ووٹ کی اہمیت!

148

جنرل الیکشن میں محض دو دن باقی ہیں، الیکشن کا شور وغل اور ”تہوار“ اپنے عروج پر ہے۔ میں نے اپنا پچھلا کالم بھی اسی پر لکھا تھا کہ حالات جیسے بھی ہوں مگر آپ اپنا ووٹ ضرور کاسٹ کریں۔ کیوں کہ اسے ضائع کرنے کا مطلب ہے کہ آپ اپنے ملک کے ساتھ مخلص نہیں ہیں۔ اور پھر بسا اوقات ایک ووٹ ہی کسی اْمیدوار کی جیت کا باعث بھی بنتا ہے۔ اور پھر یہ جمہوری ملکوں کا حْسن بھی ہوتا ہے۔ جس کی اہمیت و افادیت سے پورا مغرب مستفید ہو رہا ہے مگر ہم اسے نظریہ ضرورت کے تحت استعمال کر رہے ہیں، اس ووٹ کے بدلے بڑے بڑے برج اْلٹ گئے، بڑی بڑی امپائرز بدل گئیں پھر اسی ووٹ کی اہمیت کے پیش نظر برطانیہ یورپ سے الگ ہوا، جرمنی یورپ میں شامل ہوا، اور سکاٹ لینڈ الگ ملک بنا۔ دنیا بھر میں اگر ایک سنگل ووٹ کی اہمیت جاننی ہو تو چند دہائیاں قبل برطانیہ کی پوری پارلیمنٹ صرف ایک ووٹ پر کئی سال کھڑی رہی یعنی ہائوس آف کامن نے صرف ایک ووٹ (4776کے مقابلے میں 4777 ووٹوں) پر پانچ سال حکومت کی۔ اسی طرح 2008ء میں بھارتی صوبے راجستھان میں جی پی جوشی ایک ووٹ سے ہارے انہیں 62216 ووٹ کے مقابلے میں 62215ووٹ پڑے، پھر 2013میں فلپائن کے صوبے منڈرو میں دو اْمیدواروںکے درمیان 2013ء میں مقابلہ ٹائی ہوگیا، جو بعد میں الیکشن کمیشن نے ٹاس پر فیصلہ کر کے ایک اْمیدوار کے حق میں فیصلہ دے دیا۔ پھر کیوبا میں 2013ء اور 2003ء میں دو بڑی پارٹیاں ایک ایک ووٹ کے مارجن سے جیتیں۔ پھر 1994ء میں صرف 7ووٹوں کی اکثریت سے بھارتی گجرات میں وڈورا سے لوک سبھا کے لئے ایک نوجوان نے جیت حاصل کی اور اسی طرح 1989ء میں بھی صرف 9ووٹوں سے
امیدوار کو آندھرا پردیش میں انکا پلی سے لوک سبھا کے لئے منتخب کیا گیا۔ دہلی میں مشہور فلمی اداکار آنجہانی راجیش کھنہ سے مشہور بی جے پی لیڈر لال کرشن اڈوانی نے صرف5ووٹوں سے جیت حاصل کی تھی۔ پھر پاکستان میں بھی بہت سے Close الیکشن ہوئے جن میں تاریخ کا سب سے بڑا اور پیسے والا ضمنی الیکشن یعنی ایاز صادق اور علیم خان کے درمیان ہونے والے الیکشن میں محض چند سو ووٹ کا فرق تھا، پھر بہت سے امریکی الیکشن ایسے ہوئے ہیں جہاں ایک ایک ووٹ کے فرق سے چار چار سال تک حکومتیں قائم رہیں۔ اسی لیے یہ حقیقت ہے کہ جمہوری نظام میں ووٹ کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ جنرل الیکشن ہوں، سینیٹ الیکشن ہوں یا اسمبلیوں کے اندر ووٹنگ ہو، ایک ایک ووٹ بہت زیادہ قیمتی ہوتا ہے اور ایک ووٹ ہی قوم کی تقدیر کا فیصلہ کرنے کیلیے اہم ہے۔ جمہوری نظام میں تو فیصلے فقط اکثریت کی بنا پر ہوتے ہیں۔ یہاں بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے۔ اس لیے گنتی میں جس کا پلڑا بھاری ہوگیا وہی قوم پر مسلط ہوجاتا ہے۔ کسی کی اہلیت، قابلیت، دیانت اور صداقت کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ فقط گنتی میں ووٹ زیادہ ہوجائیں تو انتخابات کے نتائج میں فرق آجاتا ہے۔ لہٰذا ایک ووٹ کا ہیرپھیر پورے انتخابات کے نتائج کو تبدیل کرنے کیلئے کافی ہو سکتا ہے۔ اس لیے اپنے ووٹ کا درست استعمال قوم کے مستقبل کیلیے بہت ضروری ہے۔ میرے خیال میں ووٹ کا استعمال بہت سوچ سمجھ کر اور چھان پھٹک کر کرنا چاہیے کہ کہیں ایسے شخص کو ووٹ نہ دے بیٹھیں جو بعد میں ملک و قوم کیلئے نقصان دہ ثابت ہو اور ہم اس کے تمام غلط کاموں میں برابر کے گناہ گار ٹھہریں۔ ووٹ دینے کیلئے ذاتی مفادات سے بالاتر ہوکر سوچنا چاہیے۔ اپنے ایک کلو گوشت کے لیے پوری بھینس ذبح نہیں کرنی چاہیے، چھوٹے چھوٹے مفادات کو بڑے بڑے قومی مفادات پر ترجیح دینے سے معاشرے میں تباہی آتی ہے۔فی الوقت تو کسی ووٹر نے چار پانچ ہزارروپے لے کر ووٹ دے دیا لیکن اس کے دورس نتائج اس قدر خطرناک ہوتے ہیں کہ آنے والی کئی نسلیں اس کا خمیازہ بھگتتی رہتی ہیں، یقین مانیں جو پچھلی اسمبلی تھی، اْن میں سے 85فیصد نے پورے 6سال ایک بھی ڈیبیٹ میں حصہ نہیں لیا، 70فیصد اراکین کا قانون سازی میں کوئی عمل دخل نہیں رہا، 65فیصد نے اسمبلی کی کمیٹیوں کی کارروائی تک سنی، دیکھی اور نہ ہی وہاں اْن کا وجود رہا۔بلکہ ایک رپورٹ کے مطابق 88فیصد ممبران قومی و صوبائی اسمبلی محض ڈیسک بجانے یا حاضری لگانے اسمبلیوں میں آتے ہیں، یہ حضرات تو اپنے حلقے کے عوام کی بات کرنے سے بھی قاصر رہتے ہیں۔ لہٰذا کیا کبھی ہم نے سوچا کہ ایسا کیوں ہے؟ میرے خیال میں ایسا صرف اسی لیے ہے کہ ہم وقتی لالچ میں ووٹ دے دیتے ہیں۔ ہم وڈیروں اور چوہدریوں کے کہنے پر ووٹ دیتے ہیں۔ یہ تو کہیں کہیں ہوتا ہے لیکن گلیاں نالیاں پختہ کرنے پر ووٹ دینے کی وبا تو پورے ملک میں عام ہے۔پھر اگر آپ قومی و صوبائی اسمبلی کے ممبر بن جاتے ہیں تو پھر بات لاکھوں، کروڑوں روپے کی بولی تک پہنچ جاتی ہے، لیکن ووٹ کا احترام، ووٹ کا تقدس، ووٹ کی افادیت، اہمیت اور ووٹ کی جمہوری طاقت کھڈے میں چلی جاتی ہے۔ بہرکیف اگر ہم نظام میں حقیقی تبدیلی چاہتے ہیں تو ہمیں ووٹ کی اہمیت کو ملکی سطح پر اْجاگر کرنا ہوگا، کہ آخر ووٹ ہے کیا؟ کیوں ساری دنیا اس ایک ووٹ کی اہمیت کو لے کر پانچ پانچ سال گزار دیتی ہے، کیوں یورپ میں ایک ووٹ کے ضائع ہونے پر صف ماتم بچھ جاتی ہے، جبکہ ہمارے جنرل الیکشن میں 15، 20 لاکھ ووٹ ضائع ہو جاتے ہیں۔ اس لیے خدارا! اپنے اندر سیاسی شعور پیدا کیجئے۔ اپنے ووٹ کی اہمیت کو جانیے اور اتنی معمولی چیزوں پر ووٹ کو فروخت نہ کیجئے۔ بقول شاعر یوں تو پتھر کی بھی تقدیر بدل جاتی ہے مگر شرط یہ ہے کہ اپنے آپ کو تھوڑا سا ہی سہی ،مگر بدلا جائے۔

تبصرے بند ہیں.