کمشنر راولپنڈی نے تو معافی مانگ لی ہے لیکن پھر بھی ہر جگہ ایک ہی بات نمک مرچ لگا کر اس طرح کہی جا رہی ہے کہ لوگوں کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ختم ہو جائے اور جو آپ کہہ رہے ہیں اسی پر ایمان لے آئیں ۔ میڈیا کے ایک خاص طبقہ کی جانب سے ایک ہی بات کہی جا رہی ہے کہ عوام نے مینڈیٹ تو تحریک انصاف کو دیا ہے لہٰذا اسے حکومت بنانے دی جائے ۔ ایک ٹی وی ٹاک شو میں پاکستان پیپلز پارٹی کے ایک بندہ نے جب تحریک انصاف والے کو کہا کہ چلیں مان لیا کہ دھاندلی ہوئی ہے تو ہمیںبتا دیں کہ سندھ میں وہ کون سی نشستیں ہیں کہ جنھیں پاکستان پیپلز پارٹی نے جیتا ہے اور ان پر دھاندلی ہوئی ہے تو جواب میں ٹائیں ٹائیں فش۔ اس لئے کہ جتنے بڑے مارجن سے پاکستان پیپلز پارٹی نے اندرون سندھ سے نشستیں جیتی ہیں تو اول تو اتنے بڑے مارجن سے دھاندلی ممکن ہی نہیں دوسرا ان میں سے بہت سی نشستوں پر تحریک انصاف کے امید وار ہی نہیں تھے تو جواب کیا دینا تھا لیکن اس کے باوجود بھی ایک شور ہے کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی کہ جناب دھاندلی ہو گئی مینڈیٹ تو تحریک انصاف کا تھا بڑا ظلم ہو گیا ۔ یہ سوال جب بلاول بھٹو سے ایک صحافی نے کیا تو انھوں نے اگر مگر کے بجائے اس صحافی سے براہ راست ایک ہی بات کہی کہ اگر تحریک انصاف کے پاس عوام کا مینڈیٹ ہے تو وہ حکومت بنا لے ۔جس کے پاس 172 ارکان ہوں گے وہ حکومت بنا لے گا اگر تحریک انصاف کے پاس نمبرز پورے ہیں تو اسے پاکستان پیپلز پارٹی مسلم لیگ نواز یا کوئی بھی جماعت حکومت بنانے سے کیسے روک سکتی ہے ۔ اب اگر دھاندلی کا شور ڈال کر حکومت بنتی تو کب کی بن جانی تھی۔ کمشنر راولپنڈی ایک بیان دیتے ہیں کہ ان کا ضمیر اچانک انگڑائی لے کر جاگ گیا ہے تو پورے ملک میں ایک کہرام مچ جاتا ہے ۔ ایک لمحہ کے لئے رک کر کوئی کمشنر بہادر سے یہ نہیں پوچھتا کہ محترم کمشنر صاحب آپ جو کچھ بھی کہہ رہے ہیں وہ بالکل درست ہو گا لیکن جناب اس کا کوئی ثبوت بھی تو ہو گا ۔ کوئی دستاویزی ثبوت کوئی آڈیو وڈیو کلپ کچھ تو ہو گا آپ کے پاس لیکن نہیں کمشنر صاحب نے ایک بیان دیا اور وہ تو اپنی گاڑی میں بیٹھ کر چلے گئے لیکن پورے ملک میں ہا ہا کاری کا ماحول پیدا ہوا۔
الیکشن ہوئے دو ہفتوں سے زیادہ کا وقت ہو چکا ہے لیکن اتنے دن گذرنے کے باوجود بھی تحریک انصاف یا کسی اور جماعت کی جانب سے کوئی پریس کانفرنس کر کے میڈیا کو ٹھوس ثبوت نہیں دکھائے گئے ۔اسی طرح کسی عدالت میں بھی اب تک اس حوالے سے کوئی رٹ دائر نہیں کی گئی۔ ذاتی سطح پر بالکل اپیلیں دائر ہوئی ہیں لیکن جس طرح تحریک انصاف 180سیٹوں کا دعویٰ کر رہی ہے تو اس طرح مجموعی طور پر ابھی تک کچھ نہیں ہوا البتہ ایک رٹ پٹیشن سپریم کورٹ میں دائر کی گئی۔ جس وقت یہ رٹ پٹیشن دائر ہوئی تو اس وقت ماحول میں بڑی گرما گرمی تھی کہ تحریک انصاف پورے الیکشن پر ہی سوالیہ نشان لگا رہی تھی ۔ مولانا فضل الرحمن، جماعت اسلامی اور جی ڈی اے بھی ان کے ساتھ راگ الاپ رہی تھیں۔ پیر صاحب پگاڑہ اپنے مریدین کے ساتھ ایک بڑے اجتماع کی شکل میں احتجاج کر رہے تھے تو ایسے ماحول میں کیا شاندار جسے نسخہ کیمیا کہنا چاہئے کہ سپریم کورٹ میں رٹ دائر کر دی جاتی ہے کہ پورے الیکشن کو ہی کالعدم قرار دیا جائے یعنی الیکشن نہ ہوا کوئی کھیل تماشا ہو گیا کہ ایک رٹ دائر کریں اور سب کالعدم ۔یہ اسی طرح کی رٹ تھی کہ جیسے تفصیل میں جانے اور دلائل دینے کا تکلف ہی نہیں کیا جاتا تھا اور رٹ دائر کی جاتی تھی کہ تمام مقدمات میں ضمانت دی جائے اور بندیال کورٹ سے ضمانتیں مل بھی جاتی تھیں لیکن یہ ہمارا موضوع نہیں ہے بات الیکشن کی ہو رہی تھی تو الیکشن کم و بیش 60ارب کا پروجیکٹ ہے کوئی مذاق نہیں لیکن پھر ہوا یہ کہ رٹ کرنے والے کو جب سپریم کورٹ سے چھترول کا اندازہ ہوا تو وہ ملک سے ہی بھاگ گئے اور سپریم کورٹ کے بار بار بلانے کے باوجود بھی وہ نہیں آئے اور ہم قاضی صاحب کو سلام پیش کرتے ہیں کہ وہ اس طرح کے عناصر کی صرف چھترول ہی نہیں کرتے بلکہ جرمانے کی شکل میں سبق بھی سکھاتے ہیں ۔
تحریک انصاف نے جس طرح پاکستان پیپلز پارٹی کی پیشکش کو ٹھکرایا ہے اس سے بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ تحریک انصاف کا مقصد حکومت بنانا نہیں اس لئے کہ اتحاد اگر اصولوں کی بنیاد پر نہیں کیا گیا تو پھر سوال یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمن سے ان کے در دولت پر جا کر حاضریاں کون سے اصولوں کے تحت لگائی جا رہی ہیں اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایک مرتبہ پھر حالات کو 2014 کی ڈگر پر لے جایا جا رہا ہے لیکن اس بار کسی کی آشیر باد سے انھیں تحفظ حاصل نہیں ہو گا اس لئے کہ اب دونوں بڑی جماعتیں ایک ساتھ ہیں اورنواز لیگ اس وقت اپنے آپ کو کس حد تک ایزی فیل کر رہی ہے اس کا اندازہ بلوچستان حکومت کے معاملہ پر جمعیت علمائے اسلام کے وفد کے ساتھ سرد مہری کے رویے سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے اور1988 کے بعد پہلی مرتبہ حکومت بنانے والی جماعت کو کراچی جا کر 90 پر حاضری نہیں دینا پڑی بلکہ اس بار گنگا الٹی بہہ رہی ہے۔ دامن کالم میں گنجائش نہیں رہی ہم سمجھتے ہیں کہ کمشنر راولپنڈی ہوں، تحریک انصاف یا کوئی بھی ہو ہر کسی کو آزادی ہونی چاہئے لیکن جس طرح قاضی فائز عیسیٰ نے کہا تھا کہ کوئی ثبوت ہے تو ثبوت پیش کریں اور اگر ثبوت درست ہیں تو پھر پورے انتخابی عمل کو صرف کالعدم قرار نہیں دیں بلکہ جو ذمہ دار ہیں انھیں بھی کٹہرے میں لا کر قرار واقعی سزا دی جائے لیکن اگر ثبوت نہیں ہیں اور سب کچھ سستی شہرت اور ملک میں انتشار اور عدم استحکام پھیلانے کے لئے کیا جا رہا ہے تو پھر جو لوگ بھی یہ کر رہے ہیں ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے اور ملک کو انتشار کی نذر کرنے والوں کے چہرے عوام کے سامنے بے نقاب کئے جائیں ۔
تبصرے بند ہیں.