خائف رہتے ہیں کہ بیٹھے بٹھائے خود کو شکست خوردہ تصور کرلیتے ہیں۔ کہتے ہیں سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ سب سے زیادہ سیاست تو اسٹیبلشمنٹ خود کرتی ہے پھر کیسے سوچ لیا گیا کھیل وعدوں یا یقین دہانیوں کے مطابق چلتا رہے گا۔ اب اگر اسٹیبلشمنٹ اپنی ترجیحات تبدیل کر لیتی ہے تو یہ غیر متوقع ہوگا نہ حیرت انگیز۔
تبصرے بند ہیں.