راولپنڈی ، اسلام آباد کے انتخابی منظر نامے کا جائزہ لیتے ہوئے اس امر کو پیشِ نظر رکھنا ہو گا کہ ملک گیر سطح پر یا کم از کم پنجاب کی سطح پر کونسی سیاسی جماعت کی کامیابی کے حق میں حالات زیادہ ساز گار ہیں۔ بلا شبہ مسلم لیگ ن اس وقت انتخابی دوڑ میں آگے نظر آتی ہے اور اس کے اثرات یہاں راولپنڈی، اسلام آباد میں بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ تاہم سیاسی جماعتوں کی مقبولیت اور ووٹ بینک کے ساتھ اُن کے انتخابی اُمیدواروں کی قومی سیاست میں حیثیت ، مقام اور مرتبے اور اُن کے ذاتی ووٹ بینک کا بھی انتخابی نتائج میں ایک مؤثر کردار ہوتا ہے ۔ ان سارے پہلوئوں کو سامنے رکھتے ہوئے اسلام آباد کے قومی اسمبلی کے تین حلقوں اور راولپنڈی کے قومی و صوبائی اسمبلی کے جملہ حلقوں کا ایک اجمالی ساجائزہ لیا جاتا ہے۔
اسلام آباد قومی اسمبلی کے NA-46 ، NA-47 اور NA-48 تین حلقوں پر مشتمل ہے۔ NA-46 سے مسلم لیگ ن کے انجم عقیل خان ، جماعتِ اسلامی کے میاں محمد اسلم اور پیپلز پارٹی کے راجہ عمران اشرف انتخابی دوڑ میں شامل ہیں تو تحریکِ انصاف سے وابستگی رکھنے والے عامر مغل بھی بطور آزاد اُمیدوار انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ انتخابی مہم کے لحاظ سے دیکھا جائے تو انجم عقیل خان اور میاں محمد اسلم بہت پہلے سے بالواسطہ طور پر اپنی انتخابی مہم چلاتے چلے آ رہے ہیں۔ انجم عقیل اور میاں محمد اسلم اس سے قبل 2013ء اور 2018ء میں بھی یہاں سے انتخابات میں حصہ لے چکے ہیں جبکہ راجہ عمران اشرف اور عامر مغل یہاں سے نئے اُمیدوار ہیں۔ 2018ء میں یہاں سے تحریکِ انصاف کے اسد عمر ووٹوں کی واضح برتری کے ساتھ کامیاب ہوئے تھے لیکن اُس وقت تحریکِ انصاف کو مقتدرہ کی مکمل تائید اور حمایت حاصل تھی۔ اب تحریکِ انصاف کے لیے وہ حالات نہیں رہے تو کہا جاسکتا ہے کہ انجم عقیل خان کے لیے حالات ساز گار نظر آتے ہیں۔ اسلام آباد کی پُرانی دیہی آبادیوں کی بڑی برادریاں بھی اُن کی حمایت کا اعلان کر چکی ہیں ۔ البتہ مسلم لیگ ن سے ہی تعلق رکھنے والے سید ذیشان نقوی جو مسلم لیگ ن کے ٹکٹ کے طلبگار تھے وہ بھی مقابلے میں کھڑے ہیں۔ جس کی وجہ سے انجم عقیل خان کو کچھ نقصان پہنچ سکتا ہے۔
اسلام آباد کے حلقہ NA-47کا جائزہ لیں تو یہاں سے مسلم لیگ ن کے طارق فضل چوہدری ، تحریکِ انصاف سے وابستہ شعیب شاہین ایڈووکیٹ، پیپلز پارٹی کے سبط حسن ، آزاد اُمیدوار مصطفی نواز کھوکھر اور جماعتِ اسلامی کے کاشف چوہدری مدِ مقابل ہیں۔ طارق فضل چوہدری اس سے قبل 2013ء کے انتخابات میں کامیاب ہونے کے بعد وفاقی وزیر بھی رہے ۔ شعیب شاہین اس حلقے میں نئے ہیں لیکن الیکٹرانک میڈیا پر تحریکِ انصاف کے مئوقف کی ترجمانی کی بنا پر غیر معروف نہیں۔ مصطفی نواز کھوکھر ایک خودار اور بلند ویژن کے مالک نوجوان سیاسی رہنما کے طور پر انتخابی میدان میں موجود ہیں تو انہیں اپنے مرحوم والد سابق وفاقی وزیر و ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی حاجی نواز کھوکھر کے وسیع تر تعلقات اور اپنے خاندانی اثر و رسوخ کا فائدہ بھی حاصل ہے۔ دیکھتے ہیں کہ کامیابی کس کے قدم چومتی ہے مقابلہ بہر کیف سخت ہے۔
اسلام آباد کے حلقہ NA-48 سے مسلم لیگ ن نے اپنے کسی اُمیدوار کو ٹکٹ نہیں دیا ہے ۔ یہاں وہ تحریکِ انصاف سے تعلق توڑنے اور استحکام ِ پاکستان
پارٹی سے وابستگی اختیار کرنے والے اُمیدوار خرم نواز کی حمایت کر رہی ہے۔ اُن کے مقابلے میں مصطفی نواز کھوکھر آزاد ، ملک عبدالعزیز جماعتِ اسلامی اور علی بخاری تحریکِ انصاف سے وابستہ آزاد مقابلے میں موجود ہیں۔ اس حلقے میں جو زیادہ تر اسلام آبا دکے شہری علاقے کے بجائے دیہی یونین کونسلوں پر مشتمل ہے مصطفی نواز کھوکھر کی پُر زور انتخابی مہم اور روایتی حمایت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
اسلام آباد کے قومی اسمبلی کے تین حلقوں کے جائزے کے بعد راولپنڈی کی طرف آتے ہیں ۔ راولپنڈی قومی اسمبلی کے NA-51 سے NA-57 تک سات اور صوبائی اسمبلی کے PP-6 سے PP-19 تک چودہ حلقوں کو سمیٹے ہوئے ہے۔ یہاں کے انتخابی منظر نامے کا جائزہ لیں تو صورتحال بڑی حد تک اسلام آباد سے ملتی جلتی نظر آتی ہے۔ مسلم لیگ ن نے یہاں قومی اسمبلی کے ایک حلقے NA-54 کو چھوڑ کر باقی چھ حلقوں اور صوبائی اسمبلی کے تمام چودہ حلقوں پر اپنے اُمیدوار کھڑے کر رکھے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر وہی اُمیدوار ہیں جو اس سے قبل 2018ء میں یہاں سے انتخابات میں حصہ لے چکے ہیں اور تحریکِ انصاف کے اُمیدواروں اور شیخ رشید احمد کے مقابلے میں ناکامی سے دوچار ہوئے تھے۔ تحریکِ انصاف 2018ء کے انتخابات میں یہاں سے صوبائی اسمبلی کی دو نشستوں کو چھوڑ کر قومی اور صوبائی اسمبلی کی تمام نشستوں پر کامیاب رہی تھی۔ اب حالات میں واضح تبدیلی آ چکی ہے اور بظاہر مسلم لیگ ن کا جادو سر پر چڑھ کر بولتا نظر آ رہا ہے تو کہا جا سکتا ہے کہ مسلم لیگ ن یہاں سے بہتر پوزیشن لینے میں کامیاب ہو گی۔ تاہم اس پہلو کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ مسلم لیگ ن کے جتنے بھی اُمیدوار یہاں سے قومی یا صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں وہ جماعتی وابستگی اور اپنی قیادت کی فرمانبرداری کے لحاظ سے معیار پر پورے اُترتے ہونگے لیکن ان میں سے ایک دو کو چھوڑ کر باقی اوسط درجے کی ذاتی اہلیت ، قابلیت اور سیاسی مقام و مرتبے کے مالک سمجھے جاتے ہیں۔ بہر کیف ان کے لیے 2018ء کے مقابلے میں اب حالات ساز گار ہیں اور بظاہر یہ پُر زور انداز میں اپنی انتخابی مہم بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔
سڑکوں پر پینا فلیکس اور بینرز وغیرہ بھی زیادہ انہی کے نظر آتے ہیں۔ قومی اسمبلی کے حلقہ NA-51 جو مری اور کہوٹہ تحصیلوں پر مشتمل ہے سے بات شروع کریں تو یہ ایسا حلقہ ہے جہاں 2018ء کے عام انتخابات کو چھوڑ کر اس سے قبل کے انتخابات میں مسلم لیگ ن کو برتری حاصل رہی ہے اور مسلم لیگ ن کے سابقہ اہم رہنما اور سابق وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی مسلسل کئی بار یہاں سے کامیابی سمیٹتے رہے ہیں ۔ اس بار وہ انتخابات میں حصہ نہیں لے رہے تو مسلم لیگ ن نے راجہ اُسامہ سرور کو یہاں سے اپنا اُمیدوار نامزد کیا ہے جبکہ تحریکِ انصاف سے وابستہ آزاد اُمیدوار میجر (ر) لطاسب ستی ، تحریک لبیک پاکستان کے محمد جاوید اختر عباسی اور جماعتِ اسلامی کے محمد صفیان عباسی ان کے مدِ مقابل ہیں۔ شاہد خاقان عباسی اور اُن کے دھڑے کی حمایت نہ ہونے کی وجہ سے مسلم لیگ ن کے اُمیدوار کی پوزیشن کمزور سمجھی جا سکتی ہے جس کا فائدہ تحریکِ انصاف کے اُمیدوار میجر لطاسب ستی جو 2018ء کے انتخابات میں صوبائی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے تھے کو پہنچ سکتا ہے۔
قومی اسمبلی کے حلقہ NA-52 جو تحصیل گوجر خان پر مشتمل ہے کی بات کریں تو یہاں انتہائی زور دار مقابلے کی توقع کی جاسکتی ہے یہاں پر پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے قومی اسمبلی کے اسپیکر راجہ پرویز اشرف مقابلے میں موجود ہیں تو مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والے اُن کے روائتی حریف راجہ جاوید اخلاص اور ان کے علاوہ تحریکِ انصاف سے وابستہ طارق عزیز بھٹی اور تحریکِ لبیک کے ٹکٹ پر چوہدری محمد ریاض بھی مقابلے میں موجود ہیں۔ چوہدری ریاض کا تعلق مسلم لیگ ن سے رہا ہے اب وہ تحریکِ لبیک پاکستان کے ٹکٹ پر انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں تو اس کا یہ مطلب لیا جا سکتا ہے کہ مسلم لیگ ن کے اُمیدوار پر اس کا منفی اثر پڑے گا۔ تحریکِ انصاف کے طارق عزیز بھٹی اپنے خاندانی اور جماعتی اثر و رسوخ کی بنا پر معقول تعداد میں ووٹ لے سکتے ہیں تاہم اصل مقابل بہر کیف راجہ پرویز اشرف اور راجہ جاوید اخلاص کے درمیان ہی ہو گا۔
NA-53 قومی اسمبلی کا ایسا حلقہ ہے جس پر بہت سارے لوگوں کی نظریں لگی ہوئی ہیں کہ یہاں پر مسلم لیگ ن سے راہیں جدا کرنے والے اہم رہنما اور سابق وفاقی وزیر چوہدری نثار علی خان انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں تو انہیں مسلم لیگ ن کے راجہ قمر الاسلام اور تحریک انصاف کے کرنل ریٹائرڈ اجمل صابر سے مقابلہ درپیش ہے۔ حلقے کی معروضی صورتحال، انتخابی مہم کے رنگ ڈھنگ اور انتخابی جلسوں کے انعقاد اور ان میں حاضرین کے جوش و جذبے اورتعداد کو سامنے رکھا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ قومی اسمبلی کے اس حلقے اور اس کے ذیلی صوبائی حلقے PP-10 (جہاں سے بھی چوہدری نثارعلی خان صوبائی اسمبلی کے اُمیدوار ہیں) میں چوہدری نثار علی خان کی پوزیشن کافی مضبوط نظر آتی ہے۔ راجہ قمر الاسلام بھی اپنا پورا زور لگا رہے ہیں اور انہیں صوبائی اسمبلی کے حلقہ 11 سے مسلم لیگ ن کے اُمیدوار نعیم اعجاز جو بلیو ورلڈ سٹی کے مالک و مختار ہیں کے وسائل اور اثر و رسوخ کی بھرپور حمایت بھی حاصل ہے۔ جہاں تک تحریکِ انصاف سے وابستہ کرنل اجمل صابر کا تعلق ہے وہ خود نظر بند ہیں اور بظاہر کھل کر اپنی انتخابی مہم چلانے سے قاصر نظر آتے ہیں ۔ اس طرح کہا جا سکتا ہے کہ چوہدری نثار علی خان اور راجہ قمر الاسلام کے درمیان سخت معرکہ بپا ہو گا۔
راولپنڈی کا قومی اسمبلی کا حلقہ NA-54 جو ٹیکسلا واہ اور تحصیل راولپنڈی کے تھانہ صدر بیرونی اور تھانہ چونترہ کی ایک دو یونین کونسلوں پر مشتمل ہے اس لحاظ سے اہمیت کا حامل گردانہ جا سکتا ہے کہ یہاں سے چوہدری نثار علی خان آزاد اُمیدوار کی حیثیت سے میدان میں موجود ہیں تو اُن کے روائتی حریف سرور خان جو پچھلے انتخابات میں تحریکِ انصاف کے ٹکٹ پر چوہدری نثار علی خان کو NA-57 (موجودہ NA-53 ) اور NA-63 (موجودہ NA-54 ) دونوں حلقوں سے شکست سے دوچار کر چکے ہیں اُن کے مدِ مقابل ہیں۔ سرور خان اس بار استحکامِ پاکستان پارٹی کے پلیٹ فارم سے یہ انتخاب لڑ رہے ہیں ۔ مسلم لیگ ن نے اُن کے مقابلے میں کسی اُمیدوار کو ٹکٹ نہیں دیا لیکن مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والے بیرسٹر عقیل ملک آزاد حیثیت سے مقابلے میں موجود ہیں۔ تحریکِ انصاف نے یہاں سے تیمور مسعود کو اپنا اُمیدوار نامزد کر رکھا ہے۔ 8 فروری کو کیا نتائج سامنے آتے ہیں اس سے قطع نظر چوہدری نثار علی خان اس حلقے سے بھی اپنی کامیابی کے لیے پُر اُمید نظر آتے ہیں۔
تبصرے بند ہیں.