پی آئی اے کی نجکاری ایک نقطہ نظر

76

پاکستان مزدور محاذ کے مرکزی سیکرٹری جنرل شوکت علی چودھری نے پی آئی اے اور دیگر اداروں کی نجکاری کے حوالے سے اپنا مدلل نقطہ نظر پیش کیا ہے۔ جسے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔

پاکستان کی نگران حکومت آئی ایم ایف سے PDM حکومت کے کیے ہوئے معاہدے کے تحت قومی ادارے PIA کی نجکاری کو آخری شکل دینے میں مصروف ہے اور بقول نج کاری کے انچارج فواد حسن فواد کے نج کاری کا 95فیصد کام مکمل ہو چکا ہے اور بقیہ 2 فیصد کی منظوری کابینہ سے لینی ہے جو بآسانی مل جائے گی اور اس کے بعد پاکستان کے قیام کے بعد پاکستانیوں نے اپنے وسائل اور اپنی محنت سے جس ادارے کو قائم کیا تھا جس نے دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیا کی ایوی ایشن مارکیٹ میں اپنی دھاک بٹھا دی تھی اس کے علاوہ اس ادارے کے محنتی اور جفاکش و محب وطن محنت کشوں اور افسران و انتظامیہ نے دنیا کے بہت سے ممالک کو فضائی کمپنیاں بنانے میں تکنیکی مہارت مہیا کی تھی اور چند ایک ممالک کو پوری پوری ایئر لائنز قائم کر کے دی تھیں وہ ادارہ تو تباہی و بربادی سے دو چار ہے لیکن اس کے تعاون و اشتراک سے بننے والے ادارے آج کروڑوں نہیں اربوں کما رہے ہیں تو آخر کیا وجہ ہے کہ PIA جیسی کامیاب ترین ایئر لائن کے ذمہ اس وقت 785 ارب روپے کے واجبات اور 713 روپے کا نقصان ہے جو سقوط ڈھاکہ کے بعد جب یہ قومی ایئر لائن آدھی رہ گئی تھی اور اس کے بہت سے جہاز بھی مشرقی پاکستان میں رہ گئے تھے اس وقت بھی ایسے خسارے کا شکار نہیں ہوئی تھی اور PIA کے محنت کشوں اور ادارے کی انتظامیہ نے بہت کم عرصہ میں PIA کو دوبارہ اپنے قدموں پر کھڑا کر دیا تھا۔

لیکن اب یہ کہا جا رہا ہے کہ ملکی معیشت پر بوجھ بننے والے ادارے کو فروخت کر دیا جائے۔ یہاں میں ایک بات بتلاتا چلوں کہ PIA اور دیگر قومی اداروں کی نج کاری کا فیصلہ PDM کی حکومت، جس میں PTI کو چھوڑ کر ملک کی 13 جماعتیں حصہ دار تھیں، نے IMF سے تین ارب ڈالر کا معاہدہ کرنے کے فوراً بعد ہی کر لیا تھا۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکومتوں میں آنے والے قائدین پاکستان کے تمام قومی اداروں کو بہتر اور منافع بخش بنیادوں پر مستحکم کرنے کی منصوبہ بندی کرتے تاکہ یہ ادارے ماضی کی طرح ملکی ترقی اور خوشحالی میں اپنا کردار ادا کرتے لیکن ہوا سب اس کے برعکس کہ 1986 کے بعد جیسے ہی امریکہ کی طرف سے ”نیو ورلڈ آرڈر“ کا اعلان ہوا اور یہ پالیسی آئی کہ ادارے چلانا اور کاروبار کرنا حکومتوں کا کام نہیں ہے تو ہمارے حکمرانوں نے فوراً اپنے قومی اداروں کو اونے پونے داموں فروخت کرنے کا آغاز کر دیا اور یہ کوشش شروع کر دی کہ یہ ادارے اونے پونے اپنے من پسند افراد یا کمپنیوں کے ہاتھوں فروخت کر دیئے جائیں۔ اس دن کے بعد حکمرانوں نے جو بھی پالیسیاں بنائیں ان میں قومی اداروں کی بہتری، انہیں جدید بنیادوں پر ترقی دینے کو یکسر نظر انداز کر کے ان تمام اداروں، جن میں سٹیل مل اور پاکستان ریلوے سمیت بہت سے ادارے شامل ہیں، کو بے یارو مدد گار تباہ ہونے کے لیے چھوڑ دیا گیا۔

آپ کہہ سکتے ہیں پاکستان کے قومی اداروں کی تباہی و بربادی میں ملک کے پالیسی ساز اداروں اور حکمرانوں کی ناقص حکمت عملی نے اہم ترین کردار ادا کیا ہے۔ آج نہیں تو کل PIA اس کے بعد سٹیل مل، ریلوے اور دیگر لاتعداد ادارے ہمارے قومی ادارے نہیں رہیں گے۔ حکمران اشرافیہ کی کوئی جماعت بھی نجکاری پالیسی کے ملکی عوامی معاشی حالات اور نقصانات کو زیر غور لانے پر آمادہ نہیں اور ابھی تک نجی اداروں کو قومیانے کے خلاف غم و غصہ ختم نہیں ہو رہا پبلک سیکٹر کے خاتمے اور تمام ریاستی وسائل نجی سرمایہ کاروں کے رحم و کرم کے حوالے کر دیئے گئے ہیں قومی اور اجتماعی ملکی سرمایہ نام کی کوئی چیز اب نا پید ہو چکی ہے یہ پالیسی بیان تک دینے سے بھی خوف زدہ دکھائی دیتے ہیں کہ ملکی معیشت میں نجی سرمایہ کاری کو قومی ملکیت میں نہیں لیا جائے گا اور مزید کسی پبلک سیکٹر اور ریاستی وسائل صرف نجکاروں کے حوالے نہیں کیے جائیں گے جب تک حکمران اس پالیسی کا اعلان نہیں کرتے کوئی ریاستی، قومی وسائل پبلک سیکٹر اداروں کو مضبوط بنیادوں پر کام نہیں کرنے دیں گے اور اونے پونے داموں نجکاروں کے حوالے کر دیں گے اسی وجہ سے پی آئی اے، سٹیل مل اور ریلوے کو اس نہج پر پہنچایا گیا ہے قومی اداروں کی تباہی بد نیتی سے کی گئی اور اب بھی قومی اداروں کو مضبوط بنیادوں پر منافع بخش کاروبار کی طرز پر چلانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

حکومتی سطح پر اس بات کا جائزہ لینے کی کوشش نہیں کی جاتی کہ جو قومی ملکیت کے ادارے نجکاروں کو فروخت کیے گئے کیا وہ چل رہے ہیں یا بند ہیں اور کتنی ورک فورس کو روزگار سے محروم کر دیا گیا ملکی معیشت کی بہتری پبلک سیکٹر کے خاتمے سے ممکن نہیں ہے۔نجی اداروں کو قومیانے سے توبہ قبول کریں اور ساتھ ہی پبلک سیکٹر کے مکمل خاتمے سے پرہیز کا اعلان کیے بغیر ان اداروں کا منافع بخش بنیادوں پر قائم رہنا محفوظ نہیں رہ سکتا۔

تبصرے بند ہیں.