خیال کی پرواز قبلہ محمد صادق سے محترمہ مریم نواز

87

جھوٹ کا کاروبار گلشن کے کاروبار پر حاوی ہے۔ کل ہائیکورٹ سے فارغ ہوا تو سوچا چیف کلکٹر کسٹم پنجاب (لاہور) جناب محمد صادق صاحب سے رابطہ کروں۔ کہتے ہیں جس شخص کے پاس بیٹھ کر آپ کو روحانی سکون ملے وہ شخص اللہ کا بندہ اور نیک روح ہوتی ہے۔ جناب محمد صادق صاحب ہیں تو ترین پٹھان مگر اپنے نام کے ساتھ خان کا لقب نہیں لگاتے۔ کہتے ہیں کہ گردن میں تھوڑا سا تفاخر کا جھٹکا آتا ہے، جس سے کبر پیدا ہو سکتا ہے۔ جناب محمد صادق خان عجز و انکساری اور شفافیت کا شاہکار شخصیت ہیں۔ فہم قرآن، اردو، عربی، انگریزی، فارسی حتیٰ کی عبرانی پر بھی عبور حاصل ہے۔ میری ان سے نیازمندی ہے۔ پنجاب، سندھ بلکہ پاکستان کے صوفی شعراء بلھے شاہؒ، بابا فریدؒ وارث شاہؒ انہوں نے مجھے مولانا رومی، عبدالقادر بیدل، عمر خیام، نیشاپوری، علامہ اقبالؒ، شاہ عبداللطیف بھٹائیؒ، بابا فرید، میاں محمد بخش، ڈاکٹر محمد حمید اللہ وغیرہ معنویت کے ساتھ تحفہ کیے۔ فون کیا تو وہ کسٹم ہاؤس نہیں بلکہ ٹھوکر نیاز بیگ این ایل سی ڈرائی پورٹ پر چیف گیسٹ کی حیثیت سے گئے ہوئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ملاقات تو این ایل سی پر تھی۔ ساتھ ہی کسٹم کلیئرنگ ایجنٹس کے صدر آغا افتخار کا فون آ گیا کہ بٹ صاحب آپ کو کارڈ واٹس ایپ کیا تھا، آپ آئیں۔ میں نے کہا کہ آپ بلا رہے ہو؟ انہوں نے کہا کہ میں بھی، مگر قبلہ محمد صادق صاحب نے دوچار دن پہلے کہا تھا کہ آپ کو مدعو کرنا ہے۔ انجم صاحب کو ساتھ لیا اور این ایل سی ڈرائی پورٹ چلے گئے، وہاں پر بڑی پُروقار تقریب جاری تھی۔ کسٹم اور این ایل سی کے افسران کسٹم کلیئرنگ ایجنٹس موجود تھے۔ تقریب اس سلسلہ میں تھی کہ ایک سال مکمل ہوا تھا، اس کلکٹریٹ کو قائم ہوئے۔ خوش گفتار، خوش اخلاق، مہمان نواز جناب منیب سرور ڈائریکٹر آئی سی او، محترمہ عظمت طاہرہ کلکٹر ایسٹ محترمہ زہرہ حیدر کلکٹر ویسٹ، محترمہ نیلوفر کلکٹر آئی ایس بی، محترمہ نازیہ سلیم کلکٹر، محترمہ فرح فاروق اے ڈی سی، محترمہ صائمہ ایاز کلکٹر علی زیب اور جناب آصف شبیر بلوچ نمایاں طور پر موجود تھے۔ کسٹم ایجنٹس نے تقاریر کیں اپنے مطالبات پیش کیے اور تمام افسران کو شیلڈز پیش کیں اور پھر آفس میں بھی شیلڈز کا تبادلہ کیا۔ جب قبلہ محمد صادق صاحب تقریر کر رہے تھے تو نہ جانے میرے خیال کا پنچھی پرواز کرتے ہوئے محترمہ مریم نواز نامزد وزیراعلیٰ پنجاب کی طرف کیوں چلا گیا۔ دراصل میں ان پر ویلاگ کرنے والا تھا جو کل تو نہ کر سکا شاید آج کروں۔عمران خان کا قارونیت، فرعونیت اور شدادیت کی خوبیاں سمیٹتے ہوئے اقتدار کا سورج پوری سفاکی اور نااہلیت کے ساتھ نصف النہار پہ تھا۔ اسٹیبلشمنٹ اس کے ساتھ ایک پیج پر مشہور ہوئی۔ مریم نواز نے سات بیٹوں سے زیادہ استقامت دکھائی۔ عمران اور اس کے فالوورز تہذیب، اخلاق دفن کر کے پوری بدتمیزی اور جبر کے ساتھ مسلط تھے۔ یہ مریم نواز کی ہی ہمت و حوصلہ ہے کہ انہوں نے ان کا ہر محاذ پر مقابلہ کیا۔ نیب، جیل، سختیاں سب دیکھیں۔ گڑھی خدا بخش تقریر کرتے ہوئے محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کے مزار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ میری ان کے ساتھ ایک اور بھی نسبت ہے کہ یہ بھی اپنے باپ کے مشن پر لڑتے لڑتے ان کے پہلو میں آ کر قبر میں لیٹ گئیں۔ عمران خان تو امریکہ، باجوہ، محسن نقوی نہ جانے کس کس پر حکومت گرانے کے الزام لگاتے ہیں۔ بہت عرصہ پہلے بلاول بھٹو نے کہا تھا کہ اگر اسٹیبلشمنٹ غیر جانبدار ہو جائے تو عمران حکومت 8 دن میں ختم کر دیں۔

محترمہ مریم نواز کے والد میاں نوازشریف تقریباً 39 سال پہلے 1985ء میں وزیراعلیٰ پنجاب بنے۔ آج ان کی بیٹی وزارت اعلیٰ کے منصب کی ذمہ داری نبھانے کو تیار ہے۔ محترمہ مریم نواز نے روڈ میپ دیا جو میری نظر میں ایک پاپولسٹ روڈ میپ تو ہو سکتا ہے لیکن معاشرت کی بنیادوں میں اتر کر بہتری پیدا کرنے کے لیے شاید کچھ اور اقدامات کی ضرورت ہے۔ محترمہ مریم نواز کے ارادے بہت زبردست اور نیت مثبت ہے مگر اب ان کو اپنے والد اور چچا کے مثبت اقدامات کے ساتھ لی کوان یو کا طرز حکومت فالو کرنا ہو گا اور بہت مشکل ہے سادگی اپنانا ہو گی کیونکہ آدھی آبادی جو عورتوں کی ہے وہ تو ان کے پرس، جوتے اور شاہانہ پہناوے سے ہی حاسد ہے لہٰذا ان کو سادگی خاص طور پر اپنانا ہو گی۔ 18 ویں ترمیم کے بعد صوبوں کے معاملات بہت مختلف اور بہتر ہیں۔ محترمہ مریم نواز کے والد میاں نوازشریف کے عرب امارات، سعودی عرب، قطر، چائنہ اور دیگر ممالک جن میں ترکی بھی شامل ہے ذاتی تعلقات ہیں یہ خارجہ محاذ پر پنجاب کے لیے ان ممالک سے جنگی بنیادوں پر کاروباری انوسٹمنٹ لا سکتے ہیں۔

قبلہ محمد صادق صاحب نے مجھے سنگاپور کے لی کوان یو اور حلیمہ یعقوب کا بتایا۔ باقاعدہ لیکچر دیا۔ لی کوان یو کی پالیسیوں کا نتیجہ حلیمہ یعقوب صدر سنگاپور کی صورت سامنے آیا۔ انہوں نے پہلے سوچا کہ میں بھی دوسروں کی طرح مال بنا کر چلا جاتا ہوں مگر خطے نے سنگاپور کو بدن کا بیکار حصہ قرار دے کر کاٹ پرے کرنے یا خاندان کا بیکار فرد سمجھ کر الگ کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے، اس کا کیا بنے گا؟ بہرحال مجھے قبلہ محمد صادق چیف کلکٹر کسٹم پنجاب نے جس طرح ایجوکیٹ کیا۔ حلیمہ یعقوب کی کہانی سنگاپور کی کہانی یاد آ گئی۔ لی کوان یو نے تین ایم چُنے میرٹ، ملٹی کلچرل ازم اور موٹیویشن۔ اس کا خیال قبلہ محمد صادق صاحب اپنے ماتحتوں میں رکھتے ہیں مگر ان کے رویے میں بلا کی عاجزی اور انکساری ہے جبکہ دیانت داری کی ایک زمانہ گواہی دیتا ہے۔ دلسوزی اور دل سازی ان کی فطرت میں شامل ہے۔ محترمہ رباب سکندر بھی اہلیت اور دیانتداری کے لیے مشہور ہیں اور محترمہ طیبہ کیانی بھی ایف بی آر کا اثاثہ ہیں، اگر مریم نواز بھی سنگاپور کے لی کوان یو اور حلیمہ یعقوب کا طرز حکومت جان لیں، بیوروکریسی کی تعمیر نو کریں۔ صوبائی قوانین میں تبدیلی لائیں، وزیر کو محکمہ کا ہیڈ بنائیں۔ مثلاً ہوم سیکرٹری نہیں بلکہ وزیر داخلہ خود ٹرانسفر پوسٹنگ کے آرڈرز کرے، اونرشپ لے، اتنے لائق وزراء نہ ملیں مگر دیانتداری کا اختیار تو ہے ہاں۔ صوبہ کو ملک سمجھ کر چلائیں، بیرونی سرمایہ کاروں سے رابطہ کریں، اگر قبلہ محمد صادق صاحب، محترمہ رباب سکندر، جناب منیب سرور، محترمہ طیبہ کیانی ایسے افسران صوبہ کو مل گئے، حفیظ پیرزادہ، ڈاکٹر مبشر حسن جیسے وزراء مل گئے تو بیڑا پار۔ مگر ایک بات کا خیال رہے کہ ماتحت پر کڑی نظر رکھنا ہو گی۔ آرمینیا کے ایک شاعر کی بات یاد آئی ہے۔

واعظ نصیحت کر رہا تھا مگر بھیڑیے کا دھیان بھیڑوں کی طرف تھا، گڈریے کو غم تھا ان بھیڑوں کا جو بھیڑیا کھا گیا اور بھیڑیے کو پچھتاوا تھا ان بھیڑوں کا جو بچ گئیں۔

کچھ ایسا ہی خیال مجھے تقریب کے دوران آیا کہ سادگی، عاجزی، دیانت، ذہانت، شرافت، صداقت اور امانت کی چلتی پھرتی درسگاہ قبلہ محمد صادق خان تنولی صاحب جب تقریر (واعظ) کر رہے تھے۔ قبلہ محمد صادق صاحب، کلکٹر محترمہ طیبہ کیانی، محترمہ رباب سکندر، محترمہ قرۃ العین ڈوگر اور دیگر افسران جن کا تذکرہ کر چکا، پنجاب میں بھی درکار ہیں۔ کل روحانیت کی پیاس اور تشنگی نے کہاں سے کہاں کا سفر کرا دیا۔ بس خیال کے ساتھ کچھ خود بھی سفر کیا۔

تبصرے بند ہیں.